خبریں

کوویکسین کو سیاسی دباؤ میں جلد بازی میں لایا گیا تھا: رپورٹ

طبی اور صحت کے مسائل پر کام کرنے والی امریکی ویب سائٹ اسٹیٹ کی رپورٹ کے مطابق، کوویکسین بنانے والی کمپنی بھارت بایو ٹیک کے ایک ڈائریکٹر نے اعتراف کیا ہے کہ ویکسین کوتیار کرنے کے عمل میں کچھ ‘ضروری’ اقدامات  چھوڑ دیے گئے تھے۔

(تصویر: رائٹرس)

(تصویر: رائٹرس)

نئی دہلی: طبی اور صحت کے مسائل پر کام کرنے والی امریکی ویب سائٹ اسٹیٹ کی نئی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ کوویکسین بنانے والی کمپنی بھارت بایو ٹیک نے اس ویکسین کی تیاری کو جیسے تیسے جلد بازی میں پورا کیا تھا اور ہندوستان  کے ڈرگ ریگولیٹر- سینٹرل ڈرگ اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن (سی ڈی ایس سی او) نے اس کو نظر انداز کیا۔

اس کے علاوہ اور دیگر الزامات کے جواب میں کمپنی کے ڈائریکٹرز میں سے ایک نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ ملکی ویکسین تیار کرنے کے لیے ‘سیاسی دباؤ’ کی وجہ سے انہیں بعض  عمل کو ترک کرنا پڑا اور ٹرائل کے عمل میں ان کی ترمیم کو ریگولیٹر کے ذریعے پرکھا گیااور اور ویکسین کے کلینکل ٹرائل میں ‘رفتار’ کو زیادہ توجہ  دی گئی تھی۔

یہ پہلا موقع ہے جب کمپنی کے کسی سینئر عہدیدار نے کمپنی پر لگائے گئے الزامات پر رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ اپریل میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے درست مینوفیکچرنگ طریقوں میں خامیوں کا حوالہ دیتے ہوئے اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو کوویکسین کی سپلائی معطل کر دی تھی۔ ڈبلیو ایچ او نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارت بایوٹیک نے کوویکسین کے لیے ہنگامی حالات میں استعمال کا لائسنس حاصل کرنے کے بعد مینوفیکچرنگ کے عمل میں کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ کمپنی نے یہ واضح نہیں کیا تھاکہ یہ تبدیلیاں کیا تھیں، اور نہ ہی اس نے اپنی ‘اصلاحی’ کارروائی سے متعلق سوالات کا جواب دیا تھا۔

تاہم، جیسا کہ دی وائر سائنس نے بعد میں پایا ڈبلیو ایچ او نے بھارت بایوٹیک کے کریکٹیو ایکشن پلان کو مسترد کر دیا تھا اور اس بنیاد پر ویکسین بھی  معطل رہی۔ کمپنی نے معطلی کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ دنیا میں تمام کووڈ 19 ویکسین میں سے کوویکسین واحد ہے جسے ڈبلیو ایچ او کے ذریعے معطل کیا  گیاہے۔

اب،اسٹیٹ کی تحقیقات کے مطابق ویکسین کے لیے کیے گئے کلینکل ٹرائلز کے تین مرحلوں میں کئی بے ضابطگیاں تھیں۔ نامہ نگار ایڈ سلورمین کی سربراہی میں کی گئی تحقیقات میں پایا گیا کہ دی لانسٹ انفیکٹس ڈیزیز میں شائع ہونے والے متعلقہ مقالے سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق، ٹیسٹ کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں اندراج کیے گئے شرکاء کی تعداد ٹرائل پروٹوکول دستاویز میں بیان کردہ معلومات سے مختلف تھی۔

سلورمین نے لکھا ہے، دستاویزوں  کے جائزہ میں اندراج کرنے والوں کی تعداد میں واضح تضاد تھا۔پہلے مرحلے کے ڈیٹا کی رپورٹنگ میں پروٹوکول میں کہا گیا کہ 402 شرکاء کو پہلی خوراک دی گئی اور 394 کو دوسری خوراک ملی۔ لیکن جنوری 2021 میں لانسیٹ انفیکٹس ڈیزیز میں شائع ہونے والے نتائج میں بتایا گیا کہ 375 افراد کو پہلی خوراک اور 368 افراد کو دوسری خوراک دی گئی۔

اس کے جواب میں بھارت بایوٹیک کے ایک ڈائریکٹرز میں سے ایک کرشنا موہن نے الگ الگ  جگہوں سے کام کرنے والے لوگوں کے درمیان تال میل میں پیش آئی مشکلات کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ییل اسکول آف میڈیسن میں کولیبوریشن آف  ریگولیٹری ری گور، انٹیگرٹی اینڈ ٹرانسپیرینسی کی سربراہ ریشما رام چندرن کہتی ہیں کہ یہ تبدیلیاں ‘قابل توجہ’ تھیں، لیکن ضروری نہیں کہ کوویکسین کے لیے ‘نقصاندہ’ ہوں۔

