فکر و نظر

کھڑگے کو کانٹوں کا تاج ملا ہے، لیکن وہی شاید کانگریس کی قیادت کے لیے سب سے معقول شخص ہیں

ملیکارجن کھڑگے اپنے پچاس سال سے زیادہ پر محیط سیاسی کیریئر میں کئی بار خود کو وفادار اور کانگریس کے لیے وقف رہنما ثابت کرچکےہیں، انہوں  بحرانوں کو حل کرنےکے علاوہ  انتظامیہ اور قیادت میں مثالی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔

ملیکارجن کھڑگے (تصویر: پی ٹی آئی)

ملیکارجن کھڑگے (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سابق مرکزی وزیر،نو بارکرناٹک کے کلبرگی سے ایم ایل اے اور تین بار ایم پی کے طور پر منتخب  80 سالہ ملیکارجن کھڑگے،  جن کی امیج  ایک عام شخص کی ہے، کو مشکلوں میں گھری  کانگریس پارٹی کی کمان ملی ہے۔

کھڑگےششی تھرور کو بڑے فرق سے شکست دے کر کانگریس صدر کے عہدے کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے سامنے مسائل  کا انبار ہے – زمین پر پارٹی کو پھر سے زندہ کرنے سے لے کر مرکز میں اپوزیشن کے مضبوط کردار کو سامنے لانے تک، اور ساتھ ہی ساتھ 2024 کے انتہائی اہم عام انتخابات میں اپنی پارٹی کی قیادت کی ذمہ داری بھی انہی کے کندھوں پر ہے۔

کانگریس صدر کے عہدے پر ان کی ترقی ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب کرناٹک کا یہ لیڈر خود کو کئی  طرح کی مشکلوں سے گھرا ہوا پائے گا۔ انہیں سب سے پہلے کانگریس پارٹی میں ابھر کر سامنے آئےمختلف دھڑوں – آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی سطح پر  بھی اور مختلف ریاستی اکائیوں کے اندر بھی–کو متحدکرنا ہوگا۔ اس فہرست میں ان کی اپنی ریاست بھی شامل ہے، جہاں سابق وزیر اعلیٰ سدارمیا اور ریاستی کانگریس کے سربراہ ڈی کے شیوکمار کے درمیان رقابت پارٹی کے کام کاج میں رکاوٹ پیدا کر رہی ہے۔

ان کی قائدانہ صلاحیت کا پہلا امتحان یوں توگجرات اور ہماچل پردیش کے آنے والے انتخابات میں ہوگا۔ لیکن صحیح معنوں میں اصل امتحان اگلے سال کرناٹک اور راجستھان میں ہونے والے انتخابات میں ہو گا، کیونکہ یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ تب تک اپنے رول میں جم چکے ہوں گے۔

کانگریس کے مندوبین نے انہیں پارٹی کے لیے،جو اپنی 100 سالہ تاریخ کے سب سے بڑے بحران سے گزر رہی ہے، ایک  راستہ تلاش کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔کیا کھڑگےاتنی بڑی توقعات کو پورا کر سکیں گے ، نہ صرف پارٹی بلکہ سول سوسائٹی کے لوگوں کی  امیدوں پربھی پورا اتریں گے جو  کانگریس کو حزب اختلاف کی اہم پارٹی کے طور پر دیکھتے ہیں؟

ان کے ٹریک ریکارڈ کے حساب سے دیکھیں،توکھڑگے نے کئی مواقع پر خود کو ایک وفادار اور کانگریس کے لیے وقف لیڈر ثابت کیا ہے اور بحرانوں کو حل کرنے کے علاوہ انتظامیہ اور قیادت میں مثالی مہارت کا مظاہرہ کیا ہے، اور اپنے 50 سال پر محیط سیاسی کیریئر میں ایک آزادانہ پہچان بھی بنائی ہے۔

