فکر و نظر

پی ایف آئی: مسلم نوجوان ایک بار پھر نشانے پر؟

بہت سے الزامات جو آج پی ایف آئی پر لگائے جا رہے ہیں، کم و بیش ان ہی الزامات کا پٹارہ سیمی کے خلاف بھی کھولا گیا تھا۔سیمی کی طرف سے دائر کئی اپیلیں کئی دہائیوں سے عدالت اعظمیٰ کی کارروائی کی منتظر ہیں۔اگر یہ انصاف ہے تو ظلم اور ناانصافی کسے کہتے ہیں؟ اندیشہ ہے کہ یہی ڈرامہ دوبارہ کھیلا جا رہا ہے۔

فوٹو: پی ٹی آئی

فوٹو: پی ٹی آئی

ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس کے سربرا ہ موہن بھاگوت کی چند مسلم دانشوروں کے ساتھ میٹنگ اور اس کے بعد ان کا ایک مسجد و مدرسہ کے دورے سے لگ رہا تھا کہ شاید اس آؤٹ ریچ کے بعد مسلمانوں کو سانس لینے کا موقع فراہم گا۔مگر  اس کے چند ہی دنوں بعد پورے ملک میں مسلم نوجوانوں کی ایک تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) پر شکنجہ کس دیا گیا۔

نہ صرف الزامات کی بوچھاڑ کرکے اس پر پابندی لگائی گئی، بلکہ پورے ملک میں ابھی تک چھاپوں کے ایک لامتناہی سلسلہ میں 250کے قریب اس کے اراکین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اگر واقعی اس تنظیم کے ممبران غیر قانونی سرگرمیوں  میں ملوث ہیں تو ان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے، مگر یہ یاد رہے کہ اسی طرح کی کاروائی 2001میں اس وقت کی مسلم نوجوانوں کی تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک مومنٹ آف انڈیا (سیمی) کے خلاف بھی کئی گئی تھی۔

بہت سے الزامات جو آج پی ایف آئی پر لگائے جا رہے ہیں، کم و بیش ان ہی الزامات کا پٹارہ سیمی کے خلاف بھی کھولا گیا تھا۔ جن افراد نے بعد میں سیمی کے کارکنان کے کیسز کی پیروی کی ہو یا جن صحافیوں نے عدالتی ٹریبونل، جو پابندی کی ایپل کی شنوائی کر رہا تھا، کی کارروائی کور کی ہے، ان کو معلوم ہوگا کہ کیسے بودے الزامات لگائے گئے تھے۔

مگر ان کے نتیجے میں کتنی زندگیاں تباہ و برباد ہوگئیں، اور سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو جو معاشرہ میں مثبت کام کرسکتے تھے، برسوں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑے۔ آج ہی کی طرح اس وقت بھی ملی تنظیموں کو سانپ سونگھ گیا تھا اور وہ سیمی کا نام سنتے ہی کانوں کو ہاتھ لگاتی تھیں۔

امریکہ میں ٹریڈ ٹاور کی تباہی اور القاعدہ کی کارعوائی کے دو ہفتہ بعد یعنی 29ستمبر 2001کو سیمی پر جب پابندی لگائی گئی تھی، تو بتایا گیا کہ وہ ہندوستان میں خلافت کا نظام قائم کرنا چاہتی تھی۔ پی ایف آئی پر بھی الزا م ہے کہ 2040 تک وہ ملک میں اسلامی نظام قائم کرنے کے درپے تھی۔ یہ نظام تو مسلم اکثریتی والے ممالک  لاگو نہیں کرپائے  تو جس ملک کی 80فیصد آبادی غیر مسلم ہو وہاں یہ نظام کیسے لاگو کیا جاسکتا ہے؟

بقول  جید اسکالر ڈاکٹرظفرالاسلام خان، خواب دیکھنے پر کیسے پابندی لگائی جاسکتی ہے۔  ایک جمہوری ملک میں جہاں حکومتوں یا نظام کو تبدیل کرنے کا پر امن متبادل موجود ہے، بزور طاقت کسی نظریہ کو مسلط کرنے کا کوئی جوا ز ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ حکومتوں کے لیےبھی لازم ہے کہ ہر نظریہ کے حامل افراد کو جو امن، سلامتی، ا ستحکام، رواداری اور بھائی چارہ میں یقین رکھتے ہوں،  اور پر امن طور پر اپنے نظریات کی تبلیغ کا م کرتے ہوں، کو یکساں مواقع اور حقوق فراہم کرے تاکہ معاشرہ سے تشدد کا جواز ہی ختم ہو جائے۔

