خبریں

بلقیس معاملہ: مرکزی وزیر نے مجرموں کی سزا معافی اور رہائی کو صحیح ٹھہرایا

بلقیس بانو گینگ  ریپ  کیس میں 11 قصورواروں کی سزامعافی  اور رہائی  کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے مرکزی وزیر پرہلاد جوشی نے کہا کہ جو بھی ہوا ہے، قانون کے مطابق ہوا ہے۔ وہیں  سپریم کورٹ نے اس معاملے میں گجرات سرکار کی جانب سے دائر جواب کو ‘بوجھل’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ  اس میں حقائق پر مبنی بیانات غائب ہیں۔

(تصویر: پی ٹی آئی)

(تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: بلقیس بانو گینگ ریپ کیس میں11 قصورواروں کی سزا معافی اور قبل از وقت رہائی پر مرکزی حکومت کی جانب سے خاموشی توڑتے ہوئے مرکزی وزیر پرہلاد جوشی نےاس  فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘یہ قانون کے مطابق کیا گیا ہے۔ ‘

انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے، پارلیامانی امور اور کوئلہ کے وزیر نے کہا، جو بھی ہوا ہے، وہ قانون کے اہتماموں کے مطابق ہوا ہے۔ کسی بھی شخص کو ایک خاص وقت جیل میں گزارنے کے بعد رہا کرنے کا اہتمام ہے۔ اس معاملے میں وہی قاعدہ اختیار کیا گیا ہے جو پوری طرح سے قانون کے مطابق ہے۔

ان کا یہ بیان گجرات حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کو یہ  بتانے کے بعد آیا ہے  کہ مجرموں کی رہائی کا فیصلہ مرکزی حکومت کی منظوری سے لیا گیا تھا۔

 17 اکتوبر کو عدالت کے سامنے گجرات سرکار نے  بتایا کہ 11 جولائی 2022 کو لکھے گئے خط کے توسط سے مرکزی وزارت داخلہ کے ذریعےگجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو کے گینگ ریپ اور ان کے رشتہ داروں کے قتل کے قصوروار ٹھہرائے  گئے گیارہ لوگوں کی  سزا معافی اور قبل از وقت رہائی کو منظور دی گئی تھی۔

ریاستی حکومت نے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا-مارکسسٹ (سی پی آئی-ایم) لیڈر سبھاشنی علی، آزاد صحافی ریوتی لال اور لکھنؤ یونیورسٹی کی سابق وائس چانسلر روپ ریکھا ورما کی طرف سے مجرموں کی رہائی کے خلاف دائر کی گئی پی آئی ایل  پر اپنا جواب داخل کیا تھا۔

اپنے حلف نامے میں حکومت نے کہا کہ ،ان کا [مجرموں کا] سلوک اچھا پایا گیا تھا، اور انہیں اس بنیاد پر رہا کیا گیا کہ وہ  قید میں  چودہ سال گزار چکے تھے۔

لائیو لاء کے مطابق، حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی تجویز کی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، سی بی آئی، اسپیشل کرائم برانچ، ممبئی اور اسپیشل سول جج (سی بی آئی)، سٹی سول اینڈ سیشن کورٹ، گریٹر بمبئی نے مخالفت کی تھی۔

غور طلب ہے کہ  گجرات کی بی جے پی حکومت نے اپنی معافی پالیسی کے تحت عمر قید کی سزا کاٹ رہے ان  تمام 11 مجرموں کی رہائی کو منظوری دی تھی ، جس کے بعد ان سب کو 16اگست کو گودھرا کی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔

سوشل میڈیا پر سامنے آئے ایک ویڈیو میں ریپ  اور قتل کے لیے قصوروار ٹھہرائے گئے  ان لوگوں  کا استقبال مٹھائی کھلا کر کیا جا رہا ہے۔ جس پر کارکنوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔اس کے علاوہ سینکڑوں خواتین کارکنوں سمیت 6000 سے زائد افراد نے سپریم کورٹ سے مجرموں کی سزا کی معافی کے فیصلے کو رد کرنے کی اپیل کی تھی۔

قابل ذکر ہے کہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کی طرف سے اس فیصلے کی سخت مخالفت کے باوجود مرکزی حکومت کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

بلقیس کیس میں گجرات حکومت کا جواب بہت بوجھل، حقائق پر مبنی بیان غائب: سپریم کورٹ

دریں اثنا، سپریم کورٹ نے منگل کو کہا کہ بلقیس کیس میں گجرات حکومت کا جواب بہت بوجھل ہے، جس میں کئی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہے ، لیکن حقائق پر مبنی بیانات غائب ہیں۔

سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں کو گجرات حکومت کے حلف نامہ پر اپنا جواب داخل کرنے کا وقت دیا اور کہا کہ وہ عرضیوں پر 29 نومبر کو شنوائی کرے گی جس میں 2002 کے کیس میں قصورواروں کی سزا میں چھوٹ  اور ان کی  رہائی کو چیلنج کیا گیا ہے۔

جسٹس اجے رستوگی اور سی ٹی روی کمار کی بنچ نے کہا، ہم نے کوئی ایسا جوابی حلف نامہ نہیں دیکھا ہے جس میں کئی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہو۔ حقائق  پر مبنی بیان دیا جانا چاہیے تھا۔ بہت بوجھل جواب۔ حقائق پر مبنی بیان کہاں ہے، دماغ کا استعمال کہاں ہے؟’

