فکر و نظر

مولانا عباس انصاری: اتحاد بین المسلمین کی علامت چلی گئی

شیخ عبداللہ کے دست راست ہونے کے باوجود، وہ میٹنگوں میں ان سے اختلاف رائے کا اظہار کرتے تھے۔ میٹنگوں سے واک آؤٹ کرنے کے لیے وہ مشہور ہو گئے تھے۔تما م طبقہ ہائے فکر میں ان کی مقبولیت کی وجہ سے 1986میں جب مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کا قیام عمل میں آیا، تو اس کا کنوینر ان کو بنایا گیا۔

فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/محبوبہ مفتی

فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/محبوبہ مفتی

یہ شاید 70 کی دہائی کا واقعہ ہوگا کہ شمالی کشمیر کے تجارتی مرکز سوپور کے گرلز ہائی اسکول میں ماہ محرم میں حسینی مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ میرے چچا یونس گیلانی ہاتھ پکڑ کر مجھے ساتھ لے گئے، کیونکہ سرینگر سے کئی شاعر اور واعظین اس میں شرکت کرنے کے لیےآرہے تھے، جن میں ان کے دوست مشتاق کشمیری (جن کو ان کے کلام کی وجہ سے کشمیری زبان کا اقبال بھی کہا جاسکتا ہے) آرہے تھے۔

مگر اس جلسے میں میری دلچسپی اس لیے تھی کہ اس کی صدارت معروف شیعہ سیاسی و مذہبی لیڈر مولانا محمد عباس انصاری کر نے والے تھے۔ چونکہ سوپور میں شیعہ کمیونٹی کے افراد کی آبادی نہیں تھی، میں نے تب تک کسی شیعہ کو نہیں دیکھا تھا۔ بس ان کے متعلق خاصی خوفناک کہانیاں سنی تھیں۔

اس لیے بھی کسی شیعہ کو دیکھنے کا اشتیاق تھا۔ سیاہ چوغہ اور گول پگڑی پہنے مولانا انصاری نے صدارتی خطبے میں جس طرح واقعہ کربلا اور اس کے فلسفہ کو بیان کیا، وہ کچی عمر ہونے کے باوجود میرے ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا۔ کشمیری سیاست کے اس اہم ستون اور شیعہ سنی اتحاد کے علمبردار نے 25اکتوبر کو86 سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہہ کر ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی۔

وہ ایک اہم موڑ پر حریت کانفرنس کے چیئر مین بھی رہے، جب اس کے رہنماؤں نے ہندوستانی حکومت کے ساتھ تین دور کی با ت چیت کی۔  وہ شیخ عبداللہ کی قیادت میں قائم محاذ رائے شماری جو 1955سے 1975تک فعال رہی، کے شاید آخری زندہ لیڈر تھے۔ وہ واحد کشمیری لیڈر ہیں، جنہوں نے ہندوستان، پاکستان اور ایران کی چوٹی کی لیڈرشپ کے ساتھ آمنے سامنے ملاقاتیں کی ہیں۔

ناظمیہ عربی کالج لکھنؤ اور بعد مین آٹھ سال تک نجف (عراق) میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپسی پر انہوں نے سرینگر سے ایک جریدہ سفینہ کی اشاعت شروع کی۔ ا ن دنوں لکھنؤکی طرح سری نگر میں بھی شیعہ–سنی فسادات ہونا عام بات تھی۔ ایک طرح سے  طاقتور حلقوں سے شہ بھی دی جاتی تھی۔ اس کا سدباب کرنے کے لیے 1962میں شیعہ سنی اتحاد کے لیے انہوں نے انجمن اتحاد المسلمین کی بنیاد ڈالی۔

دسمبر 1963کو جب درگاہ حضرت بل سے موئے مقدس کی گمشدگی کے بعد کشمیر کے طول و عرض  میں ایک لاوا، جو 1953سے شیخ عبداللہ کی معزولی، گرفتاری اور رائے شماری کے وعدوں سے مکر ہونے کی وجہ سے پک رہا تھا، پھوٹ پڑا، تو ان کو اس تحریک میں شمولیت کی وجہ سے گرفتار کر کے کٹھوعہ جیل پہنچایا گیا۔ اکتوبر 1965کو ان کو پھر گرفتار کیا گیا اور کئی سال جیل میں رہنے کے بعد رہا ہوگئے۔

شیخ عبداللہ کے دست راست ہونے کے باوجود، وہ میٹنگوں میں ان سے اختلاف رائے کا اظہار کرتے تھے۔ میٹنگوں سے واک آؤٹ کرنے کے لیے وہ مشہور ہو گئے تھے۔ یہ اختلافات اور شدید ہوگئے جب سقوط ڈھاکہ کے بعد شیخ محمد عبداللہ نے ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ بات چیت شروع کی۔