سیمی پر غداری، بغاوت، ملک دشمنی، پاکستان اور بنگلہ دیش کے دہشت گردوں سے روابط، اسامہ بن لادن اور القاعدہ سے قریبی تعلق رکھنے،فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے اور فسادات برپا کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے، جو کئی برسوں کی عدالتی کارروائی کے بعد  اکثرججوں نے مسترد کر دیے۔

دستاویزات کے مطابق ایک الزا م یہ بھی تھا کہ سیمی اپنے کارکنوں کو تیرنے اور گھڑسواری کی تربیت دیتی تھی۔ ستمبر 2001کو جب سیمی کے صدر شاہد بدر فلاحی کو گرفتار کیا گیا، تو پولیس نے ایف آئی آر میں الزام لگایا کہ دس دن قبل دہلی سے 500کلومیٹر دور بہرائچ میں انہوں نے ایک گرلز کالج میں خطاب میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کاکام کیا تھا۔

مگر جب تقریر کی ریکارڈنگ چلائی گئی تو وہ جلسے میں موجود شرکاء سے تلقین کر رہے تھے کہ اچھے شہری بن کر اپنے والدین کو اپنے اوپر فخر کرنے کا موقع فراہم کرو۔

اس کے علاوہ انہوں نے اس تقریر میں امریکی پالیسی کو نشانہ بنایا تھا۔ جج نے پولیس کے گواہوں سے پوچھا کہ کیا اس تقریر کے بعد اس شہر میں کوئی فرقہ وارانہ واردات رونما ہوئی تو ان کا جواب نفی میں تھا۔ یہ فاسٹ ٹریک کورٹ تھی۔ مگر اس قضیہ کو سلجھانے، اس تقریر کی ریکارڈنگ سننے اور گواہوں کی جرح کرنے میں اس کو پانچ سال کا وقفہ لگا۔

اس کیس کو بگڑتے دیکھ کر اور جج کی طرف سے پھٹکار کے بعد حکومت نے اس کیس کو خود ہی واپس لینے کا فیصلہ کرلیا۔ایک اور کیس میں فلاحی پر الزام تھا کہ جب ان کو دہلی کے جامعہ نگر علاقہ سے گرفتار کیا گیاتو ان کے دائیں ہاتھ میں ایک کلینڈر تھا، جس میں بتایا گیا تھا کہ کشمیر میں ہندو حکمرانوں نے ماضی میں مسلم رعایا پر ظلم کیے ہیں۔ پولیس نے اس کلینڈ ر کو لےکر ان پر ملک دشمنی، اور غداری کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے تھے۔

عدالتی کارروائی کے دوران جج نے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ کیا اس نے کبھی کشمیر کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے؟ وکیل نے نفی میں جواب دیا۔ تو جج نے اس کو ایک ہفتے کا وقت دےکر کشمیر کی تاریخ پڑھنے کا مشورہ دیا۔ اسی دوران گواہوں نے عدالت کو بتایا کہ کلینڈر کے کیس پر پولیس نے ان سے زبردستی دستخط لیے تھے اور وہ فلاحی کی گرفتاری کے وقت موجود بھی نہیں تھے۔

اسی طرح ایک اور کیس میں پولیس نے بتایا کہ سیمی کے صدر کی گرفتاری کے ایک ہفتے بعد ان کے دفتر سے کچھ آڈیو کیسٹ اور ایک بندوق کی تصویر ملی ہے۔ایک اور کیس میں پولیس نے عدالت کو بتایا کہ ان کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی دیواروں پر پوسٹر چپکاتے ہوئے پکڑا گیا، جس میں لکھا تھا کہ انشا ء اللہ ایک بار پھر بابری مسجد میں نماز ادا کی جائےگی۔

جج نے خود ہی جرح کرکے سرکاری وکیل سے پوچھا کہ،کیا یہ بیان یقین کرنے کے لائق ہے کہ ایک آل انڈیا تنظیم کا صدر، خود ہی گلی کوچوں میں پوسٹر چپکاتے ہوئے دکھائی دے؟