معمولی لیڈر نہیں ہیں کھڑگے

کرناٹک کے نوکرشاہوں اور سیاسی کارکنوں میں کھڑگے کی شبیہ سب سے پہلے ایک منکسرالمزاج، غیرجانب دار اور باوقار لیڈر کی ہے – ایک ایسے شخص  کی جس نے کبھی بھی کسی بھی حالت میں اپنے ذاتی فائدے کے لیے اپنی طاقت اور اقتدار  کا غلط استعمال نہیں کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی شبیہ ایک ایسے لیڈر کی بھی ہے جو شہریوں کے مفاد کے لیے اپنے اثر و رسوخ  کااستعمال کرنے میں سب سے آگے  رہتاہے۔

بیلگاوی سے وابستہ ایک سینئر صحافی رشی کیش بہادر دیسائی نے دی وائر کو بتایا کہ کانگریس کی سرکاروں کے دوران آئی اے ایس افسران کے درمیان ایک لطیفہ سنایا جاتا تھا کہ کھڑگے اور کانگریس کے ایک اورسینئر لیڈرمیں سے کھڑگے کے  فون کال کا ہمیشہ جواب دیا جانا چاہیے، کیونکہ یہ ہمیشہ عوامی  مسائل کے لیے ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کانگریس کے دیگر سینئر لیڈروں کے فون کال زیادہ تر سرکاری مشینری کے ذریعے ذاتی فائدے کے لیےہوا کرتا تھا۔

کھڑگے کے بارے میں کرناٹک میں جو بہت سے قصےہیں، ان میں سے دو چھوٹے لیکن معرکہ کے واقعات ان کے کردار کی خوبصورتی اور حسن سلوک کو ظاہر کرتے ہیں۔

دیسائی بتاتے ہیں،ایک دہائی قبل، 2013 اور 2014 کے درمیان جب کھڑگے ریلوے  کے مرکزی وزیر تھے، کسی نے انہیں بیدر اور حیدرآباد کے درمیان انٹرسٹی ایکسپریس چلانے کا سہرا  دے دیا۔ کھڑگے فوراً کھڑے ہوگئے اور اسٹیج پر آکر کہا کہ یہ  کام  ان کا نہیں بلکہ ان کے پیش رو ترنمول کانگریس لیڈر دنیش ترویدی کا تھا، جنہوں نے اس کوگرین سگنل دیا تھا۔

اسی طرح کی کہانیوں کے بارے میں دیسائی کہتے ہیں کہ وہ کوئی عام لیڈر نہیں ہیں جو اقتدار میں آنے پر اپنے اتحادیوں کی حمایت کریں  گے۔

سال 1999 اور 2004 کے درمیان، جب وہ ریاست کے وزیر داخلہ تھے، ان کے بااعتماد گن مین، پولیس کانسٹبل ہنومنت راؤ انڈر گریجویٹ ڈگریوں والے کانسٹبلوں کو سب انسپکٹر کی سطح پر ترقی دینے کے لیے منعقدہ امتحان میں ناکام ہو گئے۔ ایک آئی پی ایس افسر نے مجھے بتایا کہ کھڑگے نے راؤ کے ناکام ہونے کے بعد ان کی پیروی نہیں کی۔ راؤ آخر کار سب انسپکٹر کی حیثیت سے ریٹائر ہو ئے، لیکن انہیں یہ ترقی صرف کام کے تجربے کی بنیاد پر ملی۔

کھڑگے ان پرانے زمانے کے سیاست دانوں میں سے ہیں جو شاذ و نادر ہی اپنے کردار کا کریڈٹ لیتے ہیں اور کارواں کو آگے بڑھانے کے لیے پردے کے پیچھےسے کام کرتے ہیں۔ جب کوئی ذمہ داری دی جاتی ہے تو وہ اس کام کو بہت سلیقے سے کرتے ہیں۔ وہ بیٹھکوں کے دوران لمبے لمبے نوٹس لیتے ہیں اور بحرانوں کا سامنا پرسکون انداز میں اور بڑی مضبوطی کے ساتھ کرتے ہیں۔

