فکر و نظر

کیجریوال ’پرو–ہندو‘ یا ’اینٹی–ہندو‘ ہوں نہ ہوں، مودی کے نقش قدم پر ضرور ہیں

اروند کیجریوال کے ‘ملک کی ترقی کے لیےلکشمی–گنیش کی تصویر نوٹوں پر چھاپنے’ کے مشورے سے پہلے  ملک نے 2016 میں پیسے کے بارے میں اس طرح کی احمقانہ تجویز کا مشاہدہ کیا تھا، جب ملک کے وزیر اعظم نے اچانک چلن میں رہے اسّی فیصد نوٹوں کو راتوں رات غیر قانونی قرار دے کر کرپشن اور کالے دھن پر روک لگانے کا دعویٰ کیا تھا۔

اروند کیجریوال اور نریندر مودی۔ (تصویر: پی ٹی آئی/رائٹرس)

اروند کیجریوال اور نریندر مودی۔ (تصویر: پی ٹی آئی/رائٹرس)

پستی کی جانب لگی دوڑ ، جو ان دنوں ہندوستانی سیاست کا شیوہ ہے— اس کو عام آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال اپنے عجیب و غریب دعوے کے ساتھ اور نیچے لے گئے ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر کرنسی نوٹوں پر لکشمی اور گنیش کی تصویریں ہوں گی تو ملک ترقی کرے گا۔

چونکہ ایسا لگتا ہے کہ تجویز کے طور پر پیش کیا گیا یہ غیر منطقی دعویٰ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو ہراساں کرنے اور شرمندہ کرنےکے لیےہے، جس کا ماننا ہے کہ اسے ہی ‘ہندو’ پہچان دکھانے  کا حق حاصل ہے۔ بی جے پی کے ترجمان نے اس بات کا یہ جواب دیا کہ کیجریوال دراصل ہندو مخالف ہیں۔ تاہم، اس الزام کی حمایت میں پیش کیے گئے شواہد  بی جے پی کے حق میں نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے دیوالی کے دوران پٹاخوں کے استعمال پر پابندی لگا کر فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے  کا مطالبہ کیا۔ یا یہ کہ ان کے ایک وزیر نے بدھ مت اختیار کرتے ہوئے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی طرف سے لیے گئے وعدوں کا اعادہ کیا –  وہی امبیڈکر جن کا شاگرد ہونے کا دعویٰ  نریندر مودی کرتے ہیں۔ بی جے پی نے عام آدمی پارٹی (عآپ) پر ‘اوریجنل کی خراب  کاربن کاپی’ ہونے کا بھی الزام بھی لگایا ہے۔

دریں اثنا، ہندوستان کے ہندوؤں، جن میں سے اکثر نے کروڑوں دیوی…دیوتاؤں کے باوجود اپنی معاشی حالت کو بگڑتے دیکھا ہے، کو بس  یہ سوچ کر معاف کیا جا سکتا ہے کہ وہ ملک کی بھلائی کے لیے اب کس پر بھروسہ کریں!

پچھلی بار ہندوستان نے اس طرح کی احمقانہ تجویز کا  مشاہدہ 2016 میں کیا تھا، جب نریندر مودی نے کالے دھن کو ختم کرنے اور بدعنوانی پر قابو پا کر ہندوستانی معیشت کو رفتار دینے کا دعویٰ کرتے ہوئے چلن میں سے  80 فیصد کرنسی نوٹوں کو(ان کی جگہ نئے نوٹ فراہم کیے بغیر)واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیجریوال کی طرح وہ بھی امید کر رہے تھے کہ لوگوں کا ا ن پر اندھا بھروسہ انہیں دھوکہ دینے میں مدد کرے گا۔

جس طرح کیجریوال کے پیروکار ان کے احمقانہ بیان میں ان کے’اوصاف’ دیکھنے پر اصرار کرتے نظر آرہے ہیں، اسی طرح مودی کے بھکت’مائیکروچپ’ لگے 2000  روپے کے نئے نوٹ ، جس سے سیٹلائٹ کے ذریعے رابطہ کیا جا سکتا تھا، جو انہوں نے غیر قانونی طور پر جمع کرکے  زمین کے اندردو سو فٹ  کی گہرائی میں بھی  دفن کیا ہو، حکام کو ان کے ہونے شواہد فراہم کر سکتے تھے، کے خیال میں مگن تھے۔حالاں کہ، آخر میں ہوا یہ کہ معیشت کی ترقی کے امکانات ختم ہو گئے اور کرپشن کبھی ختم نہ ہوئی۔