ایک اور کیس میں ان پر الزام تھا کہ 2000میں انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر کلراج مشرا کی نکتہ چینی کی، جس نے سیمی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ اسی طرح سیمی کے جرنل میں انگریزی اخبار دی ایشین ایج میں شائع شدہ ایک مضمون کا ترجمہ شائع کرنے پر ان کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دی ایشین ایج پر بھی مقدمہ درج کیاجانا چاہیے تھا، کیونکہ اصل مضمون تو اسی اخبار میں چھپا تھا۔

مگر ترجمہ پر کارروائی کی گئی۔ عدالت نے یہ سب الزامات خارج کرکے استغاثہ کو ہدایت کی کہ کیس صرف ان کے ممنوعہ تنظیم کے ساتھ وابستگی کا ہی چلایا جائے۔ مگر عدالت کے اس فیصلہ کو آنے میں برسوں لگ گئے۔

سیمی پر کارروائی کے دوران متعدد نوجوانوں کے کیریر تباہ ہوگئے۔راجستھان کے پالی کے ایک اسپتال میں کام کرنے والے نوجوان مسلم ڈاکٹر کو پولیس نے گرفتار کرکے عدالت کو بتا یا کہ 29  ستمبر2001  کو  جب سیمی پر پابندی عائد کی گئی، تو انہوں نے  پالی میں لٹریچر اور پمفلٹ تقسیم کیے۔ مگر پولیس کو معلوم نہیں تھا کہ اس دن وہ 400کلومیٹر دور جسلمیر میں ملیریا کے مریضوں کے لیے منعقد کیمپ میں موجود تھے۔

ملیریا کیمپ کی رجسٹر نے پولیس کیس کی پول کھول کر رکھ دی۔ معلوم ہو اکہ پولیس نے پہلے ہی سے کیس تیار کرکے رکھا ہوا تھا۔گو کہ وہ رہا ہوگئے، مگر حکومت نے ان کو نوکری سے بے دخل کردیا۔ان کو کرایہ کے لیے مکان ملنا مشکل ہوگیا۔

حیدر آباد کے 22سالہ محتشم باللہ دکن کالج میں انجینئرنگ کے تیسرے سال کا طالب علم تھا کو بار بار گرفتاری اور ٹارچر کی وجہ سےتعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔ اس کو سب سے پہلے 2001 میں 15سال کی عمر میں گرفتار کیا گیاتھا، جب اس نے حیدر آباد میں امریکہ کے خلاف مظاہرہ میں شرکت کی تھی۔ یہ کیس سات سال تک عدالتی غلام گردشوں میں گھومتا رہا۔ 2004میں گجرات پولیس نے حیدر آبا د آکر محتشم کے پڑوسی مولانا نصیرالدین کو ریاستی وزیر داخلہ ہرین پانڈے کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا۔

اس پر کئی افراد نے پولیس اسٹیشن کے سامنے احتجاج کیا۔ گجرات پولیس افسر نے فائرنگ کرکے موقع پر محتشم کے بڑے بھائی کو ہلاک کردیا۔ جبکہ اس بھیڑ کو ڈانٹ پھٹکار سے یا حیدر آباد پولیس کے ذریعے معمولی لاٹھی چارج سے بھگایا جا سکتا تھا۔ بجائے ہمدردی دکھانے کے محتشم پر سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کیا گیا۔ جب اس کیس سے فراغت ملی تو 2008میں ان کو شہر میں ایک سال قبل ہوئے بم دھماکوں میں ملزم بنا کر گرفتار کیا گیا۔

تشدد اور الکٹرک شاک دےکر بھی جب یہ کیس ٹک نہیں پایا تو بتایا گیا کہ محتشم نے  قبرستان میں ایک خفیہ میٹنگ میں شرکت کی تھی، جس میں فرقہ وارانہ فساد کرنے کی سازش رچی گئی تھی۔ رہائی کے بعد جون 2008میں محتشم نے ہفتہ روزہ تہلکہ میگزین کو بتایا کہ پولیس بس مسلم نوجوانوں کو جیلوں کے اندر رکھنا چاہتی ہے۔