لیکن رامچندرن کو ایک اور تضاد میں ‘مسئلہ’ نظر آیا – کہ دوسرےمرحلہ  کے کلینکل ٹرائل میں ایک ضروری حصہ، جسے پلیسبو کہتے ہیں، وہ ندارد تھا۔

کسی  ویکسین کے کلینکل ٹرائل میں اسے شرکاء کے دو سیٹوں پر آزمایا جاتا ہے: ایک سیٹ کو ویکسین کی فعال شکل دی جاتی ہے اور دوسرے کو ڈمی، جسے پلیسبوکے طور پربھی جانا جاتا ہے۔ پہلے سے طے شدہ مدت کے بعد تفتیش کار دونوں گروپوں کے ڈیٹا کا تقابلی تجزیہ کرکے ویکسین کے تحفظ اور افادیت کا اندازہ لگاتے ہیں۔

اسٹیٹ کے مطابق، پلیسبو اس ٹیسٹ کا حصہ نہیں تھا۔ اس کے بجائےانہوں نے شرکاء کو دو گروہوں میں تقسیم کیا: ایک کو کوویکسین کی ایک فارمولیشن دی گئی، دوسرے کو دوسری فارمولیشن۔

غورطلب  ہے کہ پلیسبو کو اس وقت ہٹایا جا سکتا ہے جب کسی ویکسین کی افادیت پہلے ہی قائم ہو چکی ہو، نہ کہ جب پہلی بار اس کا جائزہ لیا جا رہا ہو۔ خصوصی  طور پر، پلیسبو کے ہونے سے تفتیش کاروں کو کسی بیماری کے خلاف ویکسین کے اثر ،اور بنا کسی  ویکسین کے بیماری کے اثر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ پلیسبو کی جگہ کسی  فارمولیشن کو رکھنے کی صورت میں تفتیش کار صرف اس کے دوسرے  فارمولیشن سے بہتر ہونے کا ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

مثلاً، اگر ایک فارمولیشن خراب ہے اور دوسری اس سے بھی زیادہ خراب ، تو کم خراب دوسری سے بہتر لگے گی، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ مجموعی طور پر بہتر ہے۔

اسٹیٹ نے یہ بھی پایا کہ سی ڈی ایس سی او کے موضوع کی ماہر کمیٹی نے بھارت بایوٹیک کو پہلے مرحلے کے ٹرائل کے نتائج دستیاب ہونے سے پہلے ہی دوسرے مرحلے کا ٹرائل شروع کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ یہ اجازت پری کلینکل اسٹڈیز کی بنیاد پر دی گئی ہے، جو انسانوں پر کیے جانے والے ٹیسٹ(ہیومن ٹرائل) کے پہلے مرحلے سے قبل جانوروں پر کیے جاتے ہیں، کی بنیاد پر دی گئی تھی۔

پہلے مرحلے کے ٹرائل چھوٹے ہیں اور اس سےرام چندرن کو فکر نہیں ہوئی — لیکن جس چیز نے مبینہ طور پر ان  کی تشویش میں اضافہ کیا وہ یہ تھا کہ کمپنی نے دوسرے مرحلے کے ٹرائلز کے نتائج کے بغیر تیسرے مرحلے کے  ٹرائلز شروع کر دیے تھے۔

دوسرے مرحلے میں تفتیش کار اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ تیسرے مرحلے کا ٹرائل، جس میں عام طور پر شرکاء کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے، شروع کرنے کے لیے ویکسین محفوظ اور موثر ہے یا نہیں۔ اسٹیٹ کے مطابق، بھارت بایوٹیک کے موہن نے اعتراف کیا کہ کمپنی نے صرف جانوروں کے مطالعے کی بنیاد پرتیسرے مرحلے کے  ٹرائل شروع کیے تھے۔ موہن نے اسٹیٹ کو یہ بھی بتایا کہ کمپنی نے یہ فیصلے ‘ریگولیٹرز کے مسلسل بڑھتے ہوئے دباؤ’ کے بعد کیے ہیں۔

رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد ویلور کے کرسچن میڈیکل کالج کے فیکلٹی ممبراور متعدی امراض کے ماہر  جیکب جان نے مطالبہ کیا کہ دی لانسیٹ انفیکشیس ڈیزیز سے متعلق ان پیپرز کا جائزہ لیں – جس کے مصنفین میں انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) کے سائنسدان بھی شامل تھے۔

