خبریں

اڑیسہ: جس گاؤں میں جندل اسٹیل پلانٹ لگایا جانا ہے، وہاں 20 گھر گرائے گئے

اڑیسہ کے ڈھنکیا گاؤں میں جندل گروپ 65000 کروڑ روپے کی لاگت سے اسٹیل پلانٹ لگانے جا رہا ہے۔ گاؤں والوں اورسماجی  کارکنوں کا الزام ہے کہ 22 اکتوبر کو کمپنی کے اہلکاروں نے مقامی غنڈوں اور پولیس کی مدد سے تقریباً 20 گھروں کو گرا دیا۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ 20 سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔

توڑ پھوڑکی کارروائی کے دوران بنائے گئے ویڈیو کا اسکرین شاٹ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

توڑ پھوڑکی کارروائی کے دوران بنائے گئے ویڈیو کا اسکرین شاٹ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: اڑیسہ کے جگت سنگھ پور ضلع کے ڈھنکیا گاؤں کے لوگوں کے کم از کم 20 گھروں  کو اس لیے گرا دیا گیا ہے کہ یہ زمین جندل گروپ کو اسٹیل پلانٹ لگانے کے لیے دی جانی ہے۔

گاؤں میں 4000 سے زیادہ لوگ رہتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق دلت کمیونٹی سے ہے اوراس  میں سنتھال قبیلے کےلوگ  بھی ہیں۔ یہاں پان کے پتے والےکسان اور ماہی گیربھی رہتے ہیں۔

تقریباً ایک دہائی سے یہ گاؤں زمینی تنازعہ کے مرکز  میں رہا ہے۔ سب سےپہلے تو ڈھنکیا کے لوگوں نےاس  علاقے میں ایک اسٹیل مل لگانے کے جنوبی کوریائی پاسکو کےمنصوبے کے خلاف ایک  کامیاب احتجاج کی قیادت کی اور اب وہ جندل گروپ کی کمپنی جے ایس ڈبلیو کے 65000 کروڑ روپے کے اسٹیل پلانٹ کے لیے تقریباً 1174 ہیکٹر  زمین کی منتقلی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔

کارکنوں کا کہنا ہے کہ زمین کمپنی کے حوالے کرنے کے لیے بے تحاشہ گرفتاریاں اور توڑ پھوڑ جاری ہے۔

جندل مخالف، پاسکو مخالف مزاحمت سنگرام سمیتی کے ترجمان پرشانک پیکرے نے دی وائر کو بتایا، ہیومن ریسورس منیجر سبھاش پریدا کی قیادت میں مجوزہ جے ایس ڈبلیو اتکل اسٹیل لمیٹڈ پروجیکٹ کے کچھ عہدیداروں اور کچھ مقامی غنڈوں نے 8-10 پولیس افسران کی مدد سے 22 اکتوبر کو ڈھنکیا گاؤں کے لوگوں   کے گھروں کو زبردستی گراد یا۔ انہیں راشن اور پانی سمیت اپنا سامان تک لینے کا موقع نہیں دیا گیا۔

انہوں نے کہا، جن لوگوں کے گھر گرائے گئے وہ طویل عرصے سے جنگل میں رہ رہے ہیں، کیونکہ ان کے پاس زمین نہیں ہے۔ یہی جنگلات ان کی روزی کا واحد ذریعہ ہیں۔

چرن سامل بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے گھر گرائے گئے۔

انہوں نے دی وائر کو بتایا،تقریباً 20 گھروں  کو جبراً توڑا  گیا ہے۔ ہمارا سارا سامان ابھی بھی گھروں میں ہے۔ وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہمارے گھر جندل کی زمین پر ہیں، لیکن ہم اس زمین پر گزشتہ 20 سال سے رہ رہے ہیں۔ یہ ہمارا جل ، جنگل اور زمین ہے۔

انہوں نے کہا، میں ایک پان  پتہ کسان ہوں۔ میرا کھیت تباہ ہو گیا ہے۔  کھیت  تباہ ہونے کے بعد مجھے حراست میں لیا گیا اور پولیس تھانے لے جایا گیا۔ وہ ہمیں ہٹانے کے لیے طاقت کا استعمال کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ انہوں نے میڈیا والوں کوبھی بھگا دیا اور اگر کوئی اس  کارروائی کو ریکارڈ کرنے کی کوشش کررہا تھا  تو وہ  ان کے فون چھیننے کی کوشش کرتے تھے۔

پیکرے نے دی وائر کو بتایا کہ نیلو مہاپاترا نامی نوجوان کو پولیس نے حراست میں لے لیا، کیوں کہ اس نے اس واقعے کا ویڈیو بنایا لیا اور بعد میں اسے دوسروں کے ساتھ شیئر کیا۔ مبینہ طور پر اسے مارا پیٹا  گیا مقامی پولیس نےاس کو  سنگین نتائج کی بھگتنے کی دھمکی دی۔

مزاحمتی کمیٹی نے ایک بیان میں کہا کہ اس معاملے میں ‘ترقی پر مبنی بے دخلی’ سے متعلق اقوام متحدہ کے رہنما اصولوں پر عمل نہیں کیا گیا۔

اس کے علاوہ ڈھنکیا کے لوگوں  نے شکایت کی کہ وہ اپنے حقوق سے بھی واقف نہیں ہیں اور انہیں بے دخلی کے حوالے سے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ،معلومات اور قانونی مشورے کے فقدان کی وجہ سے کئی لوگوں  کو پہلے ہی بے دخل کیا جا چکا ہے اور ا نہیں یہ نہیں پتہ  کہ ازالہ کے لیے کہاں جانا ہے۔

اس سے قبل پاسکو نے 52000 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کے ساتھ یہاں 1.2 کروڑ ٹن کی صلاحیت والےایک اسٹیل پروجیکٹ قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے کو گاؤں والوں کی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور 2017 میں جنوبی کوریا کی کمپنی نے اس منصوبے سےاپنے ہاتھ پیچھے کھینچ لیے تھے۔

اس سال جنوری میں پولیس نے یہاں رہنے والے لوگوں پر لاٹھی چارج کیا تھا اور مجوزہ جے ایس ڈبلیو اسٹیل پروجیکٹ کی مخالفت کرنے والے کارکنوں کو گرفتار کیا تھا۔

گزشتہ ایک سال کے دوران، دیبیندرا سوین سمیت کئی کارکن، جو ڈھنکیا علاقے میں جاری ہراسانی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، جیل میں ہیں۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