ادبستان

مینیجر پانڈے: شعلہ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

پانڈے جی کو اس دیش کے ایک وچارک کے روپ میں دیکھاجاتاتھا۔انہیں سننے کے لیے جتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے تھے وہ بھی ایک واقعہ ہے۔ان کی تنقید میں جو شفافیت ہے وہی ا ن کی شخصیت کابھی حصہ ہے۔ وہ ہزاری پرساد دویدی اور نامور سنگھ کے بعد تیسرے ایسے نقاد ہیں جنہوں نے ہندی تنقید کو نظریاتی طورپر مستحکم کرنے میں اہم کردار اداکیااور ہمیشہ تنقید کی بھاشا کاخیال رکھا۔

مینیجر پانڈے، فوٹو: بھرت تیواری/فیس بک

مینیجر پانڈے، فوٹو: بھرت تیواری/فیس بک

آج (6نومبر)صبح دس بج کر دس منٹ پرمیرے دوست ڈاکٹر احتشام احمد خاں کالکھنؤسے فون آیا کہ سرورکچھ معلوم ہوا؟میں اس کی کال سے ہی سمجھ گیاتھاکہ ہو نہ ہوپانڈے جی کے انتقال کی خبر ہو۔

ایک کھٹکاساکئی دنوں سے لگاہواتھا۔میں فوراًپانڈے جی کے گھر کے لیے روانہ ہوگیا۔پچھلی دوملاقاتوں کے بارے میں،میں پہلے ہی لکھ چکاہوں۔آج انہیں بالکل ساکت دیکھنامیرے لیے بہت مشکل تھا۔لیکن مجھے ان کی ایک بات یادآنے لگی کہ جیون میں یہ سمئے آہی جاتاہے۔بس یہ کہ آدمی زندگی پر شرمندہ نہ ہو۔اس کے باوجود پانڈے جی کارخصت ہوجاناایک بڑانقصان ہے۔

انہوں نے فکری اور ذہنی سطح پر جیسی ثروت مند زندگی گزاری،وہ ہرشخص کو کہاں نصیب ہوتی ہے۔میں آج اسی دروازے پرہوں جس دروازے سے پچھلی ملاقات میں ان سے مل کر باہرآیاتھااور نکلتے ہوئے میرے پاؤں کئی بار دروازے پر رک گئے تھے۔شایدوقت بھی رک گیاتھااورکوئی شئےتھی جو تیز تیز آگے کی طرف نکلتی جاتی تھی۔

ڈاکٹر نیل کنٹھ نے کہاکہ میں گھر کے باہر کھڑاہوں آجاؤ۔کئی لوگ پانڈے جی کے گھر کے باہر کھڑے تھے اور یہ سب ان کے وہ شاگردتھے جو دہلی کی یونیورسیٹی اور کالج میں پڑھاتے ہیں۔وہی دروازہ نظر کے سامنے تھاجس میں جسد خاکی رکھاہواتھا۔آج کوئی شور نہیں تھا،کوئی آواز نہیں تھی۔بس رونے کی آوازاندر کی جانب سے آرہی تھی۔رونے کی آواز دنیاکی تمام آوازوں سے مختلف ہے۔وہ بھی اس بیٹی کے رونے کی آواز جس کانام ریکھاہے۔

وہ جب ریکھاکہہ کر بیٹی کو بلاتے تو محسوس ہوتاتھاکہ جیسے کوئی ریکھاسی کھچ گئی ہو۔خود پانڈے جی کی پیشانی پر فکر کی جوریکھا رہاکرتی تھی وہ میں نے بہت کم شخصیات کی پیشانی پر دیکھی ہے۔یہ ریکھااس فکر کی تھی جو مطالعہ سے آئی اور جس کاایک اپناانداز اسلوب تھا۔اس میں کوئی چالاکی نہیں تھی اور نہ ہی وقت کوخوش کرنے کاکوئی عمل تھا۔پانڈے جی کو دیکھ کر محسوس کیاجاسکتاتھاکہ زندگی میں ایک ادبی شخصیت کتناسوچ سکتی ہے۔

