فکر و نظر

الوداع ملائم سنگھ یادو …

ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد یادو اور کانشی رام نے دبے کچلے مجبور و مقہور مظلوموں کو جگا تو دیا، مگر ان کا ایک واضح اتحاد بنانے میں ناکام رہے، جو ملکی سطح پر اثر انداز ہوکرہندوستان کے سماجی توازن کو ٹھیک کرکے اس خطے کی تقدیر بدل دیتا۔ ہندوستان میں فرقہ پرستی اور اعلیٰ ذاتوں کی ہندو قوم پرستی اور سیاست و سماج میں ان کی پکڑ کا مقابلہ صرف مسلمانوں اور نچلے طبقے پر مشتمل مظلوموں کے ایک ایسے اتحاد سے ہی ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے شاید ایک با ر پھر کسی ملائم سنگھ یادو کا انتظار کرنا پڑے گا، جو دور اندیش اور اپنے نعرے کوعملی جامہ پہنانے اور منزل تک پہنچنے میں مخلص ہو۔

ملائم سنگھ یادو

ملائم سنگھ یادو

”ڈرا ہوا مسلمان، ہندوستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اور ہندوؤں کو اس کا احساس ہونا چاہیے۔”

 سماج وادی پارٹی کے لیڈر، سوشلسٹ سیاست کے علمبرار اور سابق وزیر دفاع ملائم سنگھ یادواکثریہ الفاظ تقریروں اور انٹرویوز میں دہراتے تھے۔ ابھی 10اکتوبر کو83سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ پست قد کے اس بڑے سیاسی قد والے لیڈر نے ملک کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کے سیاسی اور سماجی نقشہ پر گہری چھاپ چھوڑدی ہے۔

دراصل 90 ء کے اوائل میں دو یادوں، اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو اور پڑوسی صوبہ بہار میں لالو پرساد یادو  کے عروج نے شمالی ہندوستان میں آئے دن ہونے والے  فرقہ وارانہ فسادالت پر قدغن لگا کر، مسلمانوں کو بڑی حد تک سلامتی کا احساس کروادیا۔

انہوں نے اپنی کمیونٹی یادوں کو کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سحر سے نکال کر ان کو طاقت کا احساس کرواکرمسلم–یادو (ایم وائی)کا اتحاد قائم کرواکے ہندوؤں کی اونچی ذاتوں کو اقتدار سے بے دخل کرکے، ہندو مسلم  فرقہ واریت کے بجائے ذات پات کی بنیاد پر سیاست کو متعارف کروایا۔ جس کی و جہ سے وہ تین بار ہندوستان کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بھی رہے۔

یادو دراصل شمالی ہندوستان میں مڈل کاسٹ یا دیگر پسماندہ طبقات کے زمرے میں آتے ہیں اور روایتی طور پر گائے، بھینس پالنے اور دودھ بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ اتر پردیش کی آبادی میں ان کا 8فیصد اور بہار میں 13سے14فیصد ہے۔ مسلمانوں کا تناسب ان صوبوں میں بالترتیب 19فیصد اور 17فیصد ہے۔ اس وجہ سے ملائم سنگھ کے پاس 27فیصد کا ایک ٹھوس ووٹ بینک موجود تھا، جو ہر وقت ان کی جھولی میں رہتا تھا۔

جون1996کو جب وہ جنتا دل مخلوط حکومت میں وزیر دفاع بنے، تو ان کی سماج وادی پارٹی کے ترجمان کی دہلی کے دفتر میں بریفنگ کے بعد ان کے دست راست اور صنعت کار امیتاب آدھار (جو ٹائمز آف انڈیا کے مالکان کے قریبی رشتہ دار بھی تھے)ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے کہ’چونکہ تم لوگ وزارت دفاع بھی کور کرتے آئے ہو، کیا کوئی یادو ذات کا آرمی آفیسر تم لوگوں کی نظر میں ہے۔’

استفسار پر اس نے بتایا کہ نیتا جی (ملائم سنگھ یادو) نے حکم دیا ہے کسی یادو ذات کے آرمی آفیسرکا ہی ان کے دفتر میں بطور ملٹری سکریٹری تقرر کیا جائے۔ وزیر دفاع کا ملٹری سکریٹری عام طور پر میجر جنرل یا برگیڈیر رینک کا افسر ہوتا ہے اور یہ ایک طرح سے آرمی اور وزیر کے درمیان ایک رابطہ ہوتا ہے۔ فوج سے متعلق تمام فائلیں اور ان پر نوٹنگ کرنا اور وزیر کے لیے بریف بنانا اس کی ذمہ داری ہوتی ہے۔

ملائم سنگھ کی ان دنوں دہلی میں رہائش گاہ نہیں تھی، اس لیے وہ اوکھلا میں واقع  اتر پردیش حکومت کے گیسٹ ہاؤس میں مقیم تھے۔ چند روز بعد امیتاب نے وزارت دفاع کور کرنے والے اور چند دیگر صحافیوں کے ساتھ ان کی آف ریکارڈ ملاقات کروائی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہ آخر کیوں یادو آرمی آفیسر کو ہی اپنے دفتر میں رکھنا چاہتے ہیں، کیا ان کو دیگر افسران پر بھروسہ نہیں ہے؟

انہوں نے کہا، کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ مجھے کسی اور افسر کی تقرری پر اعتراض نہیں ہے۔ میں تو بس سسٹم کو آئینہ دکھانا چاہتا تھا کہ جب جنگ یا شورش ہوتی ہے تو نچلے طبقات کے افراد ہی قربانیاں دیتے ہیں، مگر افسروں کی پوسٹ پر اونچے طبقہ کے ہی افراد برا جمان ہوتے ہیں۔

یہ واقعی ایک حیرت کا مقام تھا کہ 12 لاکھ کی ہندوستانی فوج کے 40000  افسران میں کوئی نچلے طبقہ کا نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہر مرحلے پر اب ہر طبقہ کو حصہ داری ملنی چاہیے۔ اس کے لیے ان کے پاس 1962، 1965اور 1971کی جنگوں میں ہلاک شدہ سپاہیوں کا ڈیٹا موجود تھا۔ان کا کہنا تھاکہ پسماندہ ذاتوں کا تناسب ملک کی  آبادی میں 50 فی صد سے زیادہ ہے لیکن یہ تعلیم اور ملازمت میں بہت پیچھے  ہیں اور بیشتر غربت کی لکیر پر رہتے  ہیں۔

خیر بعد میں معلوم ہوا کہ ایک کرنل جو ریٹائرڈ ہو چکا تھا، یادو ذات کا ان کو مل گیا تھا اور اس کو ہی انہوں نے ملٹری سکریٹری بنوادیاتھا۔ وہ مارچ 1998تک وزیر دفاع رہے۔اس دوران انہوں نے حکم دیا کہ ہلاک شدہ فوجیوں کے جسد خاکی کو ان کے آبائی وطن لایا جائے تا کہ اہل خانہ ان کی آخری رسومات میں شامل ہو سکیں اس سے پہلے یہ رسومات ان کے مذہب کے مطابق یونٹ کے مستقر پر ہی ادا کر دی جاتی تھیں۔

گو کہ یہ ان کا احسن قدم تھا، مگر اس کا بعد میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے خوب استعمال کیا۔چونکہ زیادہ تر ہلاکتیں یا تو پاکستانی سرحد پریا کشمیر میں ہوتی تھیں، آخری رسوم سے قبل ہندو قوم پرستوں جماعتیں پوری تحصیل یا ضلع میں ان لاشوں کو گھما گھماکر پاکستان، کشمیر اور مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کرنے کے لیے استعمال کرنے لگیں۔

سال 1999کی کرگل جنگ جب ختم ہو گئی تھی اور ایک بار پارلیامنٹ ہاؤس کے کوریڈور میں انہوں نے صحافیوں کو طعنہ دیا کہ 1996میں تو میرے پیچھے پڑ گئے تھے، کیا اب کسی نے ہلاک شدہ سپاہیوں کی لسٹ کا بغور مطالعہ کیا ہے؟ ان کاکہنا تھا کہ پوری ہندوستانی فوج میں جہاں مسلمانوں کا تناسب 1.5فیصد سے بھی کم ہے، اس جنگ میں مہلوکین میں ان کا تناسب 38فیصد تھا۔ مجھے یاد ہے کہ یہ اعداد و شمار انہوں نے ایک بار این ڈی ٹی وی کے انٹرویو میں بھی دیے تھے۔