سال 2008میں بھوپال سے 150کلومیٹر دور نرسنگھ گڈھ میں ایک فوٹو اسٹوڈیو کے مالک تبریز حسین، اس کے دو بھائیوں آفتاب اور انتخاب اور شاکر علی اور اس کے بھائی عرفان علی کو گرفتار کرکے بتایا گیا کہ ان کے پاس پوسٹر اور پمفلٹ برآمد ہوئے، جن میں بابری مسجد کو دوبارہ بنانے کا ذکر تھا۔ عرفان علی، ماجد علی کو بھی بعد میں اسی کیس میں گرفتار کیا گیا اور ان سبھی کے خلاف بغاوت کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔

سیمی کے خلاف درج کیسز میں پولیس شاید اکیلے یٰسین پٹیل کو ہی انسداد دہشت گردی کے قانون پوٹامیں سیشن عدالت کے ذریعے پانچ سال تک سزا دلوا سکی۔ ان کے خلاف دائر  فرد جرم میں بتایا گیا کہ وہ دن کے ڈیڑھ بجے  پوسٹر چپکا رہے تھے۔ جس میں ایک بند مٹھی کے ساتھ امریکہ، روس، برطانیہ اور فرانس کے جھنڈے بنائے گئے تھے۔ اس میں اقوام متحدہ کو ان ممالک کی لونڈی سے تشبیہ دی گئی تھی۔

یہ کیس دہلی میں شیو نارائین ڈھنگرہ کی عدالت میں چل رہا تھا اور کارروائی کے دوران جج صاحب خود ہی وکیل استغاثہ کا رول ادا کر رہے تھے۔ وکیل دفاع نے جب پولیس سے پوچھا کہ بھری  دوپہر کو اگر آپ نے ان کو پوسٹر چپکاتے ہوئے پکڑاتو کوئی سویلین گواہ ریکارڈ پرکیوں نہیں ہے؟ اس سے قبل سرکاری وکیل کو کوئی جواب سوجھتا، کہ جج صاحب نے کہا کہ   لوگ سیمی سے ڈرتے ہیں۔

 اب وکیل دفاع نے پوچھا کہ اس پوسٹر میں ایسی کیا بات ہے کہ یٰسین پٹیل کے خلاف انسداد  دہشت گردی کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے؟ جج صاحب نے کہا کہ یہ پوسٹر تواے کے 47سے بھی زیادہ خطر ناک ہے۔ جب اسٹینو کو آرڈر لکھاتے ہوئےجج صاحب نے ایک جملہ غلط لکھوایا اور اس کی تصحیح کرنے کی پٹیل نے کوشش کی، تو جج نے وکیل دفاع کی طرف رخ کرکے کہا کہ اپنے موکل سے کہو، کہ اپنی زبان پر قابو رکھے ورنہ اس کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

تامل ناڈو کے جواہرا للہ کی تنظیم تامل ناڈو منترا کھاز گم، جو صوبہ کی ایک اہم سماجی تنظیم ہے،کے متعلق بتایا گیا کہ یہ سیمی کا ایک فرنٹ ہے۔ ٹریبونل میں جواہر اللہ نے بتایا کہ وہ 1989 تک سیمی سے وابستہ تھے اور اس کے بعد ان کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ ان کے دور تک تو یہ ایک قانونی تنظیم تھی۔ سرکاری وکیل نے ٹریبونل میں ایک کاغذ  پیش کرکے کہا کہ جواہراللہ نے ایک مسجد کی انتظامیہ کمیٹی سے ایک کمرہ کرایہ پر لیا تھا، جو سیمی کا دفتر ہے اور ابھی تک اس کا کرایہ وہی ادا کرتے ہیں۔

جب جج نے اس کاغذ کو دیکھنے کے لیے کہا تو معلوم ہوا کہ اس پر جواہر اللہ کے دستخط ہی نہیں تھے۔ جج نے تنبیہ کے ساتھ اس کاغذ کو پھینک دیا۔ 2006میں کیرالا کے کوٹایم شہر کے نواح میں یوم آزادی کی تقریب میں عبدالرزاق مدعو تھے۔ ان کی تقریر کا موضوع ‘جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردار’ تھا۔ مگر تقریر کے بعد ان کو گرفتار کیا گیا، کیونکہ پولیس نے بتایا کہ وہ سیمی کے رکن ہیں اور تقریر میں انہوں نے فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کا کام کیا ہے۔

