فکر و نظر

خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے ہم کیا کر سکتے ہیں؟

قومی دارالحکومت میں شردھا واکر کے ان کے لیو-ان پارٹنر آفتاب پونا والا کے ہاتھوں وحشیانہ قتل نے بہت درد اور غصہ پیدا کیا ہے۔ پولیس کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ آفتاب کو اس بہیمانہ قتل کی سزا  ملے۔ لیکن خواتین کے خلاف مزید تشدد کو روکنے کے لیے ہمیں ایک سماج کے طور پرکیا کرنا چاہیے؟

(تصویر بہ شکریہ : cathredfern/Flickr CC BY NC 2.0)

(تصویر بہ شکریہ : cathredfern/Flickr CC BY NC 2.0)

قومی راجدھانی میں 26 سالہ شردھا واکر کے اس کے 28 سالہ لیو ان پارٹنر آفتاب امین پونا والا کے ہاتھوں وحشیانہ قتل نے بہت  حد درد اور غصہ پید کیا ہے۔ اس سفاکانہ قتل اور اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے آفتاب کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہیے، اسے قصوروار ٹھہرایا جانا چاہیے اور سزا دی جانی چاہیے۔ لیکن یہ پولیس اور استغاثہ کا کام ہے۔ ہم، عام لوگ جو اس قتل سے صدمے میں ہیں، تبدیلی لانے اور خواتین پر ہونے والے اس طرح کے تشدد کو روکنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟

اس طرح  کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیےسماج میں کس قسم کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہم میں سے ہر ایک کیا کر سکتے ہیں، اور کیا کرنا چاہیے۔اس بارے  میں، میں اپنے خیالات بعض نکات کی روشنی میں پیش کر رہی ہوں۔

گھریلو تشدد کے مسئلے کی نشاندہی کیجیے

آفتاب نے اپنی گرل فرینڈ شردھا کو گلا گھونٹ کر مارا، پھر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے فریج میں رکھا اور وقتاً فوقتاً کچھ ٹکڑوں کو جنگل میں دفن کر  آیا۔ ابھیجیت نے اپنی گرل فرینڈ شلپا کا گلا کاٹ دیا، پھر انسٹاگرام پر اس کے آخری وقت کا اذیت ناک   ویڈیو ڈالا۔ ان میں اصل مسئلہ ہے گھریلو تشددکا۔

دنیا میں خواتین کے زیادہ تر قتل گھر میں عاشق/شوہر کے ہاتھوں ہوتے ہیں۔دہلی ہائی کورٹ بھی کہہ چکا ہے کہ عورت کے قتل کے زیادہ تر معاملات میں شوہر مجرم ہیں، شکار بیوی اور جرم کی جگہ سسرال۔ ہندوستان میں شادی شدہ خواتین اپنے سسرال کی بہ نسبت سڑکوں پر کہیں زیادہ محفوظ ہیں۔

لہٰذا ایسے قتل کو لو/لیو ان  رشتوں کے خلاف  پیش کرنا غلط ہے۔سشیل شرما نے اپنی بیوی نینا ساہنی کو قتل کر کے تندور میں جھونک دیا۔ بہار میں ہیمنت یادو نے اپنی بیوی کو قتل کر کے بوٹی بوٹی کر دیا۔ اس طرح کاکانڈ کرنے والے ‘وحشی’ نہیں ،عام سماج سے آنے والے پدرانہ نظام سے پیدا ہونے والے عام مرد ہیں۔

گھریلو تشدد کے قانون کے خلاف پروپیگنڈہ بند کیجیے، حکومت سے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیجیے

ایک مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک عورت کو اس کے عاشق کے ہاتھوں قتل کیا جاتا ہے – لیکن قتل سے پہلے جو گھریلو تشددہوتا ہے ، اس کو روکنے کے لیے’فرضی کیس’ کا جھوٹا بہانہ  ان قوانین کے خلاف کھڑا کیا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ فرضی کیس بنانا تو دور، گھریلو تشدد کا شکارہونے والی  خواتین قانونی اقدامات سےکتراتی  ہیں-  اس کے بجائے وہ چاہتی ہیں کہ کسی طرح شوہر/بوائے فرینڈ کو تشدد کرنے سے روکا جائے۔

اگر کسی خاتون نے مقدمہ درج کرایا ہے تو سمجھ لیں کہ باقی تمام آپشن ناکام ہو گئے ہیں۔ گھریلو تشدد پر بروقت مداخلت کی جائے تو خواتین کے مزید قتل کو روکا جا سکتا ہے۔

خواتین کے لیے پناہ گاہیں یا شیلٹر اکثر جیلوں کی طرح چلتی ہیں۔ پناہ گاہ اور ہیلپ لائن دونوں میں تربیت یافتہ کارکنوں کی کمی ہے۔ قانونی مشورہ اور  مدد بھی دستیاب نہیں ہے۔نیٹ فلکس  پر ‘میڈ’ نام کی سیریز  میں امریکہ میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کے لیے سرکاری خدمات میں  کمی  اور کمزوری کوپیش کیا گیا ہے۔ لیکن اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ ہمارے یہاں  تواتنا بھی نہیں ہے!