میں نے جب انہیں پہلی باردیکھاتھاتوان کی پیشانی پر نگاہ ٹھہر سی گئی تھی۔میں اس وقت فکر کی ریکھاکوایک حد تک ہی دیکھ سکتاتھااور سمجھ سکتاتھا۔دھیرے دھیرے انہیں سنتے پڑھتے اور دیکھتے ہوئے اس فکر کی لکیراور ریکھاسے شناسائی بڑھنے لگی۔وہ بیک وقت مختلف سمتوں میں سوچنے کی صلاحیت رکھتے تھے مگرمرکزی خیال انہیں مرکز سے دور نہیں ہونے دیتاتھا۔فکرکی جس لکیراور ریکھا کی بات میں نے کی ہے وہ ایک عمر کی ریاضت کانتیجہ ہے۔

انہوں نے مطالعے کی رفتار کو وقت کے ساتھ جتنابڑھایاوہ ایک واقعہ ہے۔مطالعہ نے ان کی شخصیت میں اس غصے کوبھی راہ دی ہے،جو کسی بھی زمانے کے صاحب فکر اور ایماندارادیب کامقدر ہواکرتاہے۔یہ غصہ بھی غصہ کہاں تھا،ایک طرح کی عنایت تھی کہ جناب پڑھ لیجیے،پڑھ کر دیکھیے۔آج وہ شعلہ خاموش ہوگیا۔ان کارخصت ہو جاناہندی آلوچنااور ہندی ساہتیہ کے لیے ایک دور کاخاتمہ ہے۔

پانڈے جی کو اس دیش کے ایک وچارک کے روپ میں دیکھاجاتاتھا۔انہیں سننے کے لیے جتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے تھے وہ بھی ایک واقعہ ہے۔میں یہ کہہ سکتاہوں کہ انہوں نے خود کو نمایاں کرنے کے لیے کسی طرح کی کوئی کوشش نہیں کی۔انہیں لکھتے پڑھتے ہوئے جیسامیں نے دیکھاوہ میرے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔مجھے ان سے اتنی خاموش تعلیم ملی ہے کہ پھر کسی اخلاقی تقریر کو سننے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔

کلاس روم کی اور تحقیق کی اخلاقیات کو سنتے ہوئے کتنے برس ہوگئے اوراخلاقیات مائک کی آواز سے نکل کر بہت کم تدریس اور تحقیق کی دنیامیں عملی طورپر آسکی۔ایک طرف پانڈے جی ادب کے موضوع پر گھنٹوں بول سکتے تھے اور یہ بولنابھی نظریاتی تھا۔اسی کے ساتھ وہ کلاس روم میں نوٹس بناکرطالب علموں کو پڑھاتے تھے۔جب میں سیمینار میں ان کی تقریر کو سنتاتھاتوپھر ان کی کلاس یاد آتی تھی اور دونوں میں ایک رشتہ سابننے لگتاتھا۔

اور یہ رشتہ اس بات کاتھاکہ مطالعے کے بغیرنہ تو سیمینار میں جاناہے اور نہ ہی کلاس روم میں۔آج انہیں دیکھ کر نہ جانے کتنے خیالات نے مجھے آگھیراہے اور ان کے درمیان کوئی ربط بھی ہے یانہیں میں نہیں کہہ سکتا۔بڑی مشکلوں سے میں اس کمرے تک پہنچاتھاجہاں ان کاوجود مکمل طور پر ساکت اور خاموش تھا۔

اسی کمرے میں وہ مطالعہ کرتے اور ملاقات بھی۔اس کمرے کے پنکھے کی رفتار کبھی تیز نہیں ہوئی۔میراخیال ہے کہ پنکھے کی تیز رفتاری انہیں ٹھیک نہیں لگتی تھی اورآج اس کمرے کے پنکھے کی رفتار تیز تھی۔شمیم حنفی صاحب کو بھی پنکھے کی تیز رفتاری خوش نہیں آتی تھی اور وہ اکثر اشارہ کرتے کہ پنکھے کوکم کردو۔