سال 2012میں جب دہلی میں عدالتی ٹریبونل میں سیمی پر پابندی سے متعلق سماعت شروع ہوئی تو ایڈوکیٹ اشوک اگروال اور مرحوم ایڈوکیٹ سالار محمد خان کے اصرار پر میں نے بطور صحافی کئی ماہ تک چلنے والی اس کارروائی کو کور کیا۔ ویسے تب تک میرا بھی یہی خیال تھا سیمی کے خلاف کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ حکومت تو بالکل یونہی جھوٹ تو نہیں بول رہی ہوگی۔ مگر اس سماعت کے دوران تو کئی ہوشربا  انکشافات سامنے آئے۔

دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس وی کے شالی کی صدارت والا یہ ٹریبونل سیمی پر عائد پابندی کو برقرار رکھنے کے جواز پر ساتویں مرتبہ سماعت کررہا تھا۔ کارروائی کے دوران  مہاراشٹر کے شولا پور میں وجے پور ناکہ کے انسپکٹر شیواجی تامبرے نے ایک حلف نامہ دائر کیا تھا،جس میں بتایا گیا کہ سیمی کے کچھ مبینہ کارکنوں کے گھروں پر جب انہوں نے چھاپے مارے تو وہاں سے اْردو میں لال روشنائی سے تحریر کردہ ایک ڈاکیومنٹ ملا جس پرایک شعر درج تھا؛

موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے

آستان یار سے اٹھ جائیں کیا

غالب  کے اس شعر کا انسپکٹر تامبرے نے مراٹھی ترجمہ کچھ یو ں کیا تھا’رکتچی لات دوکیا پسن کا جینا’ متراچیہ امبراتھیاپسون اتھن کا جینا‘۔ انسپکٹر تامبرے نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ یہ شعر ہندوؤں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کردیتا ہے۔

ایک اور حلف نامہ میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سیمی مہاراشٹر کو ملک سے الگ کرنے کی سازش کررہی ہے۔اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز حیدرآبادکے سعیدآباد تھانے کے انسپکٹر پی دیویندر کا حلف نامہ تھا۔ جن کا اصرار ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سیمی کی ایک ذیلی تنظیم ہے۔دیویندر کا کہنا تھاکہ سیمی اتنی خطرناک تنظیم ہے کہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیں بھی اسی کے تحت کام کرتی ہیں۔ جب وکیل دفاع نے ان سے پوچھا کہ آئی ایس آئی سے ان کی کیا مرادہے تو انہوں نے سینہ ٹھونک کر کہا کہ،میں اپنے اس بیان پر قائم ہوں کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی دراصل سیمی کے اشاروں پر ہی کام کرتی ہے۔

گھاٹ کوپر تھانہ ممبئی کے اس وقت کے تفتیشی افسر ادے سنگھ راٹھورنے اپنے حلف نامے میں لکھا کہ سیمی کے مبینہ کارکن شبیر احمد مسیح اللہ (مالیگاؤں) اورنفیس احمد انصاری (ممبئی) واضح طور مہاراشٹر کو ملک سے الگ کرنے  کی سازش میں ملوث پائے گئے ہیں۔انسپکٹر کے مطابق ان لوگوں کے پاس سے جو قابل اعتراض مواد برآمد ہوئے تھے وہ سرورق کے بغیر اردو کا ایک رسالہ ہے۔ یہ رسالہ دہلی کی سرکاری  اردو اکادمی کا‘ماہنامہ امنگ’تھا۔ جسے اکادمی بچوں کے لیے شائع کرتی ہے۔

جب راٹھور سے جرح کی گئی تو انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ اس رسالہ میں بچوں کے لیے مضامین اور کہانیاں ہیں لیکن ان کا اصرار تھا کہ ایسے ہی رسائل کے ذریعہ انتہاپسند اپنے خیالات‘ افکار و نظریات دوسروں تک پہنچانے کا وسیلہ بناتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور حلف نامے میں کھنڈالہ پولیس ٹریننگ اسکول کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ وشنو بابو راو جگ تاپ کہتے ہیں کہ جب وہ شولا پور کے صدر بازار تھانے میں انسپکٹر تھے تو تفتیش سے ان کو معلوم ہوا کہ سیمی کا حتمی مقصد ملک میں اسلامی تعلیم کو پھیلانا ہے۔ جس کے لیے وہ نفاق‘ سریہ اور جہاد کا سہار ا لے رہے ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ’سریہ‘ کس زبان کا لفظ ہے اور اس کا کیا مطلب ہے تو جگ تاپ نے کہا کہ سریہ اردو یا فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب لوگوں سے غیر قانونی طور پر پیسے اینٹھنا ہے۔