خواتین کے بنے شیلٹریا  پناہ گاہ میں ڈانٹ ڈپٹ  کے بجائے خواتین اور بچوں کو محفوظ کمرے کے علاوہ پیار، محبت،  احترام اور مدد ملے، مفت موبائل فون اور سم ملے،شیلٹر چھوڑنے پر مکان/کمرے کا کرایہ حکومت ادا کرے، قانونی اور سماجی مشاورت دی جائے –  ہندوستان میں بھی ہمیں ان سب کا مطالبہ  کرنا چاہیے۔

والدین بنا شرط بیٹی کاساتھ دیں

ہندوستان میں شادی کے بعد عورت  سسرال  چلی جاتی ہے –  اپنے گھر، دوستوں وغیرہ سے دور۔اگر ذات، مذہب اور برادری  وغیرہ سے ہٹ کر محبت کی شادی کی ہو تو والدین بھی رشتہ توڑ دیتے ہیں۔ اس کے باعث  پیدا ہونے والی یگانگت  اورتنہائی گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کو اور بھی زیادہ خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ اگر ایک بیٹی کو یہ بھروسہ ہو کہ اس کے والدین کے دروازے اس کے لیے ہمیشہ کھلے ہیں،  چاہے کچھ بھی ہو جائے، تب گھریلو تشدد کے خلاف جدوجہد میں اس  کو بے پناہ طاقت اور حوصلہ مل سکتا  ہے۔

متاثرہ خاتون  کے دوست اس کی مدد کیسے کریں-  اور کیا نہ کریں

ایک اعداد و شمار کے مطابق، دنیا بھر میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خاتون کم از کم سات ناکام کوششوں کے بعد پرتشدد رشتے کو چھوڑپاتی ہے۔ اگر آپ کی دوست پرتشدد رشتے کو نہیں  چھوڑ  پا رہی ہے، یا چھوڑ کرواپس چلی جاتی  ہے، تو اسے ‘بزدل’ کہہ کر شرمندہ نہ کریں۔ اسے ‘زیادہ بہادر’ بننے کے لیےنہ کہیں، اسے پولیس کے پاس جانے کے لیے دباؤ نہ ڈالیں۔ اسے یقین دلائیں کہ آپ بلانے پر ہمیشہ پہنچ جائیں  گے/جائیں گی  اور پھر آگے کیا کرنا ہے وہ خود طے  کر پائے گی۔

خواتین کے خلاف  تشدد انصاف کاسوال  ہے، اسے نفرت کی سیاست کا چارہ بنائے جانے کی مخالفت کیجیے

ملزم آفتاب ہو یا ابھیجیت، شیلیش، سانجی رام – مقتول شردھا ہو، شلپا ہو، صالحہ ہو یا کٹھوعہ کیس کی متاثرہ – قتل  سنگین جرم  ہے۔ کپل مشرا اور نریش بالیان جیسے لیڈر باقی سب پر خاموش ہیں – لیکن وہ آفتاب کے نام کے بہانے ‘لو جہاد/دہشت گردی’ کا ایجنڈا کیوں اچھال رہے ہیں؟ ان کو انصاف سے نہیں فرقہ وارانہ سیاست  سے مطلب ہے؟

ملزم سانجی رام نے بکروال برادری کو دہشت زدہ کرنے اور انہیں زمین سے بھگانے کی نیت سے کٹھوعہ متاثرہ کے ساتھ گینگ ریپ  کیا اورقتل کیا۔ بلقیس کے ساتھ گینگ ریپ اور اس کے خاندان کے 11 افراد کو قتل کرنے والوں میں سے ایک شیلیش نے ان کی 3 سالہ بیٹی صالحہ کو زمین پر سر مار کر ہلاک کر دیا۔

ہندو ایکتا منچ نے کٹھوعہ متاثرہ کے قاتلوں کے حق میں ترنگا جلوس نکالا۔ 15 اگست کو مودی حکومت نے بلقیس کیس کے ریپسٹ قاتلوں کو رہا کیا، وی ایچ پی نے ہار اور مٹھائی سے ان کا استقبال کیا۔ کیا یہ ہندوؤں اور ترنگے/آزادی کی توہین نہیں ہے؟ اس پر وزیر اعظم مودی خاموش کیوں تھے؟

آفتاب نے گھناؤنا کام کیا ہے، اسے کڑی سے کڑی سزا ملنی ہی چاہیے۔ لیکن ان کے حق میں کوئی ‘مسلم ایکتاجلوس’ نہیں نکلا۔اسے کوئی  جیل سے رہا کرکے ہار نہیں پہنائے گا، مٹھائی نہیں کھلائے گا۔

نینا ساہنی کا قاتل سشیل شرما یوتھ کانگریس لیڈر تھا – لیکن کانگریس حکومت نے اس کا دفاع نہیں کیا، پھر بھی مودی نے اسے سیاسی ایشو بنا یا۔ لیکن وہی پارٹی انکیتا کے قتل پر خاموش ہے، جس میں بی جے پی لیڈر کا بیٹا پلکیت ملزم ہے اور بی جے پی حکومت نے ثبوت مٹانے کے لیے واردات کی جڑ رہے ریزورٹ پر ہی  بلڈوزر چلا دیا!

خواتین کی تحریک ہر معاملے میں انصاف کے لیے لڑتی ہے: ملزم اور متاثرہ کا نام، مذہبی یا سیاسی پہچان سے قطع نظر۔ ملزمان کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ گھریلو تشدد کو روکنے کے لیے ہمیں مل کر ہیلپ لائن، شیلٹر، پروٹیکشن آفیسرز، وغیرہ کے لیے فنڈز، تربیت یافتہ ورکرزکا مطالبہ کرنا چاہیے۔

(کویتا کرشنن سماجی کارکن ہیں۔)

(یہ مضمون کویتا کرشنن کے فیس بک پیج پر شائع ہوا  ہے۔)

Categories: فکر و نظر

Tagged as: , , , ,