پانڈے جی نے تمام عمر باہر کی جن ہواؤں کاسامناکیا،اس کااظہار ان کی تحریروں میں ہواہے۔یہ ہوائیں کب کدھر سے آئیں اس بارے میں کیاکہاجائے۔بس یہ کہاجاسکتاہے کہ پانڈے جی نے کبھی زمانے کے ساتھ مفاہمت کی کوشش نہیں کی۔ مفاہمت نہ کرنادنیاکے لیے پریشانی کاسبب بن جاتاہے۔کمال یہ ہے کہ جس نے مفاہمت نہیں کی اس کی تحسین کے بجائے شکوہ کیاجاتاہے کہ انہوں نے ہمارے مطابق نہ تو مضمون لکھااور نہ ہی اپنے خیال کااظہار کیا۔

عصر حاضر میں شاید ہی کوئی ایساادیب ہو جس نے سرکار اور دربار سے اتنافاصلہ قائم کیاہو۔اینٹی اسٹیبلشمنٹ کادعویٰ تو سبھی کرتے ہیں مگر وقت کچھ او رثابت کردیتاہے۔پانڈے جی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کبھی نہیں رہے۔لوگ انہیں بلاتے تھے اور اس خوف کے ساتھ کہ پتہ نہیں کیارخ اختیار کریں گے۔پتہ بھی ہوتاتھا مگر کچھ لوگ ہمیشہ ایسے رہے ہیں جو پانڈے جی جیسی شخصیت کو پسند کرتے ہیں۔

انہیں اپنی شرطوں کے ساتھ سوچنے اور جینے والے لوگ اچھے لگتے ہیں۔پانڈے جی کی ایک کتاب ’سنکٹ کے باوجود‘ہے۔اس میں پانڈے جی نے اپنے زمانے کے حالات کاذکر کرتے ہوئے ادب کی دنیاکا جائزہ لیاہے۔جو دنیاوقت کے ساتھ بہت بے رتبہ ہوتی جارہی تھی۔

ادیب کے لیے ادیب بن کر اپنی شرطوں کے ساتھ لکھنااور پڑھناپہلے بھی آسان نہیں تھا۔پانڈے جی نے ’سنکٹ کے باوجود‘ لکھ کر اپنے زمانے کو اپنی نظرسے ایک حوصلہ بھی دیاہے۔ان کاایک مختصر سامضمون ’اس اکال بیلامیں‘ ہے۔اس میں بھی وہ اپنے زمانے کی ادبی اورتنقیدی صورت حال کادکھ کے ساتھ اظہار کرتے ہیں لیکن امید کادامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔

نامور سنگھ اور کیدار ناتھ سنگھ کے رخصت ہوجانے کے بعد پانڈے جی کے یہاں میں نے ایک ایسا دکھ دیکھا جو عموماًہوتانہیں ہے۔ادیب عام طور پر ایک دوسرے کے رخصت ہونے کے بعد ان کے عزیزوں سے تعزیت کرلیتے ہیں اور پھر اپنی ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔شاید ہی کوئی ایسی ملاقات ہو جس میں انہوں نے اپنے دو رفیقوں نامور سنگھ اور کیدارناتھ سنگھ کو نہ یاد کیاہو۔

ایک مرتبہ کہنے لگے کہ اب یہ دونوں چلے گئے۔اب کیاکرناہے اور کیارکھاہے۔وہ کبھی جذباتی نہیں ہوتے تھے اور ان کی آوا ز میں رقت نہیں آتی تھی۔یہ سب کچھ ظاہر نہیں ہوتاتھامگر ان کے وجود میں سمندر کاساابال تھا اور خاموشی بھی۔

