فکر و نظر

کانگریس اور گاندھی خاندان کے لیے فیصلہ کن گھڑی

عوامی رابطہ مہم اور غیر گاندھی خاندان کے فرد کو اندرونی انتخابات کے ذریعے کمان دینا اپنی جگہ، مگر جب تک کانگریس گراؤنڈ یعنی بلاک لیول تک انتخابات کو یقینی نہیں بناتی ہے، تب تک اس مشق کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

فوٹو بہ شکریہ: فیس بک

جنوبی ایشیا میں ویسے تو اکثر سیاسی پارٹیا ں مخصوص خاندانوں کی قیادت پر ہی ٹکی ہوئی ہیں، مگر ان میں سب سے پرانی جماعت ہندوستان کی انڈین نیشنل کانگریس نے ہی خطے میں خاندانی سیاست کی داغ بیل ڈالی ہے— کے لیے اب کرو یا مرو والی صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔

اگلے ایک سال میں گاندھی خاندان، جس نے آزادی کے بعد سے بیشتر اوقات اس پارٹی کی قیادت کی ہے، کی سیاسی قسمت کا فیصلہ بھی ہوجائےگا،کیونکہ اس مدت کے دوران نو ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ہیں، ان میں تلنگانہ کو چھوڑ کر بقیہ آٹھ صوبوں میں کانگریس کا براہ راست مقابلہ مرکز میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے ہے۔

یہ ایک طرح سے 2024میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل ایک طرح کا انتخابی سیمی فائنل ہے۔

ان میں سے دو صوبے چھتیس گڑھ اور راجستھان فی الوقت کانگریس کے پاس ہیں۔ اگر پارٹی اس سیمی فائنل میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہوتی ہے، تو نہ صرف یہ عام انتخابات میں کسی بھی اتحاد کی قیادت کرنے سے نا اہل ہوجائےگی، بلکہ امکان ہے کہ اسی کے ساتھ گاندھی خاندان کو بھی سیاست سے بوریا بسترہ لپیٹ لینا پڑے گا۔

راہل گاندھی کی قیادت میں پارٹی ابھی تک دو عام انتخابات اور 49میں سے 39اسمبلی انتخابات2014  اور 2022  کے درمیان ہار چکی ہے۔بتایا جاتا تھا کہ پارٹی کے پاس ٹرمپ کارڈکے طور پر سونیا گاندھی کی صاحبزادی پرینکا گاندھی ہیں۔ گزشتہ پارلیامانی الیکشن کے بعد وہ اسی سال سب سے بڑے صوبہ اترپردیش میں سرگرم ہوئی تھیں۔ مگر وہ پارٹی کو صرف دو سیٹیں ہی دلوا سکیں اور ووٹوں کا تناسب مزید کم ہوگیا۔

اسی صورت حال کے پیش نظر  راہل گاندھی نے7  ستمبر کو جنوبی ریاست کیرالا سے عوامی رابط مہم کے لیے ملک گیر مارچ شروع کردیا ہے، جو تین ہزار کیلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے 150دنوں میں کشمیر میں اختتام پذیر ہوگا۔ اسی کے ساتھ پارٹی نے 22 سال بعد صدارتی انتخابات کا بھی اعلان کیا ہے اور گاندھی خاندان نے اس بار اپنے آپ کو اس دوڑ سے باہر رکھا  ہواہے۔

پارٹی کے معمر اور دلت لیڈر ملک ارجن کھڑگے، جن کو اس خاندان کا آشیرواد حاصل ہے، معروف بین الاقوامی سفارت کار اور مصنف ششی تھرور کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ یہ ایک طرح سے سوچا سمجھا داؤ ہے، کیونکہ ہار کی صورت میں ٹھیکرا صدر کے سر پھوڑا جائےگا اور جیت کا سہرا راہل گاندھی کی عوامی رابط مہم کودیا جائےگا۔