اس بات چیت کے بعد 1975میں ان کو رائے شماری کا نعرہ چھوڑنے کے عوض وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔  1974کو انہوں نے دہلی میں شیخ عبداللہ کی کوٹلہ لین رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی اور ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کا یہ قدم کشمیر قوم کو دھوکہ دینے اور ان کو مزید اندھیرے میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔

انہوں نے شیخ عبداللہ کو بتایا کہ 1947اور 1974تک کشمیری عوام نے رائے شماری کے لیے قربانیاں دی ہیں، نہ کہ کسی کو وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے۔ سرینگر واپس آکر انصاری نے شیخ عبداللہ کے اس قدم کا مقابلہ کرنے کے لیےیونائیٹڈ پیپلز فرنٹ نام کی تنظیم تشکیل دی۔ اندرا–عبداللہ ایکارڈ کی مخالفت کی پاداش میں ان کو 1976میں پھر حوالہ زنداں کر دیا گیا۔

تما م طبقہ ہائے فکر میں ان کی مقبولیت کی وجہ سے 1986میں جب مسلم یونائیٹڈ فرنٹ کا قیام عمل میں آیا، تو اس کا کنوینر ان کو بنایا گیا۔ یہ فرنٹ جماعت اسلامی، میرواعظ جنوبی کشمیر قاضی نثار کی امت اسلامی اور متعدد دیگر تنظیموں پر مشتمل تھا۔

سال 1987میں اس فرنٹ نے نیشنل کانفرنس–کانگریس اتحاد کے خلاف انتخابی میدان میں لڑنے کا فیصلہ کیا اور پارلیامانی بورڈکی قیادت سید علی گیلانی کے سپرد کی۔ ہندوستان اور دنیا بھر میں اس پر اتفاق ہے کہ ان انتخابات میں بے انتہا دھاندلیوں اور گنتی مراکز سے انتخابی نتائج کو بدلوانے کی وجہ سے ہی 1989میں عسکری جدو جہد کا آغاز ہوا،کیونکہ یہ ثابت ہو گیا تھا کہ جمہوری آؤٹ لیٹس کو بند کردیا گیا تھا۔

اپنی کتاب روداد قفس میں سید علی گیلانی رقم طراز ہیں کہ یہ فرنٹ شیعہ سنی اتحاد اور یگانگت کی ایک یادگار کوشش تھی۔

عسکری تحریک شروع ہوتے ہی جب پوری سیاسی لیڈرشپ کو زندان کے حوالے کیا گیا،  اپریل 1990کو ان کو بھی بد نام زمانہ کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے پہلے فوج کی 15 ویں کور کے ہیڈ کوارٹر بادامی باغ میں رکھا گیا۔ اس کے بعد  جموں سینٹرل جیل، جودھ پور، تہاڑ جیل اور پھر اپریل 1991کو دیگر لیڈروں کے ساتھ تہاڑ جیل کے تحت دہلی کے نواح میں روز فارم میں قائم  کیمپ جیل میں ا ن کو بھی لایا گیا۔

اس وقت تک شاید ہندوستانی حکومت کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا، جب اس نے 1990میں پوری سیاسی لیڈرشپ کو بند کرکے میدان عسکری تنظیموں کے حوالے کردیا تھا، جس سے ایک انارکی کاماحول بن گیا تھا۔

ان لیڈروں کو اکٹھا کرنے کا مقصد شاید یہ تھا کہ زمام کار دوبارہ سیاسی لیڈروں کے ہاتھوں میں آکر اس انارکی پر کسی حد تک قابو پایا جائے۔ اس فارم ہاؤس میں ان لیڈروں کے ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے حریت کانفرنس کے ابتدائی خد و خال بنائے گئے۔

جولائی 1993کو جب 26پارٹیوں پر مشتمل اتحاد حریت کانفرنس باقاعدہ تشکیل دی گئی، تو میرواعظ عمر فارق کو اس کا چیئرمین اور چار افراد کو اس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کا ممبر بنایا گیا، ان میں سید علی گیلانی، مولانا عباس انصاری، پروفیسر عبدالغنی بھٹ اور عبدالغنی لون شامل تھے۔بعد میں اس مجلس میں محمد یاسین ملک اور شبیر احمد شاہ کو بھی شامل کیا گیا۔