واضح ہوکہ کوویکسین تیار کرنے میں ہندوستان کے اعلیٰ طبی تحقیقی ادارے آئی سی ایم آر کی براہ راست حصہ داری  تھی: آئی سی ایم آر نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرولوجی نے کوویکسین بنانے کے لیےنوویل کوروناوائرس کو آئسولیٹ کیا تھا۔ٓئی سی ایم آر کو کوویکسین کی فروخت پر 5فیصد رائلٹی بھی ملی ہے۔ لیکن نہ توٓئی سی ایم آر اور نہ ہی انسٹی ٹیوٹ نے کوویکسین کے خلاف کسی بھی الزام کا جواب  دیا۔

جمعرات کو حکومت ہند کی جانب سے اسٹیٹ رپورٹ میں کیے گئے دعووں کو ‘گمراہ کن اور غلط‘ قرار دیا گیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ بھلے ہی بھارت بایوٹیک کے ایک سینئر ممبر نے پہلی بار کسی سنگین الزام کا جواب دیا ہے، لیکن یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کوویکسین کو اس طرح کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

بھوپال کے ایک ہسپتال میں، جہاں تیسرے مرحلے کا ٹرائل کیا گیا تھا  2020 کے آخر میں مبینہ طور پر کوویکسین لینے کے بعد اس میں شامل ایک شخص کی موت ہو گئی تھی۔ حکومت نے تحقیقات کے بعد الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔ لیکن تحقیقات کے نتائج کو کبھی بھی عام نہیں کیا گیا – اور نہ ہی بھارت بایوٹیک کے سائنسدانوں نے دی لانسیٹ میں اپنے مقالے میں اس شخص کی موت کو ممکنہ طور پر سنگین منفی واقعہ کے طور پر درج کیا۔

درحقیقت پیپر شائع ہونے سے پہلے کمپنی نے دعویٰ کیا تھا کہ موت کا ویکسین سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن نہ تو کمپنی اور نہ ہی حکومت نے یہ بتایا کہ کیا اس شخص کو ویکسین یا پلیسبو ملا ہےیا نہیں ، اور نہ ہی یہ انکشاف کیاکہ وہ اس نتیجے پر کیسے پہنچے۔

ایک اور تنازعہ اس وقت کھڑا ہواتھا جب کوویکسین وہ ویکسین بن گئی جس نے ڈبلیو ایچ او کی منظوری حاصل کرنے میں سب سے زیادہ وقت لیا۔ ڈبلیو ایچ او اور بھارت بایوٹیک میں ویکسین اسسمنٹ یونٹ کے درمیان بات چیت کے کئی دور ہوئے کیونکہ یونٹ نے ویکسین کی افادیت اور تحفظ سے مطمئن ہونے سے پہلے بہت سارے ڈیٹا کا مطالبہ کیا تھا۔

اس کڑی میں مارچ 2021 میں برازیل کے ڈرگ ریگولیٹر اے این وی آئی ایس اےنے کمپنی کے ‘اچھے مینوفیکچرنگ طریقوں’ کے حوالے سے کئی مسائل اٹھائے تھے- اس میں ڈبلیو ایچ اوکی جانب سے اپریل 2022 میں ظاہر کیے گئے خدشات بھی شامل تھے۔ تاہم، اس بارے میں کوئی وضاحت نہیں تھی کہ کیا کوویکسین پراے این وی آئی ایس اے کے اعتراضات ڈبلیو ایچ او کے یکساں  بنیاد پر تھے: سی ڈی ایس سی او نے ویکسین کے خلاف ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مواد کو عوامی طور پر دستیاب کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن اے این وی ایس اے نے بعد میں برازیل میں ویکسین کی درآمد کی منظوری دے دی تھی۔

درحقیقت، جنوری 2021 میں حکومت ہند کی طرف سے کوویکسین کے لیے دی گئی منظوری ہی  متنازعہ تھی۔ اس وقت کوئی عبوری افادیت کا ڈیٹا دستیاب نہیں تھا، اور حکومت نے اسے ‘کلینکل ٹرائل موڈ’ کے طور پر منظوری دی تھی – یہ ایک ایسی اصطلاح تھی،  جس نے ماہرین کو الجھن میں ڈال دیا تھاکیوں کہ پہلے کبھی اس کااستعمال کسی نے نہیں کیا گیا تھا۔

منظوری کے بعد کے مہینوں میں کوویکسین کے بارے میں مزید ڈیٹا سامنے آیا – حالانکہ تیسرے مرحکے  کے ٹرائل اور اس کے نتائج کا پیپر کافی تاخیر کے ساتھ شائع ہوا تھا۔ اس وقت حکومت کی کووڈ رسپانس ٹیم میں شامل سائنسدانوں نے ٹرائل  میں جلدی  کرنےکے لیے کسی بھی غیر ضروری دباؤ کی تردید کی تھی – لیکن بھارت بایوٹیک کے موہن نے مبینہ طور پر اسٹیٹ کے سامنے  اس کا اعتراف کیا ہے۔

(اس رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)