خبریں

جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے ہندوستان کے 50 ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف لیا

چیف جسٹس کے طور پر جسٹس ڈی  وائی چندر چوڑ کی مدت کار 10 نومبر 2024 تک رہے گی۔ انہوں نے جسٹس ادے امیش للت کی جگہ لی ہے، جن کی مدت  8 نومبر کو ختم ہو ئی۔ جسٹس چندرچوڑ ملک میں سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے سی جے آئی جسٹس وائی وی چندرچوڑ کے بیٹے ہیں۔

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے ہندوستان کے 50ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف لیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے ہندوستان کے 50ویں چیف جسٹس کے طور پر حلف لیا۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: جسٹس دھننجے وائی چندرچوڑ نے بدھ کو ہندوستان کے 50ویں چیف جسٹس (سی جے آئی) کے عہدے کا حلف لیا۔ صدرجمہوریہ  دروپدی مرمو نے راشٹرپتی بھون میں ایک تقریب میں انہیں اس عہدے کا حلف دلایا۔

انہوں نےجسٹس ادے امیش للت کی جگہ لی ہے، جن کی مدت 8 نومبر کو ختم ہوئی اور جنہوں نے 11 اکتوبر کو جسٹس چندر چوڑ کو اپنا جانشین بنائے جانے کی سفارش کی تھی۔

اس سے قبل گزشتہ ماہ اگست میں جسٹس یو یو للت کو ہندوستان کے 49ویں چیف جسٹس کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ انہوں نے 27 اگست کو اپنا عہدہ سنبھالا تھا۔ چیف جسٹس کے طور پر جسٹس للت کی مدت  74 دنوں کی رہی ۔ وہ 8 نومبر کو 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہوگئے۔

جسٹس چندر چوڑ کو 13 مئی 2016 کو سپریم کورٹ کے جج کے طور پر ترقی دی گئی تھی اور وہ  10 نومبر 2024 کو ریٹائر ہو جائیں گے۔

جسٹس چندرچوڑ ملک میں سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے سی جے آئی جسٹس وائی وی چندرچوڑ کے بیٹے ہیں۔ ان کے والد 22 فروری 1978 سے 11 جولائی 1985 تک ہندوستانی عدلیہ کے چیف  رہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کی سات دہائیوں سے زیادہ کی طویل تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب باپ بیٹے دونوں  ہی اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ جسٹس چندر چوڑ کی سربراہی والی بنچ نے کووڈ-19 بحران کے دوران لوگوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے کئی ہدایات جاری کی تھیں۔ انہوں نے وبا کی دوسری لہر کو ‘قومی بحران’ قرار دیا تھا۔

بتادیں کہ 11 نومبر 1959 کو پیدا ہونے والے جسٹس چندر چوڑ کرکٹ سے اپنے لگاؤ کے لیے جانے جاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے والد سابق سی جے آئی وائی وی چندر چوڑ کے ملازمین کے ساتھ دہلی میں انہیں الاٹ کیے گئے بنگلے کے پیچھے کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔

جسٹس چندر چوڑ نے 30 ستمبر 2022 کو ایک بنچ کی صدارت کی،  جو دسہرہ کی تعطیلات کے آغاز سے قبل 75 مقدمات کی سماعت کے لیے عدالت عظمیٰ کے معمول کے اوقات کار کے دوران تقریباً پانچ گھنٹے زیادہ (رات 9:10 بجے) تک بیٹھی رہی۔

جسٹس چندر چوڑ اس سے قبل الہ آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔ وہ 29 مارچ 2000 سے اس عہدے پر تقرری تک بامبے ہائی کورٹ کے جج رہے۔ بامبے ہائی کورٹ نے جون 1998 میں جسٹس چندرچوڑ کو سینئر ایڈوکیٹ مقرر کیا اور اسی سال ایڈیشنل سالیسٹر جنربنایا گیا۔

سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی سے معاشیات  میں بی اے آنرس مکمل کرنے کے بعد جسٹس چندرچوڑ نے دہلی یونیورسٹی کے کیمپس لاء سینٹر سے ایل ایل بی کیا اور اس کے بعد امریکہ کے ہارورڈ لا اسکول سے جیوریڈیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ اور ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کی۔

انہوں نے سپریم کورٹ اور بامبے ہائی کورٹ میں پریکٹس کی اور ممبئی یونیورسٹی میں آئینی قانون کے وزیٹنگ پروفیسر بھی رہے ۔ جسٹس چندرچوڑ اس وقت نیشنل لیگل سروسز اتھارٹی (این اے ایل ایس اے) کے ایگزیکٹوچیئرمین ہیں۔

بامبے ہائی کورٹ نے جون 1998 میں جسٹس چندرچوڑ کو بطور سینئر ایڈوکیٹ مقرر کیا اور اسی سال ایڈیشنل سالیسٹر جنرل بنایا گیا۔

اختلاف رائے کو ‘جمہوریت کے سیفٹی  والو’ کے طور پر دیکھنے والے جسٹس چندر چوڑ کئی آئینی بنچوں اور تاریخی فیصلےدینے والی سپریم کورٹ کی بنچوں کا حصہ رہے ہیں۔

ان میں ایودھیا اراضی تنازعہ، آئی پی سی کی دفعہ 377 کے تحت ہم جنسی کو جرم کے دائرے سے باہر کرنے، آدھار اسکیم کی درستگی سے متعلق معاملات، سبری مالا مسئلہ، فوج میں خواتین افسران کو مستقل کمیشن کی منظوری، ہندوستانی بحریہ میں خواتین افسران کو مستقل کمیشن دینا، اڈلٹری کو جرم کے دائرے میں رکھنے والی آئی پی سی کی دفعہ 497کو غیر آئینی قرار دینے جیسے فیصلے بھی شامل ہیں۔

سپریم کورٹ کے روسٹر میں زیادہ ‘لبرل’ ججوں میں سے ایک مانے جانے والے جسٹس چندر چوڑ، جسٹس کے ایس پٹاسوامی (ریٹائرڈ) بنام یونین آف انڈیا کے معاملے میں اس  فل بنچ کا حصہ تھے، جس میں عدالت نے پرائیویسی  کے حق کو آئینی طور پر محفوظ حق درجہ دیا تھا۔

جسٹس چندرچوڑ نے میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی ایکٹ پر ایک حالیہ فیصلہ بھی سنایا، جس میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ دونوں خواتین کے لیے حمل کے 24 ہفتوں تک مفت اور محفوظ اسقاط حمل کے حق کو برقرار رکھا گیا ہے۔

حال ہی میں، جسٹس چندر چوڑ عدالت عظمیٰ کے ان دو ججوں میں شامل تھے جنہوں نے عدالت عظمیٰ میں ججوں کی تقرری پر اپنے ارکان کی رائے جاننے کے لیے اپنائے گئے سرکولیشن کے  طریقہ کار پر اعتراض کیا تھا۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)