دیگر سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے ساتھ آؤٹ ریچ اور مسائل کا حال ڈھونڈنے میں وہ ماہر تھے۔ 1995میں کانگریسی وزیر اعظم نرسمہا راؤ کے آخری دنوں میں ہندوستانی حکومت روس کے ساتھ جدید سخوئی جنگی طیارے خریدنے کے لیے مذاکرات کررہی تھی۔ قیمتوں پر اتفاق رائے سے قبل ہی حکومت نے 800ملین ڈالر روسی حکومت کو ٹرانسفر کر دے۔ یہ ایک بڑا اسکینڈل تھا۔

اسی دوران کانگریس حکومت کا خاتمہ ہوا اور اس کی حمایت سے جنتا دل کی قیادت میں یونائیٹڈ فرنٹ حکومت پہلے دیو ی گوڑا اور پھر اند ر کمار گجرال کی قیادت میں اقتدار میں آئی۔ قریباً ایک ماہ تک بی جے پی نے اس معاملہ کو پارلیامنٹ میں خوب اچھالا اور تحقیق کی مانگ کی۔

لگتا تھا کہ یہ تو بوفورس توپوں سے بھی بڑا کورپشن کا اسکینڈل ہے۔ یاد رہے کہ بوفورس اسکینڈل کی وجہ سے 1989میں راجیو گاندھی کی حکومت چلی گئی تھی اور تب سے آج تک اپنے بل بوتے پر کانگریس پھر کبھی اقتدار میں نہیں آسکی ہے۔جب ملائم سنگھ وزیر دفاع تھے، تو ان دنوں لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی اور راجیہ سبھا میں لیڈر جسونت سنگھ روز اس سخوئی طیارہ کے اسکینڈل کو اچھال کر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہے تھے۔

پارلیامنٹ کی کاروائی کو نو روز تک اپوزیشن نے جام کردیا تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد بی جے پی نے اچانک اس کو اچھالنا بند کردیا اور اس معاملے پر ایک معنی خیز خاموشی چھا گئی۔ تجسس کے مارے میڈیا نے بھی خوب ہاتھ پیر مارے، کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ واجپائی جو لوک سبھا میں اپو زیشن لیڈر تھے اور جسونت سنگھ جو راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر تھے نے لب سیل کیے ہوئے تھے۔ آخر کئی سال بعد ملائم سنگھ یادو نے ہی صحافیوں کو طعنہ دیکر کہا کہ ‘دہلی میڈیا تو بڑا باخبر رہتا ہے، مگر ابھی تک تم لوگوں کو پتہ نہیں چل پایا کہ سخوئی تنازعہ گیا کہاں؟’

 معلوم ہوا کہ آدھی ر ات کے وقت جب دہلی سو رہی تھی، تو وزارت دفاع میں ان کے دفتر میں واجپائی اور جسونت سنگھ آ پہنچے تھے۔ ملائم سنگھ نے ہی ان کو میڈیا کی نظروں سے چھپا کر مدعو کیا ہوا تھا اور اس سودے سے متعلق تمام حساس فائلیں،مذاکرات کی سبھی تفصیلات اور نوٹس ان کو پڑھنے کے لیے دیے۔یہ لیڈران رات کے آخری پہر تک وزارت دفاع میں رہے اور فائلوں کا مطالعہ کرتے رہے۔

پتہ چلا کہ اس وقت کے روسی صدر بورس یلسٹن نے درخواست کی تھی کہ سخوئی کا کارخانہ کئی برسوں سے ملازموں کی تنخواہیں نہیں دے پا رہا ہے اور یہ ان کے ہی حلقہ انتخاب میں ہے۔ چونکہ روس میں انتخابا ت ہو رہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ اگر ہندوستان 800ملین ڈالر ٹرانسفر کرتا ہے تو ہزاروں ملازمین کو تنخواہیں ملیں گی اوران کو بھی دوبارہ منتخب ہونے میں مدد ملے گی۔

جب تک سودے کی دیگر کارروائی مکمل ہوتی ہے، یہ کارخانہ جہاز بنانے کا عمل شروع کرےگا اور یہ رقم حتمی پرائس میں شامل کی جائےگی۔ اس آؤٹ ریچ اور شفافیت کے عمل سے ملائم سنگھ نے اس پورے مبینہ اسکینڈل اور اپوزیشن کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی ہوا نکال کر رکھ دی۔

