فکر و نظر

ای ڈبلیو ایس ریزرویشن: جن کو ’وہ‘ ساتھ بٹھانا نہیں چاہتے، ان سے داخلوں اور نوکریوں میں برابری کیوں

صلاحیت کی وجہ سےمواقع ملتے ہیں۔ یہ جملہ غلط ہے۔ یہ کہنا درست ہے کہ موقع  ملنے سے صلاحیت نمایاں ہوتی ہے۔ صدیوں سے جنہوں نے تمام مواقع اپنے لیےمحفوظ  کر رکھے ہیں، وہ اپنی صلاحیتوں کو فطری اور قدرتی تصور کرنے لگے ہیں۔ وہ نت نئی  چالیں اور ترکیبیں ایجاد کرتے ہیں کہ جمہوریت کی وجہ سے جو مواقع ان سے لے لیے گئے ہیں،  وہ پھر سے ان کو واپس ان کو مل جائیں۔

(السٹریشن: پرپلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پرپلب چکرورتی/ دی وائر)

 دہلی میٹرو کے ایک ڈبے میں مرد حضرات سوار نہیں ہو سکتے۔ ان میں صرف خواتین اور لڑکیاں سفر کر سکتی ہیں۔ یہ ان کے لیے مخصوص ہے۔ باقی ڈبےمیں بھی لیکن آپ کو خواتین نظر آجائیں گی،  خواتین کے لیے کچھ نشستیں یہاں بھی مخصوص ہیں۔ کئی بار مردوں کو غصے سے کہتے سنا ہے کہ آپ کا ڈبہ ادھر ہے اور میں نے ان کا جواب بھی سنا ہے کہ یہ ڈبہ مردوں کے لیے مخصوص نہیں ہے،جنرل ہے۔ عورت، مرد، ہر کوئی اس میں سفر کر سکتا ہے۔

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک ڈبہ غریب مردوں کے لیے مخصوص ہو؟ باقی مرد اعتراض کریں گے۔ ان کو ٹکٹ کا پیسہ  دے دیجیے، لیکن ان کے لیے ڈبہ کیوں؟

شعبہ میں پی ایچ ڈی کے داخلے کے ایک انٹرویو سے واپسی پر ایک ساتھی نے اسی طرح اپنی الجھن کا اظہار کیا۔ ان کی سمجھ  میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ جب درج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کے لیے سیٹ مخصوص ہیں تو ان کے جنرل میں داخلے کے لیےغور  ہی کیوں کیا جائے۔ اگر ان کے لیے خانہ بنا دیا ہے ،  توانہیں اسی  میں رہنا چاہیے۔ وہ وقتاً فوقتاً میٹرو میں چلتے ہیں، لیکن جنرل یعنی سب کا،  اس بات کو نہیں سمجھ پائے۔ اس کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے جج کبھی میٹرو میں سوار ہوئے ہوں۔

خواتین کے لیے کوچ کیوں مخصوص ہونے چاہیے؟ کیوں بے چارے  مردوں کو دس میں سے آٹھ کوچوں پرتسلی رکھنی چاہیے اور ان میں بھی وہ خواتین کو  کیوں برداشت کریں؟  کیا اس سے مردوں کے حقوق سلب نہیں ہوتے؟

ریزرویشن پر 100 سال سے زیادہ عرصے سے بحث چل رہی ہے، لیکن ذات برادری کے ‘مرد’ یعنی ‘اونچی ذات’ کے لوگ ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان سے کچھ کوچ کیوں لے لیے گئے ہیں۔ ریاست کو کیوں مداخلت کرنی پڑی کہ وہ لوگ جو ہمیشہ چھوٹ جاتے رہے ہیں وہ ٹرین میں سوار ہو سکیں۔

عورتیں نوکریاں کرتی ہیں، خود آتی جاتی  ہیں، ہر جگہ مردوں کی برابری کرتی  ہیں، پھر بھی مردوں کی طرف سے بدسلوکی  کا اندیشہ بنا رہتا ہے۔ ان کی تعلیمی، معاشی حیثیت انہیں اس سے آزاد نہیں کرپاتی۔ کرپائے گی ، اس کا بھروسہ نہیں۔ کیا کوئی ایسی تاریخ ہوگی جب میٹرو اس ریزرویشن کو ختم کردے؟