میکرو اکنامکس کے آغاز میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ پیسہ قدر کا ذخیرہ، لین دین کا  ذریعہ اور اکاؤنٹ کی اکائی ہے۔ کیجریوال نےاس کے ساتھ  ایک چوتھاکام جوڑا ہے جس کا دنیا بھر کے سینٹرل  بینک مطالعہ کرنے کی  چاہت رکھ سکتے ہیں:یہ آشیرواد  کا ایک ذریعہ بھی ہوسکتا ہے، بشرطیکہ دولت کی ہندو دیوی اور ہندودھرم  کے حل المشکلات دیوتا ؤں کو صحیح طریقے سے دکھایا گیا ہو۔

بلاشبہ، مانیٹری اکانومسٹ یہ پوچھنےکو مجبور ہیں کہ کیا آشیرواد کی مقدار کل رقم کی سپلائی کے حساب سے ہو گی (ممکنہ طور پر چلن میں لکشمی اور گنیش کی جتنی زیادہ تصویریں ہوں گی، اسی قدرآشیرواد کی بارش ہوگی)،جس  صورت میں فریڈمین – شوارز کی کوانٹٹی تھیوری آف منی، ایم وی=پی وائی کو ایم وی= اوم پی وائی سے بدلا جا سکتا ہے، جہاں اوم ‘آشیرواد ضرب’ ہے جو پیسے کی سپلائی اور گردش کی رفتار (ویلوسٹی آف سرکولیشن)کی پیشین گوئی سے سے اوپر جاکر  برائے نام جی ڈی پی میں اضافہ کرے گا۔

یہ دیکھنا بھی دلچسپ ہوگا کہ کیجریوال کی تھیوری آف منی ان کاروباروں کو کس طرح سنبھالے گی جہاں معیشت کساد بازاری میں چلی جاتی ہے۔ کیا دیوی دیوتاؤں کی  مداخلت سے آشیرواد ضرب کو اس کی عام قیمت سے اوپر بڑھایا جائے گا تاکہ ریزرو بینک آف انڈیا اور محکمہ اخراجات آرام سے بیٹھ سکیں کیونکہ لکشمی–گنیش اپنا کام کرتے رہیں گے اور معیشت بحال ہو جائے گی؟

کیجریوال نے ایک بیان (جو اب واپس لے لیا ہے) میں دلیل دی کہ 20000 روپے کے انڈونیشیا کے نوٹ میں گنیش کی تصویر ہے، اور کہاتھا کہ اگر کوئی ملک جہاں ہندو آبادی بمشکل 2 فیصد ہے، وہ گنیش کا آشیرواد حاصل کر سکتا ہے، اگر ایسا ہے تو ہندوستان کیوں نہیں۔

پچھلی بار میں نے کسی  ہندوستانی رہنما کو انڈونیشیا کی کرنسی کی تعریف کرتے ہوئے تب سنا تھا جب بی جے پی کے ایک رہنما نے مجھے گنیش اور گروڑ (وہاں کی قومی ایئر لائن کا نام) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ انڈونیشیا کے مسلمانوں نے اسلام اپنایا ہے۔ لیکن وہ ‘اپنی ہندو ثقافت کو نہیں بھولے ہیں…’ پھر انہوں نے جلدی سے جوڑا، ‘ہندوستان کے مسلمانوں کے برعکس…’

گنیش کی تصویر والی انڈونیشیا کی کرنسی، جو 2008 سے چلن میں نہیں ہے۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@iam_Jitu)

گنیش کی تصویر والی انڈونیشیا کی کرنسی، جو 2008 سے چلن میں نہیں ہے۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@iam_Jitu)

شاید کیجریوال نےاسی رہنما سے ملاقات کی ہے یا راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میں ان  کے دوست ہیں(کیونکہ انڈونیشیا کا جنون شاکھاؤں میں خام مال کی طرح  استعمال ہوتا ہے)، لیکن اگر انہوں نے انڈونیشیا کی معیشت پر گنیش کے آشیروادکے حقیقی اثر کو دیکھا ہوتا تو انہیں مایوسی ہوتی۔حقیقت یہ ہے کہ 2008 کے بعد سے کسی بھی انڈونیشیائی کرنسی نوٹ پر کوئی گنیش نہیں ہے اور پھر بھی انڈونیشیا کے لوگ ہندوستان کے لوگوں سے دوگنے امیر ہیں۔ شاید گنیش کی مہربانی اس کے جانے کے بعد بھی مالیاتی شعبے میں کام کرتی ہے، یا شاید بالکل بھی کام نہیں کرتی!

بی جے پی کا کہنا ہے کہ کیجریوال کی تجویز دہلی میں آئندہ بلدیاتی انتخابات سے قبل ہندوؤں کو بے وقوف بنانے کی چال ہے۔ ہو سکتا ہے وہ صحیح ہوں۔ وہ ایک ‘خراب کاربن کاپی’ ہیں، لیکن کم از کم بی جے پی خاموشی سے یہ تسلیم کر رہی ہے کہ اصل ہندوتوا پارٹی انتخاب کے دوران ہندو دھرم کو ایک چال کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اور اس میں  کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی  ہے۔

(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)