وزیراعظم نریندر مودی نے چونکہ نہ صرف کانگریس مکت بھارت یعنی کانگریس سے آزاد بھارت کا نعرہ دیا ہے اور خاندانی سیاست خاص طور پر گاندھی خاندان کو نشانہ پر رکھا ہوا ہے، غیر گاندھی قیادت کی وجہ سے شاید یہ ہتھیار کچھ کند پڑ جائےگا۔  2004میں منموہن سنگھ کو وزیر اعظم کے بطور نامزد کرکے سونیاگاندھی نے اسی طرح بی جے پی کی طرف سے ان کے غیر ملکی اطالوی نژاد ہونے کی مہم کی ہوا نکال دی تھی۔

سوال یہ ہے کہ ایک پارٹی جس نے  54برسوں تک ملک پر حکومت کی ہو اور جس کا کیڈر تقریباً قریہ قریہ موجود ہے،آخر اس قدر بے بس کیسے ہو گئی ہے؟35سال کے عرصہ میں اس کا ووٹ بینک 48فیصد سے گھٹ کر 19فیصد رہ گیا ہے، جبکہ اسی عرصے میں ہندو قوم پرست بی جے پی کا ووٹ بینک 7فیصد سے بڑھ کر 37فیصد ہوگیا ہے۔

پورے ملک میں4036 ارکین اسمبلی میں اس کے بس 691 ممبر ہیں۔ اس وقت کل  31 میں سے بس دو صوبوں میں اس کی زیر قیادت حکومت ہے اور صرف تین میں یہ مخلوط حکومت میں شامل ہے۔

  د سمبر 1885کو جب برطانوی سول سرونٹ اور ریفارمر الان اوکٹاوین ہوم نے بمبئی میں اس پارٹی کی داغ بیل ڈالی، تو اس کا مقصد یورپ کی طرز پر سیاسی اور جمہوری اقدار پر مبنی پارٹی نظام قائم کرکے عوام کو بااختیار بناکر اقتدار تک پہنچنے کا راستہ تیار کرنا تھا۔ مگر 1950کے بعد پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو، خاص طور پر بعد میں ان کی صاحبزادی اندرا گاندھی نے خاندانی راج قائم کرکے پارٹی کے اندر جمہوری اقدار کا جنازہ نکا ل دیا۔

پارٹی یا حکومت میں اعلیٰ عہدے حاصل کرنے کے لیے قابلیت کی جگہ چاپلوسی اور ذاتی وفاداری معیار بن گئی۔ اگر کوئی غیر گاندھی خاندان کا فرد صدر بن بھی گیا، تو وہ بس برائے نام اور وقت گزاری کے لیے اس کا تقرر کیا گیا۔ ان  کی دیکھا دیکھی یہ کلچر سری لنکا، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھی سرایت کر گیا۔

مجھے یاد ہے کہ مارچ 1998کو جب ہم کانگریس پارٹی کور کرنے والے صحافی پارٹی کے صدر دفتر کے بریفنگ روم میں قومی ترجمان وی این گاڈگل کا انتطار کر رہے تھے کہ اس وقت کے پارٹی صدر سیتا رام کیسری دورازہ کھول کر گاڈگل کی سیٹ پرآکر بیٹھ گئے۔ 1991میں  راجیو گاندھی کی ہلاکت کے بعد ان کی بیوہ سونیا گاندھی نے سیاست میں آنے سے منع کر دیا تھا۔ اسی لیے پہلے نرسمہا راؤ اور پھر سیتا رام کیسری پارٹی کے صدر بنائے گئے تھے۔

پارٹی دو عام انتخابات پے در پے ہار گئی تھی۔ کیسری نے آتے ہی کہا کہ وہ پارٹی کی صدرات سے مستعفی ہونے کی خواہش رکھتے ہیں اور قیادت سونیا گاندھی کو سونپنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی سے جب بھی کبھی نہرو–گاندھی خاندان دور رہا ہے، تو پارٹی کو زوال آیا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی وہ بر یفنگ ہال سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔

کانگریسی لیڈروں نے فوراً ہی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس یعنی کانگریس ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ بلائی، جہاں کیسری کا استعفیٰ منظور کیا گیا، جبکہ انہوں نے ابھی تک استعفٰی ہی نہیں دیا تھا، بلکہ صرف خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ان کے کمرہ پر قبضہ کرکے ان کا سامان ایک جیپ میں ان کے گھر روانہ کردیا گیا اور سونیا گاندھی کو پارٹی کی لگام تھما ئی گئی۔

ان کے دور میں بھی 1999کا عام انتخاب پارٹی بری طرح ہار گئی، مگر پھر 2004اور2009کے انتخابا ت میں ان کی ہی قیادت میں پارٹی کامیابی سے ہمکنار ہوگئی۔

سونیا گاندھی کے دور میں پارٹی نے چار برین اسٹارمنگ سیشن منعقد کیے، جن میں سے تین کو میں نے خود کور کیا ہے۔ مدھیہ پردیش کے پنچ مڑ ی کے مقام پر  1998 میں ہوئے پہلے برین اسٹارمنگ میں پارٹی نے طے کیا تھاکہ چونکہ اب قیادت واپس گاندھی خاندان کے پاس آئی ہے اسی لیے اب کھوئی ہوئی سیاسی زمین واپس لائی جائےگی،کسی اور پارٹی سے انتخابی اشتراک نہیں کیا جائےگا اور اپنے بل بوتے پر بی جے پی کا مقابلہ کیا جائےگا۔

مگر پھر پے در پے دو انتخابات ہارنے کے بعد 2003میں شملہ میں ہوئے اجلاس میں بائیں بازو کے لیڈر ہرکشن سنگھ سرجیت کی ایما پر پارٹی نے سیکولرازم کو بچانے کے نام پر ہم خیال پارٹیوں کے ساتھ مل کر انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں2004میں اس نے اقتدار حاصل کیا۔

کانگریس کو اکثر سیکولر پارٹی بتایا جاتا ہے۔ یہ اس کی تاریخ کے ساتھ نہایت ہی ناانصافی ہے۔ یہ سبھی آئیڈیالاجیوں کا مجموعہ رہی ہے۔ اس میں بائیں بازو کے نظریات والے لیڈران جیسے جواہر لال نہرو، کرشنا مینن، مگر کٹر دائیں بازو والے لیڈران مدن موہن مالویہ، سردار ولبھ بائی پیٹل، ڈاکٹر راجندر پرساد وغیرہ بھی شامل رہے ہیں۔ موجودہ کانگریس میں بھی اگر ایک طرف لبرل جئے رام رمیش ہے، تو دوسری طرف کٹر ہندو وادی جناردھن دیویدی بھی ہیں۔

بی جے پی کے عروج سے قبل ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم آر ایس ایس، سیاسی رغبت رکھنے والے اپنے کیڈر ز کو کانگریس میں شامل کرواتی تھی۔ ہاں 2003کا سیشن کانگریس کی تاریخ کا ایک اہم موڑ اسی لیے تھا کہ پہلی بار اس میں طے ہوا کہ آرایس ایس کے نظریہ کا مقابلہ کرنا ہے۔

سال  2002کے گجرات کے مسلم کش فسادات نے سیاسی لیڈروں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مقابلہ کرنے کے لیے تاریخ کی مسخ شدہ کتابو ں کا از سر نو جائزہ لےکر Detoxificationیعنی سوسائٹی میں درسی کتب کے ذریعے پھیلائے گئے زہر کو ختم کرنے کا عمل شروع کرنا تھا۔

اسی کے ساتھ پارٹی نے یہ بھی تہیہ کیا کہ آرایس ایس کی طرز پر گراؤنڈ پر شاخیں کھولی جائیں گی، جو علمی اور عملی استدلال سے  فرقہ وارایت کا مقابلہ کرکے عوام کو میل جول سے رہنے کی تلقین کریں گی۔ مگر اس کے بعد دس سال تک اپنے دور اقتدار میں کانگریس اس عزم کو ہی بھول گئی۔