سال 1978 اور 2014 کے درمیان کرناٹک میں کانگریس  کی تین حکومتوں اور مرکزی حکومت میں کئی اہم وزارتوں کو سنبھالنے کا تجربہ رکھنے والے کھڑگے آل انڈیا کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اہم میسنجر رہے ہیں۔ پرتھوی راج چوہان کے دور میں انہوں نے مہاراشٹر حکومت کے بحران اور کانگریس پارٹی کے دیگر بحرانوں کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

بی جے پی کے سابق رہنما اور گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ شنکر سنگھ واگھیلا کے اپنی پارٹی کے خلاف بغاوت کے بعد انہیں کانگریس میں لانے کا سہرا بھی ان کے سر ہے۔ حال ہی میں جب اشوک گہلوت کے حامیوں نے پارٹی ہائی کمان کے خلاف بغاوت  کا علم بلند کیا تو وہ راجستھان میں بحران کو حل کرتے ہوئےنظر آئے، جس کے بعد گاندھی خاندان نے انہیں کانگریس صدر کے عہدے کے لیے انتخاب لڑنےکو کہا۔

تکثیریت میں یقین

شاید کسی اور نے کانگریس کے تکثیریت کے نظریے کو اتنا جذب نہیں کیا جتنا کہ کھڑگے نے۔ ہولیہ کاسٹ گروپ ، جوایک دلت کمیونٹی ہے،سے تعلق رکھنے والےکھڑگے کا بچپن کسی کی بھی توقع سے زیادہ سخت اور سفاکانہ رہا  ہے، لیکن شاید یہی وہ چیز ہے جس نے انہیں بڑی سے بڑی جدوجہد کے لیے تیار کیا ہے۔

انہوں نے 1947 کے فسادات میں اپنے دو حقیقی بھائیوں اور والدہ کو کھو دیا۔ کچھ لوگ اس تنازعہ کو فرقہ وارانہ فسادات سمجھتے ہیں، جس کی قیادت نظام کی پرائیویٹ آرمی رضاکاروں نے کی تھی۔ رضا کاروں نے رجواڑے کے ہندوستانی یونین میں انضمام کی پرتشدد مخالفت کی تھی۔ دوسرے لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ ایک مقامی فساد تھا جس کا کوئی مذہبی رنگ نہیں تھا۔

خیر، جو بھی رہا ہو، واراوٹی گاؤں میں ان کی جھونپڑی آدھی جلا دی گئی، جس کے بعد وہ کلبرگی (سابقہ گلبرگہ) شہر ہجرت کرنے پر مجبور ہو ئے۔ لیکن اس کے باوجود کھڑگے نے کبھی بھی فرقہ وارانہ تعصب کی پرورش نہیں کی، جیسا کہ اکثر ایسے واقعات کا سامنا کرنے والے اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔

ان کے والد نے گلبرگہ میں ایم ایس کے  کاٹن مل میں کام کرنا شروع کیا۔ اس دوران کھڑگے نے قانون کی ڈگری حاصل کی اور نظام کی ٹیم میں قومی سطح کے ہاکی کھلاڑی بن گئے۔ لیکن گھٹنے کی انجری کے باعث انہیں ہاکی کو الوداع کہنا پڑا۔ وہ مل میں ہیڈ لوڈ– ورکرز کے ایک ممتاز یونین لیڈر کے طور پر ابھرے اور اپنے کالج میں  بھی ایک ممتاز اسٹوڈنٹ  رہنما کے طور  پر سامنے آئے۔

وہ اپنے سیاسی کیریئر کا سہرا امبیڈکرائٹ سماجی مصلح وی شیام سندر کو دیتے ہیں، جنہوں نے ان  کا تعارف  ذات پات مخالف  نظریات سے کرایا، جس نے بعد میں ان کی سیاسی شخصیت کو تشکیل دیا- پہلے ری پبلکن پارٹی آف انڈیا کے رکن کے طور پر، پھر خود امبیڈکر کے ذریعے قائم کردہ پبلک ایجوکیشن سوسائٹی کا گلبرگہ چیپٹر کے طور پر اور اس کے بعد 1972 سے کانگریس کے رکن کے طور پر۔

