فکر و نظر

وہ رہنماؤں کی دشمنی کے نہیں، آپسی تعاون اور لین–دین کے دن تھے

اس وقت ہماری سیاست میں اس قدر تنزلی نہیں آئی تھی کہ سیاست دان اپنے حریفوں کو دشمن کی طرح دیکھتے، دشمنوں کی طرح ان کی لعنت ملامت کی جاتی یا  ان کو نیچا دکھانے کی کوشش میں اپنے آپ کو ان سےبھی  نیچے گرا لیا جاتا۔

(فوٹو بہ شکریہ: اسکرین گریب)

(فوٹو بہ شکریہ: اسکرین گریب)

ہمارے ملک کی تاریخ میں31 اکتوبر یعنی آج کے دن کی اہمیت  23 مارچ (جو شہید اعظم بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کی شہادت اور سوشلسٹ مفکر ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کا یوم پیدائش ہے) اور 2 اکتوبر (جو بابائے قوم  مہاتما گاندھی اور دوسرے وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی برسی ہے) جیسی ہی ہے۔

یہ ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم اندرا گاندھی کا یوم شہادت ہے،تو پہلے نائب وزیر اعظم سردار ولبھ بھائی پٹیل اور ہندوستانی سوشلزم کے بانی آچاریہ نریندر دیو کا یوم پیدائش بھی ہے۔

سال 1984 میں اسی دن آپریشن بلیو اسٹارسے ناراض باڈی گارڈزبے انت اور ستونت سنگھ نے صبح 9:29 بجے نئی دہلی میں صفدر گنج روڈ واقع اندرا گاندھی کی رہائش گاہ پر انہیں گولیوں سے بھون کر ان کی جان لے لی تو ایک ہندی روزنامے نےاس کی خبر دیتے ہوئے سرخی لگائی تھی، ‘پگلائی ہنسا (تشدد) نے دیش کا دیا بجھایا۔’

ہاں، 1875 اور 1889 میں اسی دن بالترتیب سردار ولبھ بھائی پٹیل اور آچاریہ نریندر دیو جیسی شخصیات ہمیں ملی تھیں۔

آج ہم ان تینوں میں سے کسی سےبھی کسی معاملے پر خوش ہو سکتے ہیں، ناراض ہو سکتے ہیں، متفق ہو سکتے ہیں یا اختلاف کر سکتے ہیں، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اپنے دور میں اپنے ملک کی خدمت میں اپنا بہترین دینے کے لیےکچھ بھی چیز اٹھا رکھایا اپنے حریفوں سے کسی بھی طرح کے اختلافات اور ناراضگی کو  فرائض کی انجام دہی کے بیچ آنے دیا۔

دراصل اس دور میں  ہماری سیاست میں اس قدرتنزلی نہیں آئی تھی کہ رہنما اپنے حریفوں کو دشمن کی طرح دیکھتے،دشمن کی طرح ان کی  لعنت ملامت کرتے اور انہیں کمتر دکھانے یا گرانے  کی کوشش میں اپنے آپ  کو ان سے بھی نیچے گرا لیا جاتا۔

اس وقت قائدین عام طور پر ایک دوسرے پر یقین کرتے تھے اور اعتماد کا رشتہ رکھتے تھے۔ کئی بار وہ پارٹی لائن کو پار کرکے بھی اس رشتے کو نبھاتے تھے۔ اسی لیے ان کے اختلافات بھی انھیں چھوٹا نہیں بلکہ بڑا ہی  بنایا کرتے تھے۔