جولائی 2003کو ایک سخت چیلنجنگ وقت میں انصاری اتفاق رائے سے حریت کانفرنس کے چیئرمین بنائے گئے۔ اس کے چند ماہ بعد سیدعلی گیلانی علیحدہ ہوگئے، کیونکہ 2002کے اسمبلی انتخابات میں حریت کے موقف اور اس دوران گیلانی کے جیل میں ہونے کے دوران حریت کے کمزور موقف کی وجہ سے لیڈرشپ میں دراڑیں پڑ چکی تھیں۔

مولانا انصاری کی سربراہی میں حریت کے قائدین میر واعظ عمر فاروق، پروفیسر عبدالغنی بھٹ، بلال غنی لون اور فضل الحق قریشی نے ہندوستان کے نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی سے جنوری 2004اور پھر دوبارہ مارچ 2004کو ملاقاتیں کیں۔

اس وقت  کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے و زیر اعظم ہاؤس میں ان کی میزبانی کی۔ خیر ان ملاقاتوں میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ملاقات مذاکراتی عمل کا پہلا اہم قدم ہے اور مرحلہ وار اس کو  جموں و کشمیر سے متعلق تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کی طرف گامزن کیا جائےگا۔اس میٹنگ کے بعد جاری بیان میں بتایا گیا کہ حریت کے و فد نے جموں و کشمیر کے تمام خطوں اور تمام برادریوں کے تحفظات کا احاطہ کرنے کے لیے مذاکراتی عمل کو وسعت دینے کے لیے عزم کا اظہار کیا۔

پاکستان کے صدر پرویز مشرف نے ان مذاکرات کو ‘بہت اچھی شروعات’ قرار دیا۔

انہوں نے اپنے دور میں،  سری نگر- مظفر آبا– راولپنڈی  سڑک کو دوبارہ کھولنے کی وکالت کی تاکہ کشمیر کے دونوں حصوں کے لوگ اپنے رشتہ داروں سے مل سکیں اور 2005 کے زلزلے سے بچ جانے والوں کی مدد کر سکیں۔ جون 2005 میں انہوں نے اسی روڑ پر بس کے ذریعے سفر کرکے لائن آف کنٹرول عبور کرتے ہوئے پاکستان اور مظفرآباد کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے پاکستانی صدر پرویز مشرف سے ملاقات کی۔ وہ غالباً واحد کشمیری لیڈر ہیں، جنہوں نے طہران میں ایرانی صدر محمد خاطمی سے ملاقات کی۔

دسمبر 1994کو جب پہلی بار حریت کے دو رکنی وفد نے مراکش کے شہر کانسہ بلانکا میں عالمی اسلامی تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی وہ اس وفد میں شامل تھے۔ مجھے یاد ہے کہ دہلی میں آخر تک تذبذب تھا کہ اس وفد کو جس میں نوجوان میر واعظ عمر فاروق بھی شامل تھے، کو ایر پورٹ سے جانے دیا جائےگا کہ نہیں۔

مرحوم عبدالغنی لون کی معیت میں، میں ان کو ایر پورٹ پر الوداع کرنے گیا تھا۔ کیونکہ خدشہ تھا کہ شاید ان کو ایر پورٹ سے واپس لانا پڑے گا۔راستے میں ہی لون صاحب ان کو بریف کر رہے تھے۔  اس کے بعد نومبر 2000میں بھی انہوں نے دوحہ قطر میں عالمی اسلامی تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی۔ وہ مزاج کے لحاظ سے ہنس مکھ، ملنسار اور حس مزاح کے حامل شخصیت کے مالک تھے۔

ایک بار دہلی میں ایک سیمینار کے دوران جب ایک ہندوستانی حکومت کے مندوب نے کہا کشمیری بولنے والی سنی آبادی کا ایک قلیل حصہ ہی کشمیر میں شورش اور آزادی کی تحریک میں شامل ہے، جبکہ دیگر آبادیاں شیعہ، گوجر، بکروال، کشمیری پنڈت، جموں کا ڈوگرہ اور دلت وغیرہ اس کے مخالف اور ہندوستان کے ساتھ رہنے میں خوش ہیں، تو انہوں نے برجستہ کہا کہ پھر نئی دہلی کی حکومتوں کو رائے شماری کا حق تسلیم کرکے ہمیشہ کے لیے اپنے حق میں فیصلہ کروانا چاہیے۔

قید میں ان کے ساتھ رہے افراد کا کہنا ہے کہ وہ اسیری کے خزاں میں بہار کا لطف پیدا کرتے تھے۔مولانا انصاری اقبال کے اس شعر کی عملی تصویر تھے؛

یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی

اخوت کی جہانگیری، محبت کی فروانی

بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا

نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی