فکر و نظر

ہندو انتہا پسند تنظیم آر ایس ایس کی مغرب میں پذیرائی

آر ایس ایس،  ایچ ایس ایس اور دیگر تنظیمیں اب 48 ممالک میں سرگرم ہیں۔ امریکہ میں ایچ ایس ایس نے  32 ریاستوں میں  222 شاکھائیں قائم کی ہیں۔کیا وقت نہیں آیا ہے کہ مغرب کو بتایا جائے  کہ جس فاشزم کو انہوں نے شکست دی تھی، وہ کس طرح ان کی چھتر چھایا میں دوبارہ پنپ رہا ہے اور جلد ہی امن عالم کے لیے ایک شدید خطرہ ثابت ہو سکتا ہے؟

علامتی تصویر،فوٹو: رائٹرس

علامتی تصویر،فوٹو: رائٹرس

 یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ برطانوی شہر لیسٹر میں جب ستمبر میں اس ملک کی تاریخ کا پہلا ہندو–مسلم فساد برپا ہوا، اس سے قبل ہندوانتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کئی لیڈران اس ملک کے دورے پر تھے۔

اس فساد کا طریق واردات اسی طرح کا تھا، جس طرح عام طور پرہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات برپا کروانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ یعنی کہ مسلم علاقوں سے زبردستی جلوس نکلوا کر جان بوجھ کر اشتعال انگیز نعرے لگوا کر مسلمانوں کو رد عمل کرنے کے لیے مجبور کروانا۔

صحافت میں اپنے تیس سالہ کیریر میں، میں نے کئی فسادات کور کیے ہیں۔ کم و بیش سب کی کہانیاں ایک جیسی ہی ہوتی تھیں۔ کبھی رام نومی، تو کبھی گنیش تو بھی کسی اور جلوس کو زبردستی مسلم علاقوں سے گزارنا، یا کسی مسجد کے پاس عین نماز کے وقت اس جلوس کو روک کر بلند آواز میں ڈی جے بجانا وغیرہ۔

ایک اور اتفاق یہ ہوتا تھا کہ اس جلوس یا فساد سے قبل اسی شہر یا علاقے میں آر ایس ایس یا اس سے وابستہ کسی تنظیم کا اجتماع ہوتا تھا اور واردات کے وقت پولیس غائب ہوجاتی تھی، تاکہ فسادیوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا جائے۔

پولیس کی آمد کا وقت بھی اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ فساد میں کس کا پلڑا بھاری ہو رہا ہے، اور پھر موقع پر پہنچ کرمسلمانوں کو ہی غضب کا نشانہ بناتی ہے۔ایک سینئر پولیس آفیسروبھوتی نارائن رائے، جو خیر سے ایک مصنف بھی ہیں، نے فسادات میں ہندوستانی پولیس کے رویہ پر ڈاکٹریٹ کے لیے مقالہ  سپرد قلم کیا ہے۔

ہندوستان میں جتیند نارائن کمیشن سے لےکر سری کرشنا کمیشن تک یعنی فسادات کی تحقیق کے لیے جتنے بھی کمیشن یا کمیٹیاں آج تک بنی  ہیں،ان سب نے آر ایس ایس یا اس سے وابستہ کسی نہ کسی تنظیم کو قتل و غارت یا لوٹ مار کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

مگر کیا کریں یورپی ممالک کا، جو آج کل ویزا حاصل کرنے والوں سے لمبی چوڑی ضمانتیں اور بیان حلفی لیتے ہیں کہ ان کا تعلق کسی انتہا پسند تنظیم کے ساتھ ہے نہ وہ کسی بنیاد پرست سوچ یا کسی ایسی تنظیم کی حمایت کرتے ہیں، مگر نہ جانے کیوں انہوں نے ہندو انتہاپسند تنظیموں کو اس زمرے سے خارج کیا ہوا ہے۔