اس کی سب سے بڑی مثال سردار ولبھ بھائی پٹیل کےوہ احساسات ہیں (جن کے بارے میں آج کل کچھ لوگ جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ اور پنڈت جواہر لال نہرو ایک دوسرے کو پھوٹی آنکھوں سے بھی دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے اور ایک دوسرے کے خلاف تلوار اٹھائے پھرتے تھے)، جس کا اظہار انہوں نے  اپنے آخری دنوں میں پنڈت نہرو کے لیے کیا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ جب انہیں تشویشناک حالت میں علاج کے لیے ممبئی لے جایا جا رہا تھا اور وہ اس اندیشے  میں مبتلا تھے کہ کیا پتہ وہ صحت یاب ہو کر دہلی واپس آ سکیں گے یا نہیں، توانہوں نے اپنے حامیوں کو بلا کر  ہدایت دی تھی کہ وہ  ان کے نہ رہنے پر بھی جواہر لعل کا ساتھ نہ چھوڑیں، کیونکہ ان کے بعد جواہر لعل بہت اکیلے  ہو جائیں گے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟

اندرا گاندھی پر الزام لگایا جاتاہے کہ 1975 میں ایمرجنسی لگا کر انہوں نے اپوزیشن کے تقریباً تمام لیڈروں کو جیل بھیج دیا اور پھر جیل میں ہی اپنی حکومت کے ‘سب سے بڑے دشمن’ جئے پرکاش نارائن کے گردے خراب کر ادیے۔

یہ الزام لگانے والوں کو نہیں معلوم کہ 1977 میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد اندرا گاندھی جنتا پارٹی کی مرار جی دیسائی حکومت کی طرف سے ‘بدلے کی کارروائیوں’ کے اندیشوں سے پریشان تھیں، تو جئے پرکاش نارائن انہیں تسلی دینے ان کے گھر گئے تھے۔

بات چیت کے دوران انہوں نے ان سے پوچھا، ‘اب جب تم  وزیر اعظم نہیں ہو توتمہارے اخراجات کیسےپورے ہوتے ہیں؟’ تو اندرا گاندھی نے بتایا تھا، ‘والد کی لکھی ہوئی کتابوں کی رائلٹی سے۔’

اتفاق سے، جئے پرکاش نارائن کی بیوی پربھاوتی، اندرا گاندھی کے لیے ماں کی طرح ایسی اکلوتی خاتون تھیں جنہیں وہ کچھ بھی بتا سکتی تھیں، یہاں تک کہ فیروز گاندھی کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں بھی۔ یہی نہیں، جئے پرکاش نارائن نے ایک کو چھوڑ کر اپنے تمام خطوط میں انہیں ‘مائی ڈیئر اندو’ ہی لکھا ہے۔

دراصل، وہ قائدین کی دشمنی کے نہیں، آپسی تعاون اور لین دین کے دن تھے۔ شاذ و نادر ہی ان کے درمیان اس بنیاد پر دھڑے بندی یا اعتماد کا بحران پیدا ہوا کہ وہ مختلف جماعتوں یا خیموں سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہاں آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ آچاریہ نریندر دیو نے کانگریس سے الگ ہو کر پرجا سوشلسٹ پارٹی بنائی، تو اس کا منشور ڈاکٹر سمپورنانندسے لکھوایا تھا– سمپورنانند کے کانگریس لیڈر اور اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے۔

یہ تب تھا،  جب پارٹی کے تقریباً سبھی لیڈروں کو امید تھی کہ آچاریہ اسے خود لکھیں گے، کیونکہ کوئی دوسرا لیڈر اس کو وہ سوشلسٹ شکل نہیں دے سکے گا جو آچاریہ چاہتے ہیں، لیکن ان کی خراب صحت نے انہیں ان دنوں سنجیدگی سے لکھنے اور پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔

جس کی وجہ سے منشور جاری کرنے میں تاخیر ہونے لگی تو کچھ بے صبرے لیڈر ان سےاس بارے میں پوچھنے سے خود کو نہ روک سکے۔ آچاریہ نے انہیں بتایا کہ انہوں نے یہ کام اپنی طرف سے ڈاکٹر سمپورنانند کو سونپا ہے، تب ان لیڈروں پر بجلی سی گر گئی۔ وہ یہ سوچ کر پریشان ہو گئے کہ آچاریہ کو یہ کیاسوجھی کہ جس کانگریس سے الگ ہو کر پارٹی بنائی، اسی کے وزیر اعلیٰ کو اپنا منشور لکھنے کو کہہ دیا!