بنچ نے ہدایت دی کہ گجرات حکومت کی طرف سے داخل کردہ جواب تمام فریقوں کو دستیاب کرایا جائے۔

شروع میں عرضی گزاروں کی جانب سے سینئر وکیل کپل سبل نے  کہا کہ انہیں اپنا جواب داخل کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔ جسٹس رستوگی نے کہا کہ اس سے پہلے کہ وہ گجرات حکومت کا جواب پڑھ پاتے، یہ اخباروں  میں نظر آرہا تھا۔

انہوں نے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ کو کہا کہ انہوں نے ایساکوئی جوابی حلف نامہ نہیں دیکھا  ہے جس میں کئی فیصلوں کا حوالہ دیا گیا ہو۔ مہتہ نے اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ اس سے بچا جا سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ‘حوالے کے لیے فیصلوں کا ذکر کیا گیا تھا، اس سے بچا جا سکتا تھا۔

سالیسٹر جنرل نے کہا کہ اجنبی اور تیسرے فریق سزا میں چھوٹ  اور مجرموں کی رہائی کو چیلنج نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے درخواست گزاروں کو وقت دیا اور معاملے کی سماعت کے لیے 29 نومبر کی تاریخ مقرر کی۔

گجرات حکومت نے سوموار کو سپریم کورٹ میں 1992 کی استثنیٰ کی پالیسی کے مطابق مجرموں کو رہا کرنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا تھا اور کہا تھاکہ وزارت داخلہ نے 11 جولائی 2022 کو ایک خط کے توسط سے مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی منظوری دی تھی۔

حال ہی میں ان مجرموں میں سے ایک رادھے شیام شاہ نے سزامعافی کے سلسلے میں دائر درخواستوں کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی  دائر کرتے ہوئےاس عرضی  کو ‘غیر عملی اور سیاست سے متاثر’ بتایا تھا۔

قابل ذکر ہے کہ اسی رادھے شیام شاہ پر کچھ دن پہلے کیس کے ایک اہم گواہ کو دھمکانے کا بھی الزام لگاتھا۔ اس کیس کے کلیدی گواہ امتیاز گھانچی نے اس سلسلے میں چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت کو خط لکھا تھا جس میں اپنی جان کو لاحق خطرے کے پیش نظر تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔

گھانچی نے اپنی جان کو لاحق خطرے کا حوالہ دیتے ہوئے گجرات کے ہوم سکریٹری اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو بھی ایک کاپی بھیجی تھی۔

غورطلب  ہے کہ 27 فروری 2002 کو سابرمتی ایکسپریس کے کوچ میں تشدد کے بعد 59 کار سیوکوں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہونے والے تشدد کے دوران بلقیس بانو، جو اس وقت پانچ ماہ کی حاملہ تھیں، اپنی بچی اور دیگر 15 افراد کے ساتھ اپنے گاؤں سے بھاگ گئی تھیں۔

تین  مارچ 2002 کو داہود ضلع کے لمکھیڑا تعلقہ کے رندھیک پور گاؤں میں بلقیس کے خاندان پر درانتی، تلوار اور لاٹھیوں سے لیس 20-30 لوگوں کے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔ یہاں بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا، جبکہ ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کر دیا گیا۔ دیگر چھ لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

بلقیس کے اس معاملے کو لے کر قومی انسانی حقوق کمیشن پہنچنے کے بعد سپریم کورٹ نے سی بی آئی انکوائری کا حکم دیا۔ کیس کے ملزمان کو 2004 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مقدمے کی سماعت احمد آباد میں شروع ہوئی تھی، لیکن بلقیس بانو نے خدشہ ظاہر کیا تھاکہ گواہوں کو نقصان پہنچایا جا سکتا ہے، ساتھ ہی سی بی آئی کے جمع کردہ شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اگست 2004 میں کیس کو ممبئی منتقل کر دیا۔

بتادیں کہ 21 جنوری 2008 کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت نے بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے سات افراد کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے 11 ملزمین کوعمر قید کی سزا سنائی تھی۔ انہیں تعزیرات ہند کے تحت ایک حاملہ خاتون کی عصمت دری، قتل  کی سازش کرنے ، قتل اور غیر قانونی طور پر اکٹھا ہونے کا قصوروار ٹھہرایا تھا۔

خصوصی عدالت نے دیگر سات ملزمین کو ثبوت کے فقدان میں بری کر دیا۔ وہیں مقدمے کی سماعت کے دوران ایک ملزم کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں، بمبئی ہائی کورٹ نےملزمین کی سزا کو برقرار رکھتے ہوئے سات لوگوں کو بری کرنے کے فیصلے کو پلٹ دیا تھا۔

بلقیس نے اس وقت کہا تھا،سپریم کورٹ نے میرے درد، میری تکلیف  اور 2002 کے تشدد میں کھوئے ہوئے میرے آئینی حقوق کو واپس حاصل کرنے کی میری جدوجہد کو سمجھا۔ حکومت کے ہاتھوں کسی بھی شہری کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے، جس کا فرض ہماری حفاظت  کرناہے۔

اپریل 2019 میں سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کو بلقیس بانو کو 50 لاکھ روپے معاوضہ، سرکاری نوکری اور رہائش فراہم کرنے کا حکم دیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)