انہوں نے دو سالوں کے لیے کانگریس چھوڑ ی تھی جب وہ پارٹی سے بغاوت کر کے اپنی پارٹی کانگریس (یو آر ایس) بنانے والے کرناٹک کے سابق کانگریسی وزیر اعلیٰ دیوراج ارس کے ساتھ چلے گئے تھے۔ لیکن کھڑگے پھر سےپارٹی میں واپس آگئے اور تب سے ان کا شمار ملک کی اس سب سے پرانی پارٹی کے نمایاں لیڈروں میں ہوتا ہے۔

پھر بھی،  گلبرگہ اسمبلی سے نو بار جیتنے کے باوجود انہیں چیف منسٹر کی کرسی نہیں دی گئی۔ جانکاروں کا کہنا ہے کہ کھڑگے پر دوسری غالب ذاتوں کے نمائندوں کو ترجیح دی گئی، جو انتخابی لحاظ سے کم بااثر دلت برادری سے آئے تھے۔ تین بار چیف منسٹر کے عہدے سے محروم کیے جانے کے بعد پارٹی ہائی کمان نے آخرکار ان کو قومی سیاست میں  کردار ادا کرنے کے لیے مدعو کیا- جو انہوں نے پارلیامنٹ اور تنظیم کے اندر بڑی کامیابی کے ساتھ انجام دیا ہے۔

سال 2014 میں دو بار ایم پی کے طور پرکھڑگے نے خود کو لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر کی مشکل کرسی پر پایا، جب پارٹی صرف 44 سیٹوں پر سمٹ گئی اور یہاں تک کہ سینئر ترین لیڈروں کو بھی انتخابی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس ذمہ داری کو پوری لگن کے ساتھ نبھاتے ہوئے کھڑگے نے 2014 میں کہا تھا، ہم پارلیامنٹ میں 44 ہو سکتے ہیں، لیکن پانڈووں کو سو کورووں سے نہیں ڈرایا جا سکتا۔اس کے بعد سے آج تک انہوں نے پارلیامنٹ میں اپنی پارٹی کے لیے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔

سال 2019 میں کھڑگے کو پہلی بار اپنے لوک سبھا حلقہ کلبرگی میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد انہیں راجیہ سبھا کی نشست دی گئی، لیکن پارٹی میں ان کے قد اور مرتبے پر کوئی سوالیہ نشان نہیں کھڑا کیاگیا۔ ایسے میں سونیا گاندھی کی جانب سے اشوک گہلوت کی امیدواری کو خارج کرنے کے بعد، یہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ وہ پارٹی صدر کے طور پر دگوجئے سنگھ کےاوپر ‘متفقہ رائے والے امیدوار’ کے طور پر ابھرنے جیسا کچھ نہیں تھا۔

کانگریس پارٹی اب نئے ہاتھوں میں ہے – ایک کثیر لسانی شخص جو ہندی، دکنی، کنڑ، مراٹھی اور انگریزی زبانوں میں ماہر ہے۔ آزاد ہندوستان میں کھڑگے جنوبی ہندوستان سے آنے والے کانگریس کے چھٹے صدر ہیں۔ اس سے پہلے، پٹابھی سیتارمیا، این سنجیو ریڈی، کے کامراج، ایس. نجلنگپا اور پی وی نرسمہا راؤ اس عہدہ پر رہ چکے ہیں۔

ان کے وسیع تجربے کے پیش نظر کھڑگے گاندھی خاندان کے ماتحت ہوئے بغیر اپنی قیادت کی تکمیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ گاندھی خاندان کی نمبر دو  کی پسند ہوسکتے ہیں، اور ان کو ملا تاج کانٹوں سے بھرا ہو سکتا ہے، لیکن کھڑگے، جس کا طویل سیاسی کیریئر ہے، کو پتہ ہوگا کہ کانگریس کے لیے واحد راستہ آگے بڑھنے کا ہے۔

(اس  مضمون  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)