خبریں

یوپی: قرآن کو نذر آتش کرنے پر احتجاجی مظاہرہ، پولیس نے مسلمان شخص کو گرفتار کرکے اس کوذہنی مریض بتایا

واقعہ اتر پردیش کے شاہجہاں پور کی ایک مسجد کا ہے۔ 2 نومبر کی شام جب امام مسجد پہنچے تو انہوں  نے قرآن کو جلایا ہوا پایا۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی مسلم کمیونٹی کے سینکڑوں لوگ مسجد کے باہر جمع ہوگئے اور احتجاجی مظاہرہ  شروع کردیا۔

(علامتی تصویر: اسد رضوی)

(علامتی تصویر: اسد رضوی)

نئی دہلی: اتر پردیش کے شاہجہاں پور میں بدھ  (2 نومبر) کو ایک مسجد میں قرآن کے چار جلے ہوئے نسخے ملنے کے بعد احتجاجی مظاہرہ  شروع ہو گیا۔ پولیس نے جمعرات (3 نومبر) کو اس معاملے میں ایک مسلمان شخص کو گرفتار کیا اور اسے ذہنی طور پر بیمار بتایا ہے۔

یہ واقعہ مسجد شاہ فخر عالم میاں  علاقہ کا ہے جو کوتوالی تھانہ حلقہ کے تحت آتا ہے۔

امام حضور احمد منظری نے دی وائر کو بتایا کہ گرفتار شخص سی سی ٹی وی فوٹیج میں نظر آنے والے شخص سے ملتا جلتا ہے۔

جانکاری کے مطابق،  بدھ کی شام جب امام  شاہجہاں پور شہر میں واقع فخر عالم مسجد پہنچے تو انہوں نے قرآن کو جلایا ہوا پایا۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی مسلم کمیونٹی کے سینکڑوں لوگ مسجد کے باہر جمع ہوگئے اور احتجاجی مظاہرہ  شروع کردیا۔ تاہم پولیس نے سمجھابجھا کر معاملہ کو ٹھنڈا کیا اور ایف آئی آر درج کی۔

لیکن، کچھ دیر بعد پھرسے بھیڑ آگئی اور سڑک کنارے لگے ہورڈنگس کو شرپسند عناصر نے آگ لگا دی۔

مظاہرے کے دوران پتھراؤ بھی ہوا۔ پولیس کے خلاف نعرے بازی کی گئی اور الزام لگایا گیا کہ اس نے شکایت پر فوری کارروائی نہیں کی اور تاخیر سے موقع پر پہنچی۔

اس کے بعد پولیس نے سختی کا مظاہرہ کیا اور مسجد کے اطراف میں بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات کردی گئی۔

مسجد میں مبینہ طور پر قرآن کے جلے ہوئے حصے ملنے کے بعد سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) ایس آنند نے بتایا تھا کہ جیسے ہی انہیں اس واقعہ کی اطلاع ملی، نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی اور علاقے میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی تصویروں کی جانچ شروع کی گئی۔

انھوں نے بتایا تھا، ‘پولیس کو اطلاع ملی تھی کہ مذہبی کتاب کے کچھ صفحات جلے ہوئے ملے ہیں۔ ہم نے فوری طور پر معاملے کا نوٹس لیا۔

افسر نے بتایا تھا کہ پولیس مقامی لوگوں سے رابطے میں ہے، تاکہ امن و امان کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا تھا کہ لوگوں سے صبر وتحمل سے کام لینے کی اپیل کی گئی۔

ایس پی کے مطابق، سی سی ٹی وی میں مشتبہ شخص کو باہر سے مسجد میں آتے ہوئےدیکھا گیا۔

ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سنجے کمار کے مطابق واقعہ کی اطلاع ملتے ہی لوگ مسجد کے احاطے میں جمع ہوگئے اور احتجاجی مظاہرہ شروع کردیا۔ کچھ لوگوں نے مسجد کے قریب سڑک بلاک کرنے کی کوشش کی۔ مظاہرے کے پیش نظر علاقے میں اضافی سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے۔

تاہم ایف آئی آر کے مطابق دوپہر دو بجے کے قریب مسجد کی  الماری  میں رکھا قرآن مجید کا نسخہ جلی ہوئی حالت میں ملا۔