ہر بار کسی  امتحان، خاص طور پر کسی کورس میں داخلے کے لیے یا  اسکالرشپ کے لیے کسی مسابقتی امتحان کے بعد ایسی شکایت سننے کو ملتی ہے کہ میرا 60 نمبر آنے کے بعد بھی نہیں ہوا، جبکہ ‘ان لوگوں ‘ کا 40 پر ہوگیا۔

اس شکایت کے پیچھے بھی یہی سمجھ ہے کہ 60 نمبر والے کی قابلیت اس کی ذاتی صلاحیتوں کا نتیجہ ہے۔ اس ٹیلنٹ کو اتنی کوچنگ کی ضرورت کیوں  ہوتی ہے؟ کوچنگ میں بھی پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا کوچنگ کی دنیا کا ذات پر مبنی سروے کیا گیا ہے؟

ٹیلنٹ میں خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ معاشی، فکری، سماجی، ثقافتی۔ ایک نسل کے ٹیلنٹ کے پیچھے کئی نسلوں کی سرمایہ کاری ہوتی ہے۔ پھر بھی ہم اپنے ٹیلنٹ کو اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ اپنی پیدائش کی صورتحال سے  اس کے تعلق پرغور نہیں کرتے۔

آج تک یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ 40 والے 60 والے سے مقابلہ نہیں کر رہے تھے۔ شیڈول کاسٹ کے لوگ  100فیصد سیٹوں کے لیے مقابلہ  نہیں کر رہے ، وہ صرف 15فیصد سیٹوں کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں،شیدول ٹرائب کے امیدوار صرف 7.5فیصد سیٹوں کے لیے اور اوبی سی  27 فیصد سیٹوں کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں۔

باقی 50فیصد سیٹوں کے لیے ان کا مقابلہ نہیں ہے۔ اس لیے 50فیصدجگہوں پر حق کے لیے  جوایک دوسرے سے مقابلہ کر رہے ہیں، وہ  اپنے اپنے  نمبروں کو ہی  دیکھ کر ہی افسوس کریں یا خوشی منائیں، باقی 49.5فیصد جگہوں پر انہیں نگاہ  نہیں کرنی چاہیے۔ اس بات کا اعادہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ 27، 15 اور 7.5 فیصد نشستوں کے لیے اہلیت وہی نہیں ہوگی جو 50 فیصد کے لیے  ہوگی۔ اس لیے 50 والوں  کو دوسرے گروپ کی اہلیت  دیکھ کر لالچ بھی نہیں کرنی  چاہیے۔

اس کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ اگر جگہ تقسیم ہوگئی ہے تو پھر جنرل کیوں؟ سب اپنی جگہ پر رہیں۔ لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جو لوگ جنرل میں مقابلہ کرتے ہیں،  وہ مخصوص زمرے کا دعویٰ نہیں کرتے ۔ اس دعوے کو چھوڑ کر ہی  مقابلے میں شامل ہوتے ہوں۔

ہم اس المیہ پر غور نہیں  نہیں کرتے کہ جب وہ جنرل میں آنا چاہتے ہیں تب بھی انہیں ان کی کاسٹ کے دائرے میں رکھ کر ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں تجاوز کرنے والے کے طور پر دیکھتے ہیں۔خود میں  شامل نہیں  کرتے۔ انہیں محفوظ خانے میں دھکیل دینا چاہتے ہیں۔ تو  ذات  پات کو  کون برقرار رکھنا چاہتا ہے؟

اس کے علاوہ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ مقابلہ صرف برابری کے لوگوں میں ہی  ہو سکتا ہے۔ مساوات کی تعریف بعض اوقات آسان نہیں ہوتی۔ صدیوں سے جن برادریوں کو تعلیم سے دور رکھا گیا، جنہیں آج بھی اسکول میں پانی کے مشترکہ برتن کو چھونے پر  مارا پیٹا جاتا ہے، جن کو شادی میں گھوڑی پر سوار ہونے کی وجہ سے گولی ماری جا سکتی ہے، جنہیں مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے، جنہیں نام نہاد اونچی ذات کے لوگ زندگی کے کسی بھی حوالے میں اپنا مساوی ماننے کو تیار نہیں، وہ صرف داخلوں اور نوکریوں میں ہی برابری کیوں چاہتے ہیں؟