ان عجیب و غریب حلف ناموں اور جرح کے دوران پولیس افسران کے بیانات سے کبھی کبھی تو جج صاحب بھی ان پر برس پڑتے تھے، مگر جب فیصلہ کی گھڑی آئی تو انہوں نے پابندی برقرار رکھی۔صرف 2008میں دہلی ہائی کورٹ کی جج گیتا متل کی صدارت میں جب ٹریبونل بنا، تو اس نے جرأ ت دکھا کر سیمی پر لگائی گئی پابندی کو خارج کر کے کہا کہ ایسے ناکافی ثبوتو ں کی موجودگی میں پابندی کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا ہے۔

مگر ابھی ٹریبونل نے اوپن کورٹ میں آرڈر سنایا ہی نہیں تھا کہ وزرات داخلہ کی ایما پر ایڈشنل سالیسٹر جنرل گوپال سبرامنیم نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے جی بالا کرشنن کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس فیصلہ کو 24 گھنٹوں کے اندر ہی اسٹے کروادیا۔ یہ الگ با ت ہے کہ سیمی کی طرف سے دائر کئی اپیلیں کئی دہائیوں سے عدالت اعظمیٰ کی کارروائی کی منتظر ہیں۔

اگر یہ انصاف ہے تو ظلم اور ناانصافی کسے کہتے ہیں؟ اندیشہ ہے کہ یہی ڈرامہ دوبارہ کھیلا جا رہا ہے۔ سن 2000کی نوجوان جنریشن کو ٹھکانے لگایا گیا، ان کے کیریر برباد کر دیے گئے اور اب نشانہ سن 2022کی نوجوان مسلم جنریشن ہے۔ جب بھی پی ایف آئی کی پابندی کی توثیق کے لیے ٹریبونل کی تشکیل ہوگی، تو صحافیوں اور ملی تنظیموں پر لازم ہے کہ اس پر نگاہ رکھیں اور دیکھیں کہ حکومت کس طرح کے ثبوت اس کے سامنے پیش کرےگی۔

ویسے تو  پچھلے کئی برسوں سے ملی تنظیموں خاص طور پر جمعیۃ علماء ہند  اور جماعت اسلامی نے فعال کردار نبھاتے ہوئے متعدد افراد کو قانونی چارہ جوئی فراہم کی، جس سے اکثر افراد اعلیٰ عدالتوں سے بری ہوگئے، کیونکہ ان کیسوں کی اساس ہی جھوٹ  پر مبنی تھی۔ا ن تنظیموں کی نوجوانوں کے خلاف کئی شکایات ہوں گی۔ شہریت قانون پر ہوئی ملک گیر ایجی ٹیشن میں ان کو اسپیس نہیں دی گئی۔

مگر اس کے لیے ان کو اپنے گریبان میں جھانک کے دیکھنا ہوگا۔اس وقت ان تنظیموں پر لازم ہے کہ موجودہ کیسز کی پیروی کرکے ان نوجوانوں کو نفرت کی سیاست کی بھینٹ چڑھنے سے روکنے کا کام کریں۔ورنہ شاید تاریخ ان کو کبھی معاف نہیں کرےگی اوروہ  1946میں مارٹین نیمولر کی لکھی گئی نظم کی عملی تصویر بن جائیں گے؛

پہلے وہ آئے کمیونسٹوں کے لیے

اور  میں کچھ نہیں  بولا

کیونکہ میں کمیونسٹ نہیں تھا

پھر وہ آئےٹریڈ یونین والوں کے لیے

اور میں کچھ نہیں بولا

کیونکہ میں ٹرین یونینسٹ نہیں تھا

پھر وہ آئے یہودیوں کے لیے

اور میں کچھ نہیں بولا

کیونکہ میں یہودی نہیں تھا

پھر وہ میرے لیے آئے

 اور تب تک کوئی نہیں  بچا تھا

جو میرے لیے بولتا