عیدگاہ کمیٹی کے جنرل سکریٹری قاسم رضا کے بیان کے مطابق مسجد میں ہماری مذہبی کتاب جلی ہوئی پائی گئی جس کے بعد لوگوں میں غم و غصہ پھیل گیا اور لوگوں نے مسجد کے باہر احتجاج شروع کر دیا۔

اگلے دن جمعرات کو پولیس نے ایک مسلمان شخص کو قرآن جلانے کے الزام میں گرفتار کیا۔

انسپکٹر جنرل آف پولیس رمیت شرما نے کہا کہ واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج کی بنیاد پر ایک شخص کی شناخت کی گئی ہے، جسے بڑوجئی محلے سے گرفتار کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گرفتار ملزم کی پہچان تاج محمد کے طور پر ہوئی ہے اور اس نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ اس نے یہ جرم کیوں کیا اس بارے میں ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔

تاہم ملزم  کی گرفتاری کے بعد بھی کشیدگی کم نہیں ہوئی۔ نماز جمعہ کے پیش نظر شہر کی مساجد میں نگرانی کے لیے بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات کی گئی تھی اور اس دوران شہر میں تین مقامات پر مجسٹریٹ بھی تعینات کیے گئے ۔

ایس پی آنند نے جمعہ کو کہا کہ نماز جمعہ کے لیے تمام تھانوں کے تحت آنے والی مساجد میں کافی پولیس فورس تعینات کی گئی تھی، جہاں پرامن طریقے سے نماز ادا کی گئی۔

وہیں، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ (فنانس اینڈ ریونیو) رام سیوک دویدی نے جمعہ کو بتایا کہ شہر میں حالات معمول پر ہیں اور لگاتار مذہبی رہنماؤں سے رابطہ کرکے نماز جمعہ کے لیے انتظامیہ نے شہر کے تینوں تھانوں میں مجسٹریٹ کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ  پولیس کی بھاری نفری تعینات کی ۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کے دیگر افسران بھی شہر کا مسلسل دورہ کر رہے ہیں۔

دوسری جانب واقعے سے متعلق ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آیا ہے جس میں مذہبی کتاب کو آگ لگانے والا ملزم تاج محمد کہہ رہا ہے کہ ہم خالی گھومتے ہیں، اس لیے دماغ پاگل ہوگیا۔ گھر والوں سے کہا کہ ہماری شادی کرا دو، لیکن گھر والوں نے شادی نہیں کرائی۔

ملزم کا کہنا ہے کہ ‘آگ ہم نے نہیں لگائی، نہ ہم گئے تھے، ہمارے اندر سے ایک روح نکل کر گئی  تھی اور آگ اسی نے لگائی ہے’۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے لوگوں سے صبروتحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہجہاں پور میں گنگا جمنی تہذیب کی مثال قائم ہے اور یہاں کبھی کوئی فساد نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی رہنماؤں سے رابطہ کرکے امن  وامان قائم رکھنے کی اپیل کی جارہی ہے۔

ایس پی نے بتایا کہ مذہبی رہنماؤں کے ساتھ میٹنگ  کرکے ان سے امن وامان قائم رکھنے کی اپیل کی گئی۔ ایس پی نے کہا کہ مذہبی رہنماؤں کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہونے دیا جائے گا۔

دریں اثناء وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے لیڈر راجیش اوستھی نے کارکنوں کے ساتھ مل کر پولیس سپرنٹنڈنٹ کو ایک میمورنڈم پیش کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ بدھ کو کوتوالی کے تحت بیری چوکی کے قریب ایک برادری کے لوگوں نے مذہبی کتاب جلانے کی بات بتاکر سڑک بلاک کر دیا۔ میمورنڈم کے مطابق یہ کام شرپسندوں نے کیا اور ان کا واحد مقصد شہر کا ماحول خراب کرنا تھا۔

انہوں نے میمورنڈم میں کہا ہے کہ اس واقعہ کے بعد ملک مخالف نعرے لگائے گئے، آگ  زنی کی گئی اور فساد بھڑکانے کی کوشش کی گئی، اس لیے ایسے شرپسندوں کی نشاندہی کی جائے اور ان کے خلاف گینگسٹر ایکٹ اور این ایس اے کے تحت کارروائی کی جائے۔

دریں اثنا، دی وائر سے بات کرتے ہوئے، ایس پی آنند نے کہا، پولیس کے پاس ایسے لوگوں کے ویڈیو ہیں جنہوں نے شہر میں ہنگامہ برپا کیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ ان کی پہچان کرکے ان کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)