فکر و نظر

آر ایس ایس کی صرف زبان بدلی ہے، سوچ نہیں

پچھلے کچھ دنوں سے آر ایس ایس لیڈروں کی زبان بدلی بدلی سی نظر آ رہی ہے، لیکن تبدیلی سنگھ کے ایجنڈے کا حصہ کبھی نہیں رہی۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سنگھ نے ‘غیر سیاسی ہونے کی سیاست’ کرتے ہوئے اپنے سویم سیوکوں کو اقتدار کی چوٹی تک پہنچایا ہے اور کیسے وہ  جمہوری اور آئینی اقدار کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

آج کی تاریخ میں یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ کس طرح عام طور پر ثقافتی تنظیم کا لبادہ اوڑھ کر ‘غیر سیاسی ہونے کی سیاست’ کرتے ہوئے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ نے اپنی صد سالہ تقریبات سے پہلے ہی اپنے سویم سیوکوں کواقتدار کی چوٹی تک پہنچا دیا ہے۔ اور کس طرح سویم سیوک ہماری جمہوری اور آئینی مساوات اور بھائی چارے  سمیت تمام اوصاف و اقدار کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں۔

یہ بلاوجہ نہیں ہے کہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی کانگریس کے رہنما راہل گاندھی کہہ رہے ہیں کہ اس کھلواڑ نے ملک میں نفرت اور بٹوارے کے ایسے بیج بو دیے ہیں کہ وہ  ٹوٹنے کے دہانے پر پہنچ چکا ہے اور اس کو جوڑنے کے لیے انہیں لمبی مسافت اور طویل عرصے کی ‘بھارت جوڑو یاترا’ کرنی پڑ رہی ہے۔

ان کی پارٹی کے کئی ترجمان یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ مذکورہ ‘یاترا’ کے آغاز کے بعد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور اس کے سیاسی محاذ بھارتیہ جنتا پارٹی دونوں کے لیڈروں اور وزراء کی زبان بدل گئی ہے۔ اس دعوے کو سیاسی کہہ کر ایک طرف رکھا جا سکتا تھا، بشرطیکہ ‘ہاتھ کنگن کو آر سی کیا’ جیسی حالت نہ ہوتی۔

لیکن ہاتھ کے اس کنگن کے لیے آر سی کی ضرورت اسی وقت ختم ہو گئی جب سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے 22 ستمبر کو اس طرح کی تبدیلی کا پہلا اشارہ دیا۔ دارالحکومت دہلی میں ایک مسجد، مدرسے اور مزار کے دورے کے ساتھ انہوں نے اسی  طرح چکنی چپڑی  باتیں کیں،جیسے  ایک بار یہ کہہ کر کہ ملک کے ہندوؤں  اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہے، اور اپنے سویم سیوکوں کو متعصب ایجنڈےپر بے روک ٹوک عمل کرنے دیا تھا۔

اس میں حیرت کی بات کیا کہ بدلے میں ان کے میزبان نے انہیں ‘راشٹر پتا’ بتا کر ان کی تعریف کے خوب پل باندھے۔ اس کے فوراً بعد  اتوار کو سنگھ کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوس بولے نے اس سے منسلک تنظیم سودیشی جاگرن منچ کے ویبی نار میں بھاگوت کے اشاروں کی یہ کہتے ہوئے تصدیق کی کہ ملک میں غریبی ایک آسیب کی طرح کھڑی ہے اور لوگوں کو صاف پانی تک  نہیں مل پا رہا ، جبکہ عدم مساوات اور بے روزگاری کی مصیبتیں بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔

مزید انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر، جانے کس سے  پوچھا کہ کیا یہ اچھی حالت ہے، جبکہ انہیں یہ بات براہ راست اپنے پریوارکی نریندر مودی حکومت سے پوچھنی چاہیےتھی، تب کئی  لوگوں نے سمجھا کہ مودی حکومت کی ملک  پر بھاری پڑ رہی من مانیاں اب سنگھ  کے لیے بھی  ناقابل برداشت ہو چلی ہیں  اور اسی لیے ہوس بولے اسے گھیرےرہے ہیں۔

دوسری طرف، کچھ لوگوں نے ہوس بولے کے اس بیان کو حکمراں پارٹی کے ساتھ اپوزیشن کے رول کو بھی ہتھیا لینےکی  سنگھ کی چالاکی کے طور پر دیکھا۔ اٹل بہاری واجپائی کی وزارت عظمیٰ کے دوران سنگھ اور اس سے منسلک تنظیموں نے ان پر سفاک حملوں کے درمیان انہیں تاریخ کا سب سے کمزور وزیر اعظم بتا ڈالنے  کے بیچ یہ چالاکی اتنی بار استعمال کی تھی کہ ان کے آئینے میں یہ بات سچائی کے بہت قریب لگتی ہے۔