لیکن دیگر مصروفیات کی وجہ سے ڈاکٹر سمپورنانند کو منشور لکھنے میں تین مہینے لگے، تب بھی آچاریہ بے صبریا مضطرب نہیں ہوئے۔ایک دوسرے پر ان کے بھروسے کی کی انتہا یہ تھی کہ جب ڈاکٹر سمپورنانند نے اپنا لکھا ہوامنشور بھجوایا  تو اسے دیکھے اور پڑھے بغیر ہی چھاپنے کے لیے بھیج دیا۔

جب وہ چھپ کر آیا تو پارٹی کے رہنما جو اسے ڈاکٹر سمپورنانندسے لکھوانے کی وجہ سےتشویش میں مبتلا  تھے، یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ڈاکٹر سمپورنانند نے اسے لکھنے میں ذرہ برابر بھی بدنیتی سے کام نہیں  لیا تھا۔

ایک دوسرے کے شدید مخالف اورحریف لیڈروں کے ان دنوں کے تعلقات کا ایک اور واقعہ 1948 کا ہے۔ اس وقت کا، جب ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں کانگریس پارٹی کو نیک نیتی سے چھوڑنے اور اخلاقی بنیادوں پر اسمبلی سے استعفیٰ دینے کے بعدآچاریہ ایودھیا اسمبلی سیٹ کے ضمنی انتخاب میں کھڑے ہوئے تھے۔

اس وقت  کانگریس نے ان کے  لامحدود علم، خوبی، فخر، وقار اور نظریات سے براہ راست مقابلہ کرنے کے بجائے ان کے خلاف  دیوریا ضلع کے برہج کے مشہور بابا راگھوداس کو کھڑا کیا تھا، جو اپنی ہندوتوا شبیہ کے لیے مشہور تھے۔

جانکاروں کے مطابق، زبردست نظریاتی اختلافات کے باوجود انتخابی مہم کے دوران آچاریہ اور بابا دونوں عوامی فورم پر ایک دوسرے کی خوبیوں اور ملک کی خدمات کی تعریف کیاکرتے تھے۔ بابا کو جب بھی موقع ملتا، وہ آچاریہ کو اپنے آپ سے زیادہ  لائق بتانا نہیں بھولتے۔ لیکن جب انتخابی مہم اپنے عروج پر پہنچی تو بابا کی حالت پتلی دیکھ کر کانگریس نے اپنی مہم کی ساری ٹیک آچاریہ کی ملحدانہ امیج  پر رکھ دی۔

یہ کہنا شروع کردیا کہ آچاریہ کی جیت کے ساتھ ہی ایودھیا میں جو مذہبی جھنڈا عموماً ابلندی پر لہرا تارہاہے اسے نیچے کر دیا جائے گا۔ اس مہم کا فائدہ بابا کو ملا اور وہ آچاریہ کے خلاف ایک ہزار دو سو ووٹوں سے جیت گئے۔

لیکن جیتنے کے بعد بھی وہ کھلے عام اس بات کو تسلیم کرنے سے باز نہیں رہ سکے کہ آچاریہ اس جیت کے زیادہ مستحق تھے، اس لیے انہیں  اپنی جیت کی خوشی سے زیادہ آچاریہ کے ہارنے کا غم ہے۔

تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بابا راگھوداس،  پنڈت جواہر لعل نہرو کی اس نصیحت کے برعکس آچاریہ کے خلاف کانگریس کے امیدوار بنے تھےکہ آچاریہ کی شخصیت اور کام کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے بلامقابلہ انتخاب کی راہ ہموار کرکے انہیں پھر سےاسمبلی میں پہنچنےدیا جائے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن کو اپنا جانی  دشمن بناچکی  آج کی حکمراں پارٹی اس آئینے میں کبھی اپنا چہرہ دیکھے گی؟

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)