خبریں

ملک کے مشہور سینیٹری پیڈز میں نقصاندہ کیمیائی مادے، صحت کے لیے ہو سکتے ہیں مضر: رپورٹ

یہ رپورٹ ہندوستانی بازار میں بڑے پیمانے پر فروخت ہونے والے دس  طرح  کے سینیٹری پیڈز پر کیے گئے ٹیسٹ پر مبنی ہے۔

(تصویر: رائٹرس)

(تصویر: رائٹرس)

نئی دہلی: نئی دہلی کی ایک غیر منافع بخش تنظیم، ٹاکسکس لنکس کی ایک اسٹڈی  میں انکشاف ہوا ہے کہ ہندوستان  میں فروخت ہونے والے سینیٹری نیپکن کے زیادہ تر معروف  برانڈ میں نقصاندہ کیمیائی مادے ( کیمیکل)  ہوتے ہیں۔

سوموار، 21 نومبر کو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں پتہ چلا کہ ملک میں ان کیمیائی مادے (کیمیکلز) کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے کسی لازمی ضابطے کی عدم موجودگی میں، مینوفیکچررز شاید ہی اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ ان مادوں کے خواتین کی صحت پر کیا طویل مدتی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

‘ریپڈ ان سیکریسی’ کے عنوان سے شائع  اس رپورٹ میں ایک تفصیلی تحقیقات پیش کی گئی ہے، جو محققین نے دو مخصوص کیمیکلز — تھیلیٹس اور مستحکم نامیاتی کمپاؤنڈ (وی او سی )کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے کی تھی۔

تھیلیٹس کا استعمال  مختلف مصنوعات میں پلاسٹکائزر کے طور پر کیا جاتا ہے۔ پلاسٹکائزر وہ کیمیکل ہیں جو کسی پروڈکٹ کو نرم، لچکدار بنانے اور سطح پر اس کی رگڑ کو کم کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔  تقریباً ایک صدی سے پلاسٹک کی مختلف مصنوعات میں اس کا استعمال ہو رہا ہے۔

رپورٹ کے مصنفین کا دعویٰ ہے کہ انہیں سینیٹری پیڈز میں ان کی مختلف تہوں کو باندھنے اور ان کی لچک بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ محققین نے مارکیٹ میں دستیاب 10 الگ طرح کے سینیٹری پیڈز – نامیاتی اور غیر نامیاتی – کوٹیسٹ کیا۔ انہوں نے رپورٹ میں ان مصنوعات میں سے ہر ایک کے لیے پائے جانے والےتھیلیٹس اوروی او سی  کی مقدار کو الگ الگ  پیش کیا ہے۔

رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والے دوسینیٹری پیڈز میں چھ طرح کےتھیلیٹس ہوتے ہیں۔تھیلیٹس کی کل مقدار 10 سے 19600 مائیکرو گرام فی کلوگرام تک تھی، اور ان مصنوعات میں کل 12 طرح کے الگ الگ تھیلیٹس پائے گئے۔

مختلف سائنسی مطالعات کا حوالہ دیتے ہوئےرپورٹ میں تھیلیٹس سے ہونے والے کئی صحت کے خطرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس میں اینڈومیٹرائیوسس، حمل سے متعلق پیچیدگیاں، جنین کی نشوونما کے مسائل، انسولین ریسسٹنس، ہائی بلڈ پریشر جیسے بہت سے مسائل شامل ہیں۔ تاہم اس رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کے اثرات کتنے واضح ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک پریتی مہیش نے کہا کہ یہ دستاویز کسی بھی طرح سے یہ دعویٰ نہیں کرتی ہے کہ صرف سینیٹری پیڈ ہی کسی کوتھیلیٹس کے ساتھ رابطے میں لاتے ہیں۔انہوں نے بتایا، یہ خطرہ بہت سے دوسرے طریقوں سے بھی ممکن ہے، لیکن اندام نہانی کے ٹشوز (نسیج) کی جلد باقی ٹشوز سے زیادہ حساس ہوتی ہیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیاتھیلیٹس کا کوئی متبادل نہیں ہے، پریتی، جوٹاکسکس لنکس کی چیف پروگرام کوآرڈینیٹر بھی ہیں، انہوں  نے دی وائر کو بتایا،  ہے تو، لیکن تھیلیٹس بہت  آسانی سے دستیاب ہیں۔ چونکہ کوئی ضابطہ نہیں ہے، اس لیے صنعتوں کی جانب سے دیگر آپشنز پر غور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا، کیاتھیلیٹس کے متبادل پیداواری عمل کو تبدیل کر دیں گے یا پیڈز سے ان کے ہٹانے سے ان کی بنیادی فعالیت متاثر ہوگی – یہ وہ دو سوالات ہیں جن سے صنعتیں دو چار  ہیں۔