ملائم سنگھ کی پیدائش اتر پردیش کے اٹاوہ ضلع کے گنگا اور جمنا دریاؤں کے دوآب پر واقع سیفئی گاؤں میں 22 نومبر 1939کو ایک متوسط یادو خاندان میں ہوئی۔ ایک اسکول ٹیچر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پہلوانی کا شوق بھی رکھتے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں انہوں نے ایک کشتی کے مقابلے میں کئی پہلوانوں کو شکست دی۔ جب اکثر سیاستدان کامیاب ہوکر دارالحکومتوں کا رخ کرکے اپنی جنم بھومی کو بھول جاتے ہیں، ملائم سنگھ یادو نے اس ساڑھے سات ہزار نفوس پر مشتمل سیفئی گاؤں کو دنیا کا خوش قسمت ترین گاؤں بنا دیا ہے۔

بابری مسجد کی مسماری کے ایک سال بعد جب 1993میں اتر پردیش کے صوبائی انتخابات ہو رہے تھے، تو اس کو کور کرنے کے دوران میں اٹاوہ پہنچا، تو معلوم ہوا کہ ملائم سنگھ یادو اپنے گاؤں سیفئی آئے ہوئے ہیں۔ اٹاوہ ضلعی ہیڈکوارٹر سے 23کلومیٹر کا فاصلہ پیدل ہی طے کرنا پڑا۔ کیونکہ معلوم ہو ا کہ صبح اور شام کو اس طرف بس ایک کھٹارہ سی بس چلتی ہے۔جھونپڑیوں، دھول مٹی سے اٹا علاقہ ہندوستان کے دیگر دیہی علاقوں کی طرح ہی کسمپرسی کی تصویر پیش کر رہا تھا۔

مگر پچھلی تین دہائیوں میں ملائم سنگھ کی وجہ سے اس گاؤں نے ایسا سفر طے کیا ہے، جو کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے شہر کو شرمندہ کر سکتا ہے۔ اس چھوٹے سے گاؤں میں ایک میڈیکل کالج، نرسنگ کالج، فارمیسی کالج، 800بیڈ کا اسپتال، 500بیڈ کا سپر اسپیشلٹی اسپتال، پوسٹ گریجوٹ کالج، لا کالج، ایک ماڈرن اسکول، انڈسٹریل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، فضائی مستقر اور ایک وسیع و عریض اسپورٹس کمپلکس، جس میں کرکٹ، فٹ بال، ہاکی، کشتی، کبڈی وغیر کھیلوں کی مفت کوچنگ کی جاتی ہے، موجود ہے۔

چار لین کی ہائی وے اور بس ڈپو اور ریلوے اسٹیشن اس گاؤ ں کو صوبہ کے دیگر شہروں سے جوڑتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس سے مقامی آبادی کی سماجی اور معاشرتی ترقی ہونی ہی تھی۔ جہاں صوبہ کی شرح خواندگی67فیصد ہے، وہاں سیفئی اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں یہ 85فیصدسے زائد ہے۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ اگر لوک سبھا کے 545اراکین اور ملک بھر کے چار ہزار سے زائد اراکین اسمبلی اور 5800شہری بلدیاتی اداروں اور دو لاکھ 50ہزار دیہی پنچایتوں کے منتخب اراکین بس اسی طرح اپنے علاقے یا محلے کا خیال رکھیں، تو پورے ملک کی کایا پلٹ ہو سکتی ہے۔ جنوبی ایشاء کے دیگر ممالک پر بھی یہ فٹ آتا ہے، کہ اگر منتخب نمائندہ اپنے علاقے کے لیے کام کرناچاہےتو کچھ بھی ممکن ہے۔

 جنتا دل کے لیڈر کی حیثیت سے 1989 میں جب وہ  پہلی بار اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ بنے، تولال کرشن اڈوانی کی رام جنم بھومی کی تحریک عروج پر تھی۔ فرقہ پرست عناصر بابری مسجد کی مسماری پر کمر بستہ تھے۔ نومبر 1989 میں جب کارسیوکوں کا ہجوم ایودھیا کی طرف رواں دواں تھا، تو انہوں نے بابری مسجد کی حفاظت کرنے کے لیے سخت کارروائی کا حکم دیا۔ان کا یہ فقرہ بہت مقبول ہوا تھا کہ ’بابری مسجد پر پرندہ بھی پر نہیں مار سکے گا۔‘

