خبریں

کٹھوعہ گینگ ریپ–قتل معاملہ: سپریم کورٹ نے ’نابالغ‘ ملزم کو بالغ مانا، مقدمہ چلانے کا حکم

بتادیں کہ 17 جنوری 2018 کو جموں و کشمیر کے کٹھوعہ ضلع میں ایک آٹھ سالہ بچی کی لاش ملی تھی۔ میڈیکل رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ قتل سے قبل لڑکی کے ساتھ کئی  بار گینگ ریپ  کیا گیا تھا۔ جون 2019 میں اس کیس کے کلیدی  ملزم سانجی رام سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کو قصوروارٹھہرایا  گیا تھا۔

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کو کہا کہ 2018 میں جموں و کشمیر کے کٹھوعہ میں آٹھ سالہ خانہ بدوش لڑکی کے ساتھ گینگ ریپ اور قتل کے معاملے میں نابالغ قرار دیا  گیاایک ملزم جرم  کے  وقت بالغ تھا، اس لیے  ایک بالغ کے طور پر اس کے خلاف  مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔

جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس جے بی پاردی والا کی بنچ نے کٹھوعہ کے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ (سی جے ایم) اور جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو رد کر دیا، جس میں ملزم کو نابالغ قرار دیا گیا تھا۔

چیف جوڈیشل مجسٹریٹ، کٹھوعہ اور جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے اپریل 2004 میں میونسپل کمیٹی ہیرا نگر کے ایگزیکٹیو آفیسر کے ذریعے درج کی گئی تاریخوں کی بنیاد پر ملزم کوٹین ایجر مانا تھا، جس میں اس کی تاریخ پیدائش 23 اکتوبر 2002 بتائی گئی تھی۔

اب 20 سال سے زیادہ کے ہو چکے ملزم نوجوان کی پہچان شبھم سانگرا کے طور پر کی گئی ہے۔ اس کی شنوائی کٹھوعہ کے جوینائل جسٹس بورڈ کے ذریعے کی جا رہی تھی۔ اسے جموں کے ایک جوینائل ہوم میں رکھا گیا تھا اور امید کی جا رہی تھی کہ جلد ہی اسے رہا کر دیا جائے گا۔

بتادیں کہ 17 جنوری 2018 کو لڑکی کے قتل کا انکشاف ہونے پر اس معاملے نے ملک بھر میں غم و غصہ پیدا کر دیا تھا۔ اس کیس کو اسی سال 27 جنوری کو جموں و کشمیر کرائم برانچ کے حوالے کیا گیا تھا، جس نے کہا کہ لڑکی کا اغوا کیا گیا تھا اور کو قتل کرنے سے پہلے چار دن تک اس کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا۔

کیس میں کرائم برانچ کی طرف سے داخل چارج شیٹ کے مطابق،  سانگرا نے بچی کے اغوا، گینگ ریپ اور قتل میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ کیس میں سانگرا سمیت آٹھ افراد کو ملزم بنایا گیا تھا۔

عدالت میں داخل کیے گئے حلف نامے میں سانگرا کے نابالغ ہونے کے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے درخواست میں تضادات کا حوالہ دیا گیا۔ اسے کرائم برانچ نے طبی وجوہات کے ساتھ عدالت میں پیش کیا تھا۔ کرائم برانچ سانگرا کے ساتھ  نابالغ کے طور پر  سلوک کرنے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کر رہی تھی۔

سانگرا کے والد نے جموں کے ہیرا نگر میں تحصیلدار کے دفتر میں  درخواست دائر کی تھی، جو اپنے تین بچوں کے لیے پیدائش کا رجسٹریشن سرٹیفکیٹ چاہتے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ بڑے لڑکے کی تاریخ پیدائش 23 نومبر 1997 بتائی گئی ہے جبکہ ایک بیٹی کی  پیدائش کی تاریخ 21 فروری 1998 اور شبھم سانگرا کی تاریخ 23 اکتوبر 2002 بتائی گئی ہے۔

حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ دونوں بڑے بچوں کی پیدائش کے دنوں میں صرف دو ماہ اور 28 دن کا فرق تھا جو کسی بھی طبی نقطہ نظر کے مطابق ناممکن ہے۔ اس میں کہا گیا  ہے کہ یہ پیدائش کی تاریخوں کی  تفصیلات پیش کرنے میں والد کے لاپرواہ رویہ کی نشاندہی کرتا ہے۔

اس کے علاوہ دونوں بڑے بچوں کی پیدائش کی جگہ کا ذکر نہیں کیا گیا، لیکن شبھم سانگرا کی پیدائش ہیرا نگر کے اسپتال میں ہوئی بتائی گئی۔ حکام نے کہا کہ اس بیان کی سچائی کا جائزہ لینے کے بعد تحقیقات میں یہ بات سامنے نہیں آئی۔

پولیس نے عدالت عظمیٰ کے سامنے ایک حلف نامہ میں کہا کہ ہیرا نگر بلاک میڈیکل آفیسر نے ریکارڈ کی تصدیق کی اور واضح طور پر کہا کہ سانگرا کی ماں کے نام پر 23 اکتوبر 2002 کو کوئی ڈیلیوری نہیں ہوئی تھی۔

اس میں کہا گیا کہ درحقیقت یہ اندراجات فرضی تھے اور میونسپل کمیٹی یا پرائمری ہیلتھ سینٹر میں ایسا کوئی معاون ریکارڈ نہیں ملا جو مدعا علیہ (لڑکے) کی تاریخ پیدائش سے متعلق ہو۔

لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس پاردی والا نے کہا، یہ مانا جاتا ہے کہ جرم کے وقت ملزم نابالغ نہیں تھا اور اس پر اسی طرح مقدمہ چلایا جانا چاہیے جس طرح دوسرے شریک ملزمان پر قانون کے مطابق مقدمہ چلایا گیا تھا۔

بنچ نے کہا، کسی دوسرے فیصلہ کن ثبوت کی عدم موجودگی میں عمر کے بارے میں طبی رائے پر غور کیا جانا چاہیے۔ ملزم کی عمر کی حد کا تعین کرنے کے لیے طبی ثبوت پر انحصار کیا جا سکتا ہے  یا نہیں ، اس کا انحصار ثبوت کی اہمیت پر ہے۔

عدالت نے کہا کہ ایک ہی  معاملے پر کسی قانونی ثبوت کی عدم موجودگی میں کسی ملزم کی عمر کے بارے میں طبی رائے کو ‘درکنار’ نہیں کیا جا سکتاہے۔

تحقیقات کو طبی ماہرین کے ایک بورڈ کی رپورٹ سے تائید حاصل ہوئی، جس میں 10 جنوری 2018 کو ہونے والے وحشیانہ واقعے کے وقت شبھم سانگرا کی عمر 19 سال سے کم نہیں اور 23 سال سے زیادہ نہیں طے کی گئی۔

فزیالوجسٹ، ڈینٹل ایگزامینر، ریڈیالوجسٹ اور فرانزک سائنسدان سمیت مختلف شعبوں کے ماہرین کی رپورٹ، مختلف طبی ٹیسٹوں کے ساتھ ساتھ سانگرا کی جسمانی بناوٹ  پر مبنی ہے۔

کرائم برانچ کی چارج شیٹ میں اس سنگین جرم میں سانگرا کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ سانگرا آٹھ سالہ بچی کو زبردستی دی جانے والی نشیلی دواؤں کی زیادہ مقدار دینے کے لیے ذمہ دار تھا، جس سے وہ بے ہوش ہو گئی تھی۔

انڈین ایکسپریس کی  رپورٹ کے مطابق، جون 2019 میں پٹھان کوٹ کی ایک عدالت، جہاں مقدمے کو منتقل کیا گیا تھا،  نے ثبوت ضائع  کرنے کے لیے تین ملزمان کو عمر قید اور تین سابق پولیس اہلکاروں کو پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ساتویں ملزم کو بری کر دیا گیا اور آٹھویں ملزم کو نابالغ سمجھا جانا تھا۔