جوان بیٹے آنندکے مرنے پر انہیں میں نے گلوگیر دیکھااور یہ موقع تھاجب جے این یو کے سینٹر آف انڈین لینگویجز میں شوک سبھاہورہی تھی۔میں اس وقت ایم اے میں تھا۔جوان بیٹے کارخصت ہوجاناپانڈے جی کی ذاتی زندگی میں یہ ایک بڑادکھ تھا۔

اس کے بعد ان کی ایک کتاب ’ان بھیے سانچا‘آئی جس کے پیش لفظ میں پانڈے جی نے کیدار ناتھ سنگھ کاذکر کیاہے کہ وہ میرے گھر آئے اور کہاکہ پانڈے جی اس دکھ سے آپ زندگی بھر نکل نہیں پائیں گے مگر پھر بھی ایک کتاب لکھیے جو آنند کوسمرپت ہو۔

 انگریزی کے پروفیسر ہریش تریویدی کومیں نے جب پانڈے جی کے انتقال کی اطلاع دی تو انہوں نے دکھ کااظہار کیاکہ ایک بڑے آدمی چلے گئے۔مگران کی کتابیں موجود ہیں جو دنیاکے لیے سرمایہ ہیں۔اور انہوں نے ادب میں بہت اچھاوقت گزارا۔

ان کایہ بھی خیال تھاکہ نامور سنگھ کی تنقید ہندی جگت میں حاوی رہی مگر پانڈے جی کی تنقید نے دھیرے دھیرے اپنے لیے جگہ بنالی۔اور اب یہ دونوں تنقید اپنے اپنے استھان پر اہمیت رکھتی ہے۔پروفیسر ہریش تریویدی نے یہ بھی کہاکہ ادب اور تاریخ کے رشتے پر انہوں نے بہت سوچااورلکھاہے۔

پانڈے جی کی پیشانی پر فکر کی وہ لکیرجوزندگی اور ادب کے رشتوں کے گہرے مطالعے سے بنی اور قائم ہوئی تھی اسے بھی آج چین سے سونے کاموقع مل گیاتھا۔لیکن وجود کے ساتھ فکر کی شعائیں اور فکر کی ریکھائیں رخصت تو نہیں ہوجاتیں۔آج رمز عظیم آبادی کاشعر یاد آگیا۔

مدت سے رمز آنکھ بھی جھپکی نہیں ذرا

اب تھک گئے ہیں چین سے سونے کاوقت ہے

پانڈے جی کی گفتگو سے کبھی یہ محسوس نہیں ہواکہ وہ تھک گئے ہیں۔فکری اور نظریاتی طورپر وہ ہمیشہ تازہ دم رہے۔میں نے کبھی انہیں جھپکی لیتے ہوئے نہیں دیکھا۔محفلوں میں ہر طرح سے بیدار اور چوکنارہتے۔پیپر پڑھتے ہوئے صدارت کرتے ہوئے ان کے یہاں جس ذمہ داری کااحساس تھااس کو تو ہم سب نے قریب سے دیکھاہے۔

جس معنی میں،میں نے پیشانی کی فکری لکیرکا تذکرہ کیا ہے وہ اتنی پر پیچ اور تہہ دار تھی کہ اس کے بارے میں ایک حدتک ہی کچھ کہاجاسکتاہے۔کون سی لکیرکب کس لکیر پر غالب آگئی۔ اس کااظہاران کی گفتگو سے ہوجاتاتھا۔مجموعی طور پر فکر کی ان ریکھاؤں نے ان کی شخصیت کونظریاتی اور اخلاقی طور پر پیچیدہ نہیں بنایا۔

ان کی تنقید میں جو شفافیت ہے وہی ا ن کی شخصیت کابھی حصہ ہے۔وہ ہزاری پرساد دویدی اور نامور سنگھ کے بعد تیسرے ایسے نقاد ہیں جنہوں نے ہندی تنقید کو نظریاتی طورپر مستحکم کرنے میں اہم کردار اداکیا۔اور ہمیشہ تنقید کی بھاشا کاخیال رکھا۔