لیکن سچ کہیں تو ہوس بولے کے اس بیان میں چھپی سب سے زیادہ قابل ذکر بات یہ تھی کہ سنگھ ملک میں غریبی کے  آسیب کی طرح کھڑی ہوجانے  کی ذمہ داری میں  ذرہ برابر حصہ بھی نہیں بٹانا چاہتا، گویا کہ  اس کی براہ راست  ذمہ داری اسی  کی ہے کہ  گزشتہ آٹھ سالوں سے اس کے سویم سیوک ہی ملک کی پالیسیوں کا تعین کر رہے ہیں اور غریبی کے ساتھ ساتھ عدم مساوات اور شدید بے روزگاری میں بھی ان کا ‘کردار’ کسی سے کم نہیں ہے۔

اور نہ ہی وہ یہ کہہ کر اپنے  اس ‘کردار’ کا ‘کریڈٹ’ لینے سے منع کر سکتے ہیں کہ  پچھلے ستر سالوں میں بھی یہی ہوتا رہا ہے۔ انہیں یاد رکھنا ہوگا کہ پچھلے ستر سالوں میں جو کچھ ہو رہا تھا، اس کو یکسر  بدلنے کے وعدے پر یقین کر کے ہی وطن عزیز نے حکومت  ان کو سونپ رکھی ہے۔

افسوس کہ نہ  وہ سویم سیوک  اور نہ ہی پردے کے پیچھے سے انہیں کنٹرول کرنے والے آر ایس ایس کے عہدیدار ہی اتنے ذمہ دار ہونے کو تیار ہیں کہ یہ سب یاد رکھ سکیں ۔ جہاں تک سنگھ کا تعلق ہے، وہ ان دنوں کسی بھی قانونی یا آئینی ذمہ داری کے  بغیر اقتدار کا مزہ لے رہا ہے، کیونکہ تکنیکی طور پر حکومت بی جے پی کی ہے، اس کی نہیں۔ لیکن پوری دنیا جانتی ہے کہ بی جے پی اس کے سویم سیوکوں  کا ہی  سیاسی محاذ ہے۔

بہرحال، گزشتہ دسہرہ کے موقع پر ناگپور میں آر ایس ایس ہیڈکوارٹر میں اپنے سالانہ خطاب میں موہن بھاگوت نے دوبارہ  اپنی ‘بدلی ہوئی ‘ زبان کا اشارہ دیا۔ جس سنگھ میں خواتین کبھی رکنیت کی اہل نہیں تھیں،اس کے سرسنگھ چالک اچانک خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرنے لگے تو بہت سے لوگوں کو پہلی نظر میں یہ ان کی زبان میں تبدیلی ہی نہیں ،  بلکہ معجزہ بھی لگا۔

خاص طور پر اس لیے کہ انہوں نے دو بار ایورسٹ کوہ پیما سنتوش یادو کو مہمان خصوصی بنایا تھا اور وہ دعویٰ کر رہے تھے کہ سنگھ کے پروگراموں میں خواتین کی شرکت ڈاکٹر ہیڈگیوار کے زمانے سے ہو رہی ہے۔

اپنے خطاب میں بھاگوت نے بے روزگاری، دلتوں پر مظالم اور آبادی کی پالیسی وغیرہ پر اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح  سے کیا کہ جیسے وہ فوراً جامع سماجی اصلاحات کے لیے بے قرار ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ  ذات پات، مذہب اور پدر شاہی کی وکالت کی اپنی بد نیتی کو وہ پھر  بھی چھپا نہیں سکے۔