دسمبر 2021 میں، پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ نے ان میں سے دو سابق پولیس والوں (آنند دتہ اور تلک راج) کی بقیہ سزاؤں کو معطل کر دیا تھا۔

اہل خانہ نے کہا، سپریم کورٹ کے فیصلے سے انصاف کی امید پیدا ہوئی ہے

دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق، لڑکی کے خاندان نے بدھ کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ نابالغ کو گود لینے والے محمد یوسف اور اس کے حیاتیاتی والد محمد اختر نے کہا کہ اس فیصلے سے مکمل انصاف کی امید پیدا ہوئی ہے۔

یوسف نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ آخر کار ہمیں مکمل انصاف ملے گا کیونکہ سانگرا اس کیس کا کلیدی ملزم ہے۔

یوسف اور اختر، جو آپس میں رشتہ دار ہیں، لداخ کے کارگل ضلع میں ہریالی چراگاہوں کی تلاش میں چھ ماہ گزارنے کے بعد پندرہ دن قبل اپنے اہل خانہ کے ساتھ سانبہ ضلع  پہنچے ہیں۔

سابق سب انسپکٹر آنند دتہ اور ہیڈ کانسٹبل تلک راج کو پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کی جانب سے ان کی بقیہ سزا کو معطل کرتے ہوئے بری کیے جانے کے فیصلے کا ذکرکرتے ہوئے اختر نے کہا،ہمیں ابھی تک مکمل انصاف نہیں ملا ہے، کیوں کہ بعض سزا یافتہ ۔ پچھلے ایک سال سے زائد عرصے سے ضمانت پر باہر ہیں۔

یوسف نے کہا کہ وہ کچھ پیش رفتوں سے مایوس تھے، جن میں مجرموں کی ضمانت پر رہائی بھی شامل ہے، لیکن تازہ ترین فیصلہ ان کے لیے ایک بڑی راحت کے طور پر آیا کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ متاثرہ کو بالآخر انصاف ملے گا۔

بچی  کو مسلسل بے ہوش رکھا گیا،  گلا دبا کر کیا گیاقتل

معلوم ہوکہ گینگ ریپ اور قتل کے اس سنگین کیس کے واقعات کی شروعات  10 جنوری کو ہوتی ہے۔ اس دن کٹھوعہ ضلع کی ہیرا نگر تحصیل کے رسانا گاؤں کی ایک لڑکی لاپتہ ہوجاتی ہے۔ اس کا تعلق بکروال برادری سے تھا جو ایک خانہ بدوش کمیونٹی ہے۔ اس کا تعلق مذہب اسلام  سے  بھی ہے۔

اہل خانہ کے مطابق یہ لڑکی 10 جنوری کو دوپہر تقریباً 12:30 بجے گھر سے گھوڑوں کو چرانے نکلی تھی جس کے بعد وہ گھر واپس نہ آسکی۔

پھر تقریباً ایک ہفتہ بعد 17 جنوری 2018 کو ایک آٹھ سالہ بچی کی مسخ شدہ لاش اس کیس کے مرکزی ملزم اور ایک مقامی مندر کے نگراں سانجی رام کے گھر کے قریب جنگل سے ملی۔

میڈیکل رپورٹ میں پتہ چلا کہ لڑکی کے ساتھ کئی بار کئی دنوں تک گینگ ریپ ہواہے اور پتھر سےکچل کر اس کا قتل کیا گیا تھا۔ اس کو کثیر مقدار میں نیند کی گولیاں دی گئی تھیں۔جس وجہ سے وہ کوما میں چلی گئی تھی۔

اس ریپ اور قتل کے واقعہ پر بڑے پیمانے پر غم و غصے اور احتجاج کے بعد اس وقت کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی حکومت نے متاثرہ کے خاندان کی درخواست پر معاملے کی جانچ کرائم برانچ کو سونپ دی تھی۔