میں نے دیکھا ہے کہ متعدد تجزیہ کار کئی بار ہندوستان کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو یورپ کی دائیں بازو کی قدامت مگر غیر فرقہ پرست جماعتوں یعنی جرمنی کی کرسچن ڈیموکریٹ یا برطانیہ کی ٹوری پارٹی سے تشبہہ دیتے ہیں۔ مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ بی جے پی کی کمان اس کے اپنے ہاتھوں میں نہیں ہے۔

اس کی طاقت کا اصل سرچشمہ اور نکیل ہندو قوم پرستوں کی مربیً تنظیم آر ایس ایس کے پاس ہے، جو بلاشبہ فی الوقت دنیا کی سب سے بڑی خفیہ تنظیم ہے، جس کے مالی وانتظامی معاملات کے بارے میں بہت ہی کم معلومات  منظر عام پر ہیں۔

چند برس قبل تو برطانیہ کی ہندو ممبر پارلیامنٹ پریتی پٹیل کا ایک خط منظر عام پر آیا تھا، جس میں اس نے آرایس ایس کے جوائنٹ جنرل سکریٹری دتا رے ہوشبولے کی برطانیہ آمد پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے برطانوی حکومت سے درخواست کی تھی کہ ان کا استقبال کیا جائے۔

آر ایس ایس کی بیرو ن ملک شاخ ہندو سیوا سنگھ یعنی ایچ ایس ایس نے ہوشبولے کو لندن میں ایک پروگرام  آر ایس ایس: اے وژن ان ایکسن– اے نیو ڈان کی صدارت کرنے کے لیے مدعو کیا تھا۔ یہ ممالک  2014سے قبل تک تو وزیر اعظم نریندر مودی، جو تب تک گجرات صوبہ کے وزیر اعلیٰ تھے، کو ویز ا نہیں دیتے تھے، آج کل آرایس ایس اور اس کی ضمنی تنظیموں کے لیڈران کی پذیرائی کرتے نظر آتے ہیں۔

حیرت کا مقام ہے کہ مغرب نے جس فاشسٹ نظریہ کو 1945میں شکست دیکر ایک جمہوری، لبرل اور تکثیری معاشرہ کو تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی،حتیٰ کہ کئی ملکوں میں اس معاشرہ کوقابل قبول بنوانے کے لیے فنڈنگ سے لےکر فوجی چڑھائی بھی کی، آخر کس طرح ہندوستان میں پنپتے فاشز م سے اس نے نہ صرف آنکھیں موند لی ہیں، بلکہ ا پنے ملکوں میں بھی اس نظریہ کی تبلیغ کی اجاز ت دے کر اس سے وابستہ لیڈروں کو گلے بھی لگا رہے ہیں۔

خیربرطانیہ میں رونما ہونے والے ان  فسادات سے عندیہ ملتا ہے کہ ہندو توا نظریہ نے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوؤں میں جگہ بنا کر ہندوستان کی سرحدیں عبور کر لی ہیں۔ برطانیہ میں ہندوستانی  نژاد آبادی کل آبادی کا 2.5فیصد اور پاکستانی نژاد1.5فیصد ہے۔ امریکہ میں 2.7ملین ہندوستانی نژاد آبادی ہے۔ میکسیکن کے بعد یہ شاید تارکین وطن کی یہ سب سے بڑی آبادی ہے اور یہ خاصے تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہیں۔

آر ایس ایس کی دیگر شاخیں یعنی وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) بھی ان ملکوں میں خاصی سرگرم ہے، اور یاد رہے کہ یہ تنظیم 1992میں بابری مسجد کی مسماری میں شامل تھی۔جس کی وجہ سے اس پر ہندوستان میں کچھ سال تک پابندی بھی لگی تھی۔ اس دوران جب پولیس اور دیگر تفتیشی اداروں نے اس کے دفاتر کی دہلی اور دیگر شہروں میں تلاشی لی تو معلوم ہوا کہ بابری مسجد کی مسماری کے لیے فنڈنگ ہی یورپ اور خلیجی ممالک سے آئی تھی۔