جب وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل اور بی جے پی کے ہزاروں کارکنوں نے بابری مسجد کی طرف مارچ کرنا شروع کیا تو پہلے تو انھیں لاٹھی چارج سے روکنے کی کوشش کی گئی لیکن جب وہ قابو میں نہیں آئے تو ان پر گولیاں چلانے کا حکم دیا گیا۔ اس کاروائی میں کم ازکم 11 کارسیوک مارے گئے تھے۔

اس سے ایک طرف ان کی شبیہ بطور ایک سیکولر رہنما کے مستحکم ہوئی، وہیں دوسری طرف وہ ہمیشہ کے لئے ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر آگئے۔ انہیں ’مولانا ملائم‘ کا خطاب تک دے ڈالا گیا۔ مسلمانوں نے ان کو رفیق ملت کا خطاب دیا تھا۔ بابری مسجد تنازعہ کا عروج دراصل ان کی سیاسی طاقت کے عرو ج کا زمانہ بھی تھا۔ جیسے جیسے اس مسئلہ نے زور پکڑا ویسے ویسے ان کی سیاسی طاقت بھی بڑھتی چلی گئی۔

وہ طالب علمی کے زمانے میں ہی سیاست سے وابستہ ہو گئے تھے اور سوشلسٹ نظریات سے متاثر تھے۔ 1967 میں پہلی وہ بار قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف 28 برس تھی۔اس وقت اتنی کم عمری میں رکن اسمبلی منتخب ہونے والے وہ پہلے شخص تھے۔

رکن اسمبلی منتخب ہونے کے بعد انھوں نے ایم اے کی تعلیم مکمل کی اور 38 برس کی عمر میں وہ پہلی بار ریاست کے وزیر بنے۔و ہ کئی بار لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے۔ ایک بارتو وہ وزیر اعظم بنتے بنتے رہ گئے، مگر جنتا دل کی قیاد ت والے اتحاد میں باہمی چپقلش کی وجہ سے وہ اس پوسٹ پر نہیں پہنچ پائے۔

سال 1989میں وزیراعظم وشو ناتھ پرتاپ سنگھ نے ملائم سنگھ اور لالو یادو کی مدد سے دلتوں کے طرز پر ملک کی پسماندہ ذاتوں کے لیے تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں 27 فی صد نشستیں مختص کر دیں۔جس نے ملک کی پسماندہ ذاتوں کو نہ صرف اوپر اٹھایا بلکہ انھیں سماجی برابری کا احساس دلایا اور ان میں ایک نئی خود اعتمادی پیدا کی۔اس سماجی و سیاسی اتحاد نے صدیوں پرانی چلی آرہی لارڈ منو کے ہندو دھرم کے اصولوں پر قائم سماج کی ذاتی بنیاد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔سینئر صحافی اور تجزیہ کار ظفر آغا کے مطابق اس تبدیلی کا رد عمل ہونا ضروری تھا۔

ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ اور بی جے پی نے اس سیاست کے جواب میں اونچی ذات اور غیر یادو ہندو ذاتوں کو اکٹھا کرکے ان کو ’ہندو دھرم خطرے میں ہے‘ کی سیاست کا سبق پڑھادیا۔ گو کہ مسلمان ملائم سنگھ کے پکے وٹ بینک تھے، مگر تعمیر و ترقی میں ان کو انکے دور حکومت میں کوئی خاص حصہ نہیں ملا۔مگر یہ سچ ہے کہ اس دوران انہوں نے فرقہ وارانہ سیاست پر قد غن لگا کر مسلمانوں کو تحفظ کا احساس دلا دیا۔

بقول معروف صحافی معصوم مراد آبادی،  اس بحث سے قطع نظر کہ ان کی سیاست مسلمانوں کے لیے مضر تھی یا مفید، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ وہ کھل کر مسلمانوں کے حق میں بولتے اور ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے تھے۔  الہ آباد ہائی کورٹ نے جب بابری مسجد کی اراضی تین حصوں میں تقسیم کرنے کا عجیب وغریب فیصلہ سنایا تو یہ ملائم سنگھ ہی تھے جنھوں نے کہاتھا کہ ‘مسلمان خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں’۔