سال2013میں عام انتخابات سے ایک سال قبل جے پور میں تیسرے برین اسٹارمنگ سیشن میں جہاں تاج سونیا گاندھی کے صاحبزادے راہل گاندھی کے سر پر سجایا گیا، وہیں آئیڈیالوجی کو دفن کرکے 1998کی پوزیشن کی واپسی کی گئی۔ اس میٹنگ میں بتایا گیا کہ نوجوانوں کو آئیڈیالوجی سے زیادہ روزگار، اقتصادی ترقی اور ٹکنالوجی سے لبھایا جاسکتا ہے۔

پارٹی کی نائب صدارت کی کمان سنبھالنے کے بعد نئی دہلی میں راہل گاندھی نے اپنی رہائش گاہ پر چھوٹے بیچز میں پارٹی کو کور کرنے والے صحافیوں اور ایڈیٹروں سے ملنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ گفتگو اس حد تک آف ریکارڈ ہوتی تھی کہ اندر قلم اور کاغذ لےجانے پر بھی باپندی تھی۔

مجھے یاد ہے کہ ایک ساتھی نے جب ان سے شملہ سنکلپ  (عزم) کے بار ے میں اور خصوصاً آر ایس ایس کے نظریہ سے مقابلہ کرنے کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ کانگریس کسی آئیڈیالوجی سے ٹکرانے میں یقین نہیں رکھتی ہے اور ایک سنٹرسٹ پارٹی کے بطور سبھی کو ساتھ لےکر چلنے میں یقین رکھتی ہے۔ مگر اگلے 2014کے انتخاب میں 545رکنی ایوان میں اس کی تعداد 206 سے گھٹ کر بس 44رہ گئی اور پھر 2019میں یہ تعداد صرف 52تک ہی پہنچ پائی۔

پچھلے تیرہ سالوں میں 211منتخب نمائندے، جن میں اراکین اسمبلی و پارلیامان شامل ہیں، پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ وہ سبھی نوجوان چہرے، آر پی این سنگھ، جیوتی رادتیہ سندھیا، جیتن پرسادا اور دیگر جن کے لیے2013کے سیشن میں نظریہ کو دفن کر دیا گیا تھا، اس وقت بی جے پی کی گود میں بیٹھ کر راہل گاندھی کا منہ چڑا رہے ہیں۔ ان کا اخراج راہل کے لیے ذاتی نقصان تھا، کیونکہ یہ ان کے دون بورڈنگ اسکول کے ساتھی تھے اور ان پر انہوں نے خاصا تکیہ کیا تھا۔ 2019کے انتخابات میں شکست کے بعد راہل گاندھی نے ذمہ داری قبول کرکے استعفیٰ دیا اور پارٹی نے ان کی والدہ سونیا گاندھی کو کارگزار صدر بنایا۔

چوتھا  برین اسٹارمنگ سیشن اسی سال مارچ میں راجستھان کے اودے پور شہر میں منعقد کیا گیا، جس میں پارٹی کے اندر جمہوری اقدار کے احیاء کا ذکر کیا گیا اورراہل گاندھی نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ صدراتی انتخاب نہیں لڑیں گیااور قیادت کسی غیر گاندھی  لیڈر کے سپرد کریں گے۔

وزیر اعظم مودی کی طرف سے خاندانی راج پر چوٹ کرنے اور ان کے اس ہتھیار کو کند کرنے کے لیے  ایک فیملی ایک پوسٹ کی اصطلاح وضع کی گئی۔ یعنی ایک فیملی سے ایک ہی فرد کو پارٹی عہدہ یا ٹکٹ دیا جائےگا۔ اسی طرح ایک آدمی ایک پوسٹ یعنی ایک لیڈر کو ایک ہی عہدہ ملے گا۔ اگراقتدارمیں آنے کی صورت میں کوئی وزیر بنتا ہے تو اس کو پارٹی پوسٹ چھوڑنا پڑےگا۔ذرائع کے مطابق یہ نکتہ زیر بحث آگیا کہ مڈل کلاس جس کی تعداد اب کل آبادی کا 50فیصد ہے، خاندانی سیاست کو ناپسند کرتا ہے۔