ٹاکسکس لنکس نے رپورٹ جاری کرنے سے پہلے ان کمپنیوں کو نہیں لکھا تھا۔ پریتی مہیش نے کہا کہ رپورٹ جاری ہونے کے بعد اب ایسا کریں گے۔

سینیٹری پیڈز میں تھیلیٹس کی موجودگی کو کئی دیگر مطالعات میں بھی اجاگر کیا گیا ہے، لیکن تقریباً تمام مطالعات ہندوستان سے باہر فروخت ہونے والی مصنوعات کے لیے کیے گئے تھے۔ 2020 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں امریکہ میں فروخت ہونے والے پیڈز میں ان نقصاندہ کیمیکلز(کیمیائی مادے)  کی موجودگی کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ 2020 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق میں چین میں فروخت ہونے والی ماہواری سےمتعلق مصنوعات کے بارے میں بھی اسی طرح کے نتائج پائے گئے۔ ان دو مطالعات کے علاوہ اس طرح کے کئی مطالعات کو رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

نیپکن میں پایا جانے والا ایک تشویشناک کیمیکل وی او سی بھی ہے۔ یہ کیمیکل ہوا میں آسانی سے بخارات بن جاتے ہیں۔ یہ زیادہ تر پینٹ، ڈیوڈورنٹ، ایئر فریشنرز، نیل پالش، کیڑے مار ادویات، ایندھن اور آٹوموٹو مصنوعات میں استعمال ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ صحت کے لیے مضر ہو سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ انہیں سینیٹری نیپکن میں خوشبو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

پچیس  (25) طرح کے وی او سی  کی  جانچ کے لیے دس سینیٹری نیپکن پروڈکٹس کو ٹیسٹ کیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان 25 وی او سی  میں سے دماغی کام کو متاثر کرنے سے لے کر جلد کی سوزش، خون کی کمی، جگر اور گردوں کی خرابی سے لے کر تھکاوٹ اور بے ہوشی تک بہت سے نقصاندہ اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔

ٹاکسکس لنکس کے محققین نے جانچ کی گئی تمام مصنوعات میں وزن (پروڈکٹ)کے لحاظ سے 1-690 مائیکروگرام فی کلوگرام  کی حد میں وی او سی کا پتہ لگایا۔ دو مقبول ترین مصنوعات میں 14 وی او سی  پائے گئے۔ کچھ نامیاتی پیڈز میں غیر نامیاتی پیڈز سے زیادہ وی او سی  پائے گئے۔

سینیٹری نیپکن میں وی او سی  کی موجودگی کی جانچ کرنے والا یہ پہلا مطالعہ نہیں تھا، لیکن تمام سابقہ مطالعہ ہندوستان سے باہر فروخت ہونے والی مصنوعات پر کیے گئے تھے۔ 2020 میں شائع ہونے والی ایک تحقیق امریکہ میں کی گئی تھی، جس میں خواتین کی حفظان صحت سے متعلق تمام مصنوعات میں وی او سی  پائے گئے۔ اس رپورٹ میں اس طرح کے کئی اور مطالعات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔

سال 2017 میں جنوبی کوریا میں خواتین کے ایک بڑے گروپ نے مبینہ طور پروی او سی ہونے کو لے کر ایک نیپکن بنانے والی فرم کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔ ان کے احتجاج کے نتیجے میں مصنوعات کو مارکیٹ سے واپس لے لیا گیا تھا۔ امریکہ میں خواتین کے ایک اور گروپ نے 2014 میں شروع کی گئی تحقیقات میں اسی طرح کے نتائج جاری کیے تھے۔

قانونی خامیاں

سینیٹری مصنوعات میں کیمیکلز(کیمیائی مادے)کی موجودگی کو کنٹرول کرنے والے قوانین دنیا بھر میں کم و بیش کمزور ہیں۔ یہاں تک کہ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے ضوابط بھی ان مصنوعات کے لیے لازمی نہیں ہیں۔ فرانس، آسٹریلیا اور چین میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش ہے۔ صرف یورپی یونین (ای یو) اور جنوبی کوریا کے پاس کچھ قانونی طور پر پابند ضابطے ہیں۔ یورپی یونین میں تھیلیٹس اس اشیا میں موجود پلاسٹکائزڈ مواد کے وزن سے 0.1فیصد تک محدود ہے۔ جنوبی کوریا میں ان پر پابندی ہے۔

ہندوستان میں سینیٹری مصنوعات میں کیمیکلز کی موجودگی کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔ بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈز (بی آئی ایس 1980 جاذب سطح اور پیڈ کی ساخت کے لیے ایک بہت ہی بنیادی ٹیسٹ پیش کرتا ہے، لیکن اس میں استعمال شدہ اجزاء کے  زہریلے ہونے کی جانچ کے لیے کوئی شرط یا طریقہ کار طے نہیں ہے۔

آج  کی تاریخ میں بی آئی ایس جو بھی معیارات مرتب کرتا ہے – حالانکہ ان کا کیمیکلز سے کوئی تعلق نہیں ہے – وہ لازمی نہیں ہیں۔

پریتی کہتی ہیں، ہمارے نتائج واضح طور پر بتاتے ہیں کہ وقت آگیا ہے کہ حکومت اس بارے میں  معیار بنائے اور انہیں لازمی بنائے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ معیار ان کی ایک خاص حد میں موجودگی سے لے کر ان پر مکمل پابندی عائد کرنے تک  کے لیے ہو سکتے ہیں۔ پریتی نے کہا، لیکن ایسا کچھ کرنے کے لیے حکومت کو پہلے ایک مطالعہ کرنا پڑے گا۔ ہمارے مطالعہ نے صرف دو کیمیکلز (کیمیائی مادے) اور چند مصنوعات کا ٹیسٹ  کیا ہے۔ حکومت کو تمام کیمیکلز اور تمام سینیٹری مصنوعات کے ڈیٹا کی ضرورت ہوگی۔

ایک اور سفارش جو پریتی کرتی ہیں، اور جو  خواتین کے مختلف گروپوں کے مطالبات سے ملتی جلتی ہے، یہ ہے کہ ان مصنوعات کی ‘لیبلنگ’ کی جائے۔ آج ہندوستانی مارکیٹ میں دستیاب سینیٹری مصنوعات میں سے کسی پر بھی ایسا لیبل نہیں ہے جس میں کہا گیا ہو کہ ان میں تھیلیٹس اوروی او سی ہیں۔ پریتی کہتی ہیں، ‘کم از کم ہمیں یہ  جاننے کا حق  توہے’۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اس بات سے پریشان نہیں ہیں کہ  یہ رپورٹ  سینیٹری نیپکن کو خراب روشنی میں دکھاسکتی ہے اور ان کے استعمال کے بارے میں خواتین کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے، انہوں  نے کہا، ہم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ سینیٹری نیپکن کے مقابلے میں کوئی اور سینیٹری پروڈکٹ بہتر ہے یا نہیں۔ ان میں کیمیکل ہو سکتے ہیں اورنہیں  بھی – یہ بھی تحقیقات کا معاملہ ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ‘اس مطالعے کے ذریعے ہم جو چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس تقریباً مکمل طور پر نظرانداز کیے گئے موضوع پر بحث شروع کی جائے۔’

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