خبریں

دہلی: امت شاہ کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کرنے پر سردار پٹیل ودیالیہ کے سابق طلبا کا احتجاج

اسکول کی پرنسپل اور اسے چلانے والی گجرات ایجوکیشن سوسائٹی کو بھیجے گئے ایک خط میں سابق طلبا نے کہا ہے کہ پولرائزیشن کے موجودہ ماحول میں ان جیسے سیاسی شخص کو مدعو کرنے سے اسکول  تنقید کی زد میں آئے گا اور یہ اسکول کے  کردار کوکمزور کرے گا، جو آئین اور تکثیریت کے لیے جانا جاتا ہے۔

سوموار کو سردار ولبھ بھائی پٹیل کے یوم پیدائش کے موقع پر وزیر داخلہ امت شاہ نے دہلی کے سردار پٹیل ودیالیہ میں منعقدہ پروگرام میں شرکت کی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

سوموار کو سردار ولبھ بھائی پٹیل کے یوم پیدائش کے موقع پر وزیر داخلہ امت شاہ نے دہلی کے سردار پٹیل ودیالیہ میں منعقدہ پروگرام میں شرکت کی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: قومی راجدھانی دہلی میں واقع سردار پٹیل ودیالیہ کے سابق طلبا کے ایک گروپ نے سردار پٹیل کے یوم پیدائش (31 اکتوبر) کے موقع پر مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو اسکول میں بطور مہمان خصوصی مدعو کرنے کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے  خط لکھا ہے۔

اسکول کی پرنسپل انورادھا جوشی اور اسکول کو چلانے والی گجرات ایجوکیشن سوسائٹی کو بھیجے گئے ایک خط میں 237 سابق طلبا نے کہا ہےکہ ، خصوصی طور پر پولرائزیشن کے موجودہ ماحول میں ان جیسے سیاسی شخص کو مدعو کرنے سے اسکول کو تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا، اور یہ اس کے کردارکو کمزور کرے گا، جو آئین اور تکثیریت کے لیے جانا جاتا ہے۔ ملک میں پھیل رہی نفرت اور تشدد کا یہ موجودہ ماحول آئینی اقدار کی سنگین خلاف ورزی کے لیے ذمہ دار ہے۔

خط کے مطابق، ‘ہم ایک اسکول ہیں جو سوال کرنے، اختلاف رائے کے جمہوری نظریات، دلیل اور بحث کی حوصلہ افزائی کرتے  ہیں۔ ہم آپ کو اس جمہوریت کے لیے پوری  وابستگی کے ساتھ لکھ رہے ہیں جو اسکول نے ہمیں دی ہے۔

خط بھیجے جانے  کے بعدتمام دوسرے سابق طالبعلموں نے اس کی حمایت کی  ہے۔

خط میں اس بات کا ذکر بھی کیا گیا ہے کہ سردار پٹیل نے خود راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) پر پابندی عائد کر دی تھی۔ آر ایس ایس بھارتیہ جنتا پارٹی کی مربی تنظیم ہے، جس کے شاہ رکن ہیں۔ لہٰذا بی جے پی کی جانب سے پٹیل کی وراثت کا دعویٰ کرنے کی کوششوں کے باوجود وہ آج کی سیاست سے متفق نہیں ہیں۔

خط کے مطابق،

آر ایس ایس کے سیاسی محاذ اور بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کے طور پر امت شاہ سردار پٹیل کے ان نظریات کے خلاف کھڑے ہیں، جو ان کی طرف سے ہمیں دیے گئے ہیں۔

حالیہ برسوں میں بی جے پی کی جانب سے پٹیل پر دعویٰ کرنے کی کوششوں کے باوجود، یہ یاد رکھنا سمجھداری کی بات ہوگی کہ انہوں نے 1948 میں مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد وزیر داخلہ رہتے ہوئےآر ایس ایس پر پابندی عائد کردی تھی۔

چار فروری 1948 کو جاری کردہ ایک ریلیز میں حکومت ہند نے کہا تھاکہ وہ ہمارے ملک میں سرگرم نفرت اور تشددپسند قوتوں کو ختم کرنے اور قوم کی آزادی کو خطرے میں ڈالنے کے لیےتنظیم پر پابندی لگا رہی ہے۔

اس نے یہ بھی کہا کہ ‘سنگھ کے اراکین کی طرف سے ناپسندیدہ، حتیٰ کہ  خطرناک سرگرمیوں کوانجام دیا گیا ہے’اور کئی آر ایس ایس ممبر’تشدد کی کارروائیوں میں ملوث’ ہیں۔

سنگھ کی قابل اعتراض اور نقصان پہنچانے والی سرگرمیاں بلا روک ٹوک جاری ہیں اور سنگھ کی سرگرمیوں کے باعث کئی لوگ تشدد سے متاثر ہیں۔ حکومت نے تب کہا کہ اس کےتازہ ترین اوربیش قیمتی شکار خود گاندھی  جی تھے۔

ہمارے اساتذہ نے تنقیدی سوچ اور طبع زادتخیل کی حوصلہ افزائی کی، تاکہ ہم اقتدارکے سامنے  سچ بولنے کے لیے مسلسل امید اور ہمت بھرسکیں۔ مہمان خصوصی کا انتخاب اسکول کی روح کو تباہ اور کمزور کردیتا ہے، جہاں ہم نے ہمیشہ علم کو روشنی کے طور پر دیکھا ہے جو ہمیں انصاف، مساوات اور امن کی طرف لے جاتا ہے۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