ایک اور نظریے سے بھی غور کریں؛ جن کی آبادی کل آبادی کا ایک چوتھائی ہے، وہ کس حق سے سو فیصد پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے تمام زمینوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے، تمام معاشی اور ثقافتی وسائل پر قبضہ کر لیا ہے، وہ جدید معاشرے میں بھی ہر جگہ اس روایتی قبضے کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ عدالتوں میں، سرکاری دفاتر میں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں، ہر جگہ۔

ایمانداری سے بات کی جائے تو سچائی کو جھٹلانا مشکل ہو گا۔ اپنے آپ سے پوچھیں کہ اگر ریزرویشن نہ کیا جاتا تو کیا جو چہرے ہمیں محکموں میں نظر آتے ہیں کیا وہ وہاں  ہوتے؟ اگر سلیکشن کمیٹیوں میں مخصوص طبقوں کے نمائندے نہ ہوں تو کیا انتخاب منصفانہ ہوگا؟

زیادہ دن نہیں گزرے جب مخصوص نشستوں کے امیدواروں کو نااہل قرار دے دیاجاتا تھا ، تاکہ اگلی بار سیٹیں جنرل میں چلی  جائیں، اس بہانے سے کہ مخصوص کٹیگری میں کوئی اہل نہیں پایا گیا اور سیٹیں کیسے خالی رکھی جا سکتی ہیں! اشرافیہ کی اس چالاکی کو پہچان کر یہ  قانونی اہتمام کرنا پڑا کہ مخصوص نشستوں کو کبھی بھی جنرل میں نہیں ڈالا جائے گا۔ تب ہی درج فہرست ذاتوں، قبائل اور دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد کو داخلہ مل سکتا ہے۔

پروموشن کا بھی یہی حال ہے۔ یعنی اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے داخلہ مل بھی  جائے تو  انہیں سیڑھی چڑھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ وہاں اپنا پہرہ  ہے۔ اس لیے وہاں بھی قانونی مداخلت کرنا پڑی۔

اونچی ذات کے غریب لوگوں کے لیے 10فیصد ریزرویشن کا مطلب ہے کہ اتنی جگہوں سے’جنرل’ امیدواروں کا باہر ہوجانا۔ لیکن اس پر کوئی شور شرابہ  نہیں۔ یہاں ٹیلنٹ کا کوئی ذکر نہیں۔ کیوں؟ کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ فرض کیا جاتا ہے کہ بھلے ہی 10فیصد مخصوص نشستوں پر کم نمبروں کے ساتھ امیدوار داخل ہوں،وہ چوں کہ اشراف ہیں ، باصلاحیت ہوں گے ہی؟

وہاں ہم جنرل سے کم نمبروں کے ساتھ داخل ہونے والوں کی قابلیت پر شک نہیں کرتے ۔ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا باصلاحیت ہوقدرتی مان لیا گیا ہے؟

صلاحیت کی وجہ سےمواقع ملتے ہیں۔ یہ جملہ غلط ہے۔ اس کے بجائے یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ موقع ملنے پر ٹیلنٹ ابھرتا ہے۔ اور ٹیلنٹ جتنا شخصی نہیں ، اتنا سماجی مشق کی وجہ سے کسی فرد میں پیدا ہونے والی خوبی ہے۔

صدیوں سے وہ لوگ جنہوں نے تمام مواقع اپنے لیے مخصوص کر رکھے ہیں، اپنے ہنر کو فطری اور قدرتی تصور کرنےلگے ہے، انہیں اس کے اندر چھپی ناانصافی اور ظلم کا مطلق احساس نہیں۔ وہ نت نئی ترکیبیں ایجاد کرتے رہتے ہیں تاکہ وہ تمام مواقع جو کبھی ان کے تھے اور جمہوریت کی وجہ سے ان میں سے کچھ ان سے لےلیے گئے ،  واپس ان کے پاس چلے جائیں۔

یہی وجہ ہے کہ اعلیٰ ذات کے لوگ بھی 10 فیصد ریزرویشن سے خوش ہیں جن کے لیے یہ نہیں ہے۔ وہ کہہ تو رہے ہیں کہ یہ منصفانہ تقسیم ہے، یہ جانتے ہوئے کہ یہ انصاف کے ایک  اصول کومسخ کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)