اس اجلاس میں شملہ سنکلپ کا اعادہ کرکے ایک بار پھر آر ایس ایس سے  دو ہاتھ کرنے کے لیے سیکولرازم اور آئیڈیالوجی کو موضوع بنانے کا عزم کیا گیا۔ علاقائی پارٹیوں پر چوٹ کرکے بتایا گیا کہ ان کے لیے نظریہ کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ موقع کی مناسبت کے حساب سے کبھی بی جے پی کا ساتھ دیتی ہیں، تو کبھی سیکولرازم کا لبادہ اوڑھتی ہیں۔

عوامی رابطہ مہم اور غیر گاندھی خاندان کے فرد کو اندرونی انتخابات کے ذریعے کمان دینا اپنی جگہ، مگر جب تک کانگریس گراؤنڈ یعنی بلاک لیول تک انتخابات کو یقینی نہیں بناتی ہے، تب تک اس مشق کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مرکزیت کو ختم کرکے ضلعی صدور کو بااختیار بنایا پڑے گا۔

بجائے دہلی سے پارلیامنٹ یا اسمبلی کے لیے کسی کو منڈیٹ دینے کے یہ اختیار ضلعی صدور اور کمیٹی کو دینا چاہیے اور اسی کے ساتھ ان کی باز پرس بھی ہونی چاہیے اگر ان کا چناہوا امیدوار الیکشن میں کارکردگی نہیں دکھاتا ہے۔ اسی طرح اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کانگریس ورکنگ کمیٹی کے بھی انتخابات عمل میں آنے چاہیے۔

اس کا حال تو یہ ہے کہ اس کے سبھی 22اراکین پارٹی صدر کے چنے ہوئے ہیں۔ اس کی فیصلہ سازی کی قوت کو مزید کم کرنے کے لیے 50مزید افراد کو بطور ‘مدعو اراکین’ بلایا جاتا ہے۔ سبھی اہم فیصلے کانگریس صدر کی صوابدید پر چھوڑدیے جاتے ہیں۔ ایک بار تو خود راہل گاندھی ہی پھٹ پڑے تھے کہ اگر کانگریس صدر کو ہی فیصلہ کرنا ہے تو اس مجلس کی کیا ضرورت ہے؟

سال2014میں بد ترین شکست کے بعد راہل گاندھی کو ایک سنہرا موقع ملا تھا کہ پوری طرح فلٹریشن اور تطہیر کرکے کانگریس کو غیر ضروری اور چاپلوس عناصر سے پاک و صاف کرکے اس کو ایک حقیقی جمہوری اور لبرل پارٹی کے بطور پیش کریں۔ وہ یورپ کی سیاسی پارٹیوں کی طرح حقیقی اندرونی جمہوریت کوبحال کرنے پر توجہ مرکوز کرکے  پارٹی سے چاپلوسی اور طرفداری کا کلچر ختم کرسکتے تھے۔ یہ کام کسی حد تک انہوں نے یوتھ کانگریس میں کیا تھا۔

مگر نہ معلوم اس طرح کی کوئی اصلاح وہ کانگریس میں کیوں نہیں لا سکے۔ خیر اس وقت یہ پارٹی ایک بڑے امتحان سے گزر رہی ہے۔ اگلے سال تک اس کی اورگاندھی خاندان کی قسمت کا فیصلہ ہونے کا امکا ن ہے۔ کانگریس کی قسمت اور اس کے فیصلے خاصے دورس ثابت ہوسکتے ہیں اور ان کا اثر نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان،بنگلہ دیش کی خاندانی سیاسی جماعتوں پر بھی پڑ سکتا ہے، کیونکہ ان ملکوں میں بھی اب مڈل کلاس تیزی سے ابھر رہا ہے اوروہ سیاست میں دلچسپی لے کر ایسے لیڈروں کی تلاش میں ہے جو اس کے آس پاس نظر آسکیں اور جن کے ساتھ اس کی اپنی شناخت ہوسکے۔ یہ طبقہ محلوں میں رہنے والے راجے مہاراجوں جیسے سیاستدانوں سے بدکتا ہے، جو ان کے ساتھ رعایا جیسا برتاؤکرکے دور سے ہی درشن دیتے ہیں۔