وہ مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنا جانتے تھے، مگر دیگر سیکولر سیاست دانوں کی طرح انھوں نے بھی مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لیے کوئی ٹھوس کام کرنے کے بجائے جذباتی نعروں کا سہارا لیا۔ مسلم ووٹوں کے سہارے اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ اپنی کمیونٹی یادوؤں کو ہی آگے بڑھاتے رہے۔

سن 2000کے بعد سماج واد کا نعرہ بلند کرنے کے باوجود انہوں نے اپنی پارٹی کو کارپوریٹ کلچر میں ڈھالا اور ایک شاطر صنعت کار امر سنگھ کو سیاہ و سفید کا مالک بنادیا۔ آئے دن فلم اسٹاروں کے جلو میں وہ دکھائی دینے لگے۔ یہ بھی خبریں آتی تھیں کہ بالی ووڈ کی اداکارائیں ان کے بیڈ روم میں موجود ہوتی تھیں۔ اپنے پرانے نمک خواروں کو بھول کر ٹکٹیں امر سنگھ کے کہنے پر بٹنے لگیں۔ 2012 کے یوپی اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد انھوں نے اس بات کا برملا اعتراف کیا تھا کہ مسلمانوں نے اپنے سارے ووٹ سماجوادی پارٹی کی جھولی میں ڈال دیے ہیں، لہٰذا سماجوادی کارکنوں کو ان کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔

اس وقت انہوں نے حکومت کی باگ ڈور اپنے بیٹے آسٹریلیا سے پڑھائی کرکے لوٹے  اکھلیش سنگھ یادو  کے سپرد کردی۔ اس کے ایک سال بعد جب مظفر نگر میں بھیانک مسلم کش فساد ہوا تو ان کی حکومت اس کو روکنے میں بری طرح ناکام ہوئی۔ ان فسادات نے 1989سے پہلے والے اتر پردیش کی یاد تازہ کی اور مسلمان ایک بار پھر عدم تحفظ کا شکا ر ہوگئے۔

 معصوم مراد آبادی کے مطابق یہیں سے مسلمانوں کے ذہن میں ملائم سنگھ اور ان کی پارٹی کے تعلق سے کچھ سوالات پیدا ہونے شروع ہوئے اور غالباً اسی کا نتیجہ تھا کہ2014 اور 2019کے پارلیامانی انتخابات میں ان کو بس پانچ نشستیں ہی مل پائیں۔ 2017 کے اسمبلی انتخابات میں ان کے ممبران اسمبلی کی تعداد 30 پر سمٹ گئی۔

فروری 2022 کے اسمبلی چناؤ میں ملائم سنگھ کا نعرہ بالکل بدل چکا تھا۔ انھوں نے پارٹی دفتر میں کارکنوں کو خطاب کرتے ہوئے کسانوں، نوجوانوں اور تاجروں کے لیے کام کرنے کا نعرہ دیا اور مسلمانوں کا نام تک نہیں لیا، ورنہ وہ اپنی ہر تقریر میں مسلمانوں کا نام ضرور لیتے تھے۔

ملائم سنگھ یادو، لالو پرساد یادو اور کانشی رام نے دبے کچلے مجبور و مقہور مظلوموں کو جگا تو دیا، مگر ان کا ایک واضح اتحاد بنانے میں ناکام رہے، جو ملکی سطح پر اثر انداز ہوکرہندوستان کے سماجی توازن کو ٹھیک کرکے اس خطے کی تقدیر بدل دیتا۔

ہندوستان میں فرقہ پرستی اور اعلیٰ ذاتوں کی ہندو قوم پرستی اور سیاست و سماج میں ان کی پکڑ کا مقابلہ صرف مسلمانوں اور نچلے طبقے پر مشتمل مظلوموں کے ایک ایسے اتحاد سے ہی ممکن ہے۔ مگر اس کے لیے شاید ایک با ر پھر کسی ملائم سنگھ یادو کا انتظار کرنا پڑے گا، جو دور اندیش اور اپنے نعرے کوعملی جامہ پہنانے اور منزل تک پہنچنے میں مخلص ہو۔الوداع ملائم سنگھ یادو…