خبریں

آسام: عدالت میں خدا کے نام پر حلف لینے کے خلاف عرضی دائر

گوہاٹی ہائی کورٹ کے ایک وکیل نے اسی عدالت میں ایک عرضی دائر کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ ایک ملحد یا خدا میں یقین نہ رکھنے والے کو عدالت میں خدا کے نام پر حلف لینے کے لیے کیوں مجبور کیا جانا چاہیے؟

(تصویر: پی ٹی آئی)

(تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: آسام کے ایک وکیل نے گوہاٹی ہائی کورٹ میں ایک عرضی دائر کی ہے، جس میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ ایک ملحد یاخدا میں یقین نہ رکھنے والےکو خدا کے نام پر حلف کیوں دلائی جانی چاہیے۔

دی ہندو کے مطابق،  اسی عدالت میں پریکٹس کرنے والے ایک وکیل فضل الزمان مجمدار نے کہا کہ 1969 کا اوتھ ایکٹ، جس میں عدالت میں خدا کے نام پر حلف لینا شامل ہے، ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 25 کے ذریعے ضمانت دی گئی لبرل اور سائنسی سوچ کے استعمال میں رکاوٹ ہے۔

عدالت میں اپنی درخواست میں انہوں نے کہا کہ اوتھ ایکٹ کی دفعہ 1 اور دفعہ 6 کسی بھی شخص کو عدالت میں کسی بھی بات کا اعلان کرتے وقت خدا کے نام حلف لینے کو پابند کرتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ جب آرٹیکل 25 (خدا میں )یقین رکھنے والوں اور اس  کو نہیں ماننے والوں کےحقوق کا تحفظ کرتا ہے، تو خدا میں یقین نہ رکھنے والے درخواست گزار کو خدا کے نام پر حلف اٹھانے پر کیوں مجبور کیا جانا  چاہیے؟

مجمدار نے کہا کہ وہ ‘سیکولر، لبرل اور سائنسی سوچ رکھنے والے شہری’ کے طور پر’کسی مافوق الفطرت طاقت یا اتھارٹی پر بالکل بھی یقین نہیں رکھتےہیں’ اور یہ مانتے ہیں کہ ‘بھائی چارے اور انسانیت سے بڑا کوئی مذہب نہیں ہے۔’ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں کسی بھی مذہبی رسومات کی پابندی نہیں کرتے اور اس لیے خدا کے وجود پر یقین نہیں رکھتے۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی مذہب یا مافوق الفطرت طاقت کو نہ ماننے کا ان کا حق آئین کے آرٹیکل 25 اور 26 کے تحت تسلیم کیا گیا ہے اور اس کی ضمانت دی گئی ہے۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ آرٹیکل 25 کا خلاصہ یہ ہے کہ مذہب پر عمل کرنے کے حق میں اس پر عمل نہ کرنے کا حق بھی شامل ہے۔

گزشتہ  10 نومبر کو دائر کی گئی ان کی عرضی میں کہا گیا،اس کے آگے آرٹیکل 26 کہتا ہے کہ تمام فرقے مذہب کے حوالے سے اپنے معاملات کو حل کر سکتے ہیں، بشرطیکہ امن عامہ، اخلاقیات اور صحت کا مساوی احترام برقرار رکھا جائے۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے، بہت سے ایسے افراد ہوسکتے ہیں جو کسی خاص مذہب سے تعلق رکھنے کو ترجیح نہیں دیتے… ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 25 کسی بھی شہری کو ‘ضمیر کی آزادی’ کی ضمانت دیتا ہے۔ جب کوئی شخص آزادی ضمیر کا حقدار ہے اور اگر اس کے مطابق وہ کسی مذہب کی پیروی نہیں کرنا چاہتا تو یہ حق اسے ملنا چاہیے۔

مجمدار نے یہ بھی کہا کہ گوہاٹی ہائی کورٹ رول 2015 کا قاعدہ 30 باب IV ان کے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ قاعدہ میں کہا گیا ہے کہ ‘اعلان کرنے والے سے حلف دلاتے ہوئے مجسٹریٹ، نوٹری یا ہائی کورٹ کی طرف سے مقرر کردہ کوئی افسر یا کوئی اور شخص اوتھ ایکٹ 1873 کے مطابق کام کرے گا اور حلف خدا کے نام پر لیا جائے گا۔ ‘

کیس کی سماعت سوموارکو ہونی تھی۔