اب سورج غروب ہورہاہے،شام سر اوپر آگئی ہے،کل چاربجے پانڈے جی کی آخری رسومات اداکی جائیں گی۔کل کی صبح آج کی صبح سے مختلف ہوگی اور کل کی شام آج کی شام جیسی تو نہیں ہوگی۔ان صبحوں اور شاموں میں کوئی رشتہ توہوگاجووقت کبھی روشن کرے گا۔پانڈے جی کے گھر سے آج شام لوٹے ہوئے جتنے خیالات نے مجھے گھیرا،ان سب کاٹھیک ٹھیک اظہارمیرے لیے شاید کبھی ممکن نہ ہوسکے۔

آتی ہوئی شام میرے لیے کم سے کم آج تو ہرگز روشن نہیں تھی۔گوکہ باہر ٹریفک کا شور بہت تھا۔اس شور میں جو خود کلامی میرے اندر جاری تھی اس کی خبر تو صرف مجھے تھی اورکچھ میری آنکھوں کو۔

§§§

آج شام (7نومبر)پانچ بجے پروفیسر مینیجر پانڈے کی آخری رسومات اداکی گئیں۔ اس موقع پر ان کے دوستوں،عزیزوں اور شاگردوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔میرے دو عزیز شاگرد محضر رضااور ثاقب فریدی بھی میرے ساتھ تھے۔آنکھیں نمناک تھیں اور پل بھر میں ایک وجودکو نگاہوں سے اورجھل ہوجانا تھا۔ آگ دینے کی رسم اداکرنے سے پہلے پشتے پر تقریباًایک گھنٹے کے لیے ان کے جسد خاکی کو رکھاگیا۔

میں نے پانڈے جی کو اسی شمشان گھاٹ میں نامور سنگھ کی آخری رسومات کی ادائیگی کے وقت دیکھاتھا۔اور آج کی شام وہ خود اس مقام پر ساکت اور خاموش تھے۔زندگی اسی طرح اپنامفہوم سمجھاتی ہے۔مینیجر پانڈے کی آخری رسومات میں جو لوگ آئے تھے،وہ سب پانڈے جی سے گہری عقیدت اور محبت کرنے والے تھے۔یہ آنارسم کی ادائیگی نہیں بلکہ نم آنکھوں سے اپنی محبوب ادبی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرناتھا۔

ایک استاد کی زندگی طالب علموں میں کیسے منتقل ہو جاتی ہے اسے بھی آج دیکھنے کاموقع ملا۔میں جتنے لوگوں کو پہچان سکاان میں بیشتر پانڈے جی کے شاگرد تھے اور سب ہاتھ جوڑے ان کے خاموش وجود کے سامنے کھڑے تھے۔جب ان کاجسد خاکی پشتے سے اٹھاکر آگ دینے کے مقام تک لے جایاجانے لگاتو خاموشی اور سناٹے کاایسا شور تھاجس کااظہار ممکن نہیں۔چند قدموں کافاصلہ تھا اور سب کو معلوم تھاکہ بس پل بھرمیں ہندی ادب کی ایک بڑی شخصیت اور اس ملک کے تہذیبی نظریہ ساز کوہمیشہ کے لیے نگاہ سے اوجھل ہوجاناہے۔

پروفیسر مینیجر پانڈے صاحب کی بیٹی ریکھانے آخری رسومات اداکیں۔بیٹی کاپوراوجود کانپ رہاتھا۔اپنے وجود کی ساری توانائی کوکوئی کتنابھی سمیٹے ہاتھ کانپنے لگتاہے اور وہ بھی بیٹی کاہاتھ، جس نے یہ سوچانہیں تھاکہ یہ وقت اتناجلد آجائے گااور اسے یہ فرض بھی نبھاناپڑے گا۔

یہ منظرپاس کھڑے تمام لوگوں کے لیے بہت غم ناک اور شدت احساس سے بھراہواتھا۔لیکن ریکھاکی آواز کے علاوہ ہر طرف سناٹاتھا اور اگر کوئی آواز تھی تو شعلے کی تھی۔

شعلہ عشق سیہ پوش ہوامیرے بعد