صاف لگا کہ وہ چاہتے ہیں کہ معمولی اصلاحات کے ساتھ معاشرے کا نظام جوں کا توں چلتا رہے،بس  اس کی برائیاں کسی کو نظر نہ آئیں اور دلت ، محروم اور حاشیے کے طبقے اپنی شرکت محض سے خوش ہو لیں، حقوق  کی مانگ کرنا شروع نہ کر دیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے کہا کہ آدھی آبادی کو مطلوبہ احترام اور مناسب حصہ داری دینی  ہوگی  تو اسے بدلتے وقت کے ساتھ چلنے کو سنگھ کی مجبوری کے طور پر ہی  لیا گیا،اس کی نیک نفسی کے طور پر نہیں ۔ ایک مبصر نے بجا لکھا ہے کہ وہ تو اس وقت لیا جاتا جب وہ کہتے کہ ہمیں آئین میں خواتین کو دیے گئے مساوی حقوق کا احترام کرنا چاہیے اور صفائی پیش کرتے کہ ان کے لوگ اب تک منوسمرتی کو ہی آئین کیوں مانتے رہے ہیں، جو ایک ایسے سماجی نظام کی حمایت کرتی ہے جو خواتین کواپنے فیصلے خود کرنے کی آزادی پرپابندی عائد کرتی ہے۔

لیکن پھر انہیں یہ بھی بتانا پڑتا کہ کیوں ان کے بہت سے حمایتی  اب بھی مذہب کی حفاظت کے لیے خواتین سے زیادہ بچے پیدا کرنے کے لیے کہتے ہیں؟ کیا یہ خواتین کی توہین اور ان کی آزادی کی خلاف ورزی نہیں ہے؟

ستم ظریفی یہ ہے کہ  وہ اس کے بجائے سب پر یکساں لاگو ہونے والی آبادی کی پالیسی کی وکالت کرتے ہوئے مذہبی بنیادپر آبادی کے بڑھتے ہوئے عدم توازن کا ذکر کرنے لگے ، جس کا تجزیہ کاروں کے خیال میں کوئی وجود ہی  نہیں ہے!

ذرا سوچیے، اس کے باوجود اقلیتوں کو منظم ہندوؤں سے خطرہ کا خوف ان کے لیے ‘شرارتی طور پر پروپیگنڈہ’ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ مثال کے طور پر گجرات اور مدھیہ پردیش میں گربا میں جانے کی وجہ سے اقلیتی نوجوانوں کی مارپیٹ بھی حقیقی نہ ہوکر مجازی ہو۔ جلے پر نمک یہ ہے کہ انہوں نے اقلیتوں کے ‘مزاج’  میں تبدیلی کی امید کی، لیکن بار بار جارحانہ ہندوتوادیوں سے اپنے رویے کو روادار بنانے کی رسمی اپیل تک نہیں کی۔

اس پر بھی غور نہیں کر پائےکہ انسانی مزاج کا اقلیت اور اکثریت میں بٹوارہ  ہی فرقہ واریت کا نقطہ آغاز ہے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر ان کی ‘بدلی ہوئی  زبان’ کو ان  کے نظریات میں تبدیلی کا اشارہ  نہیں سمجھا جا سکتا۔

ہوس بولے کی طرح انہوں نے بھی مودی حکومت کے گناہوں  میں اپنے حصے کو قبول نہیں کیا۔ اس کے برعکس، بے روزگاری کے بارے میں وہ اس کےدفاع میں آگئے۔انہوں نے کہا کہ حکومت اکیلے کتنا روزگار بڑھا سکتی ہے؟ ایسے میں ان سے پوچھنا چاہیے کہ اگر حکومت ملازمتیں یا روزگار نہیں بڑھا سکتی تو پھر اس نے نجکاری کی پیشکش کر کے سرکاری اداروں میں روزی–روزگا یانوکریوں  کے مواقع کیوں کم کر دیے ہیں؟

باباصاحب ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا حوالہ دیتے ہوئےانہوں نے سماجی آزادی کی ضرورت پر زور دیا بھی تو اپنی شاطرانہ حرکت سے باز نہیں آئے۔یہ تو کہا کہ یہ گھوڑی چڑھ سکتا ہے،  وہ نہیں چڑھ نہیں سکتا، ایسی احمقانہ باتوں کو ختم کرنا ہوگا، لیکن یہ سمجھنے سے انکار کر دیا کہ دلت کو گھوڑے پر چڑھنے دینایا کنویں سے پانی نہ لیننے دینا بے وقوفی نہیں، ناانصافی ہے، جو صرف اس لیے جاری ہے کہ ذات پات کا نظام اب تک جاری ہے۔

جب تک سنگھ ذات پات کے خاتمے کے لیے خود کو وقف نہیں کرتا، وہ اس تبدیلی کا محرک  کیسے ہو سکتا ہے، جس کی بابا صاحب نے خواہش کی تھی؟  ویسے بھی تبدیلی ان کے ایجنڈے میں کبھی نہیں رہی، انہوں نے ہمیشہ ہندوؤں کے شاندار ماضی کی بحالی کی بات کی ہے۔

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)