خبریں

کشمیر: لشکر طیبہ کی دھمکی کے بعد پانچ صحافیوں نے نوکری چھوڑ ی

لشکر طیبہ کے مبینہ بلاگ پر شائع ہونے والا ایک دھمکی آمیز خط، جس کے اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے ہیں،اورجس میں 21 مالکان، مدیران  اور صحافیوں کا نام لیا گیا ہے، ان  میں سے زیادہ تر سری نگر کے تین میڈیا ہاؤس سے وابستہ ہیں۔

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر، فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: اطلاعات کے مطابق،کالعدم تنظیم لشکر طیبہ کی جانب سے مبینہ طور پر ملی دھمکیوں کی وجہ سے کشمیر میں رہنے والے پانچ صحافیوں کواپنی نوکریوں سے استعفیٰ دینا پڑا ہے۔

دی ٹیلی گراف کے مطابق، یہ دھمکیاں مبینہ طور پر لشکر طیبہ اور اس کی فرنٹل تنظیم دی ریسسٹنس فرنٹ(ٹی آر ایف ) کے ذریعے چلائے جانے والے بلاگ پر پوسٹ کی گئی تھیں۔

پولیس نے معاملے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔ سری نگر پولیس نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ تنظیموں کی طرف سے کشمیر کے نامہ نگاروں  اور صحافیوں کو  براہ راست ‘دھمکی آمیز خط’ بھیجا گیا تھا۔

پولیس نے تعزیرات ہند کی دفعہ 505، 153بی، 124اے اور 506 کے ساتھ یو اے پی اے  کی دفعہ 13 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔

ایک اہلکار نے این ڈی ٹی وی کو بتایا،ہم نے ٹی آر ایف  کے لیے  زمین پر کام کرنے والے  کارکن  ہونے کے شبہ میں کئی افراد کو گرفتار کیا ہے ۔ ان حراستوں کا تعلق میڈیا اداروں کو ملی  دھمکیوں سے نہیں ہے۔

ٹیلی گراف نے اطلاع دی ہے کہ جموں و کشمیر میں بلاگ تک رسائی حاصل نہیں کی جا سکتی ہے، لیکن ویب سائٹ پر شائع ہونے والے مبینہ خط کے اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق، اس میں 21 مالکان، مدیران  اور صحافیوں، بنیادی طور پر سری نگر کے  تین میڈیا ہاؤس – اخبار گریٹر کشمیر، رائزنگ کشمیر اور نیوز پورٹل اور سوشل میڈیا ٹی وی چینل ایشین نیوز نیٹ ورک کا ذکر کیا گیا۔ ان تینوں کو  صحافت کےمیدان میں آزاد میڈیا ہاؤس کا سرخیل سمجھا جاتا ہے۔

اس مبینہ خط میں وارننگ دی گئی تھی کہ ‘ان کا وقت آگیا ہے’۔اس کے ساتھ ہی خط میں مزید 76 لوگوں کی شناخت کا بھی دعویٰ کیا گیا تھا۔

مستعفی ہونے والے صحافیوں میں رائزنگ کشمیر کے تین صحافی جہانگیر صوفی، اشتیاق جو اور شہریار بخاری شامل ہیں۔ جہانگیر دی وائر کے لیے بھی لکھتے رہے ہیں۔

رائزنگ کشمیر کا آغاز سینئر صحافی شجاعت بخاری نے کیا تھا، جنہیں 2018 میں ان کے دفتر کے باہر حملہ آوروں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

کشمیر میں صحافی اکثر پریشان کن حالات میں کام کرتے رہے ہیں ،جہاں انہیں  شورش اور دہشت گردی کے خطرات سے نبردآزما ہونا پڑتا ہے، اس  کے ساتھ ساتھ انہوں نے کسی حکومت کی طرف سے اب تک کی سب سے طویل انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن کا سامنا کیا ہے، اور اپنی رپورٹنگ کے خلاف وحشیانہ حکومتی کارروائیوں کا بھی سامنا کیا ہے۔

Categories: خبریں

Tagged as: , , , ,