اس وقت کی حکومت کے دو وزیروں  چندر پرکاش گنگا اور چودھری لال سنگھ نے  سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے ملزمین کے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے ساتھ نکالی گئی ریلی میں شرکت  بھی کی تھی۔

کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا تھا کہ جائے وقوعہ پر جھوٹے شواہد بنانے کی کوشش میں پولیس اہلکاروں نے نابالغ لڑکی کے کپڑے فرانزک سائنس لیب میں بھیجنے سے پہلے دھوئے تھے۔

ک کرائم برانچ کی پندرہ صفحات پر مشتمل چارج شیٹ میں کہا گیا ہے، لڑکی کو نشہ آور اشیا کھلائی گئی تھیں، جوایک مقامی دکان سے خریدی گئی تھیں۔ لڑکی کو بے دردی سے گلا دبا کر قتل کرنے سے چند روز قبل اسے رسانہ کے ایک مندر میں چھپا کر رکھا گیا تھا۔

چارج شیٹ کے مطابق، ملزمین نے لڑکی کے ساتھ بار بار ریپ کیا جبکہ معاملے کی تفتیش کررہے مقامی پولیس افسران نے شواہد کو ضائع کیا۔

چارج شیٹ میں کہا گیا،جانچ کے دوران پتہ چلا کہ سانجی رام رسانہ، کوٹہ اور دھامیال کے علاقوں میں بکروال(چرواہا برادری)کے بسنے  کے خلاف تھا اور اپنی برادری کے لوگوں سے بار بار کہتا تھا کہ وہ بکروالوں کو چرانے کے لیے زمین نہ دیں اور نہ ہی ان کی کسی طرح مدد کریں۔

کرائم برانچ نے مبینہ نابالغ (شوبھم سانگرا) سمیت آٹھ لوگوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی۔

بچی کے ایک مندر کے اندر ریپ اور قتل پر ملک گیر غصے کے بعد سپریم کورٹ نے 2018 میں اس معاملے کو جموں و کشمیر سے باہر منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔

عدالت نے پٹھان کوٹ کی سیشن عدالت کو اس معاملے کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرنے کا حکم دیا تھا۔

پٹھان کوٹ کےڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تیجویندر سنگھ نے اپنے 432 صفحات پر مشتمل فیصلے میں اس جرم کو ’شیطانی اور وحشیانہ‘ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس  جرم کوانتہائی شرمناک، غیر انسانی اور وحشیانہ طریقے سے انجام دیا گیا۔

جون 2019 میں عدالت نے اس کیس کے کلیدی ملزم سانجی رام سمیت چھ لوگوں کو مجرم قرار دیا تھا۔ سانجی رام، برطرف خصوصی پولیس افسران دیپک کھجوریا اور پرویش کمار کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، جبکہ تین دیگر برطرف پولیس اہلکاروں – سب انسپکٹر آنند دتہ، ہیڈ کانسٹبل تلک راج اور اسپیشل پولیس آفیسر سریندر ورما کو ثبوتوں کوضائع کرنےکے معاملے میں  پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

ان کی سزا کے بعد تینوں پولیس اہلکاروں کو جموں و کشمیر انتظامیہ نے برخاست کر دیا تھا۔ ان  پر کیس کے کلیدی ملزم ریٹائرڈ ریونیو افسر سانجی رام سے 4 لاکھ روپے رشوت لینے کے بعد ثبوت کو مٹانے کا الزام تھا۔

بتادیں کہ 21 دسمبر 2021 کو اس کیس کے مجرموں میں سے ایک سب انسپکٹر آنند دتہ کو اس کی باقی سزا معطل کرتے ہوئے ضمانت مل گئی تھی۔ اس سے قبل 16 دسمبر 2021 کو ہیڈ کانسٹبل تلک راج کی سزا پر روک لگا دی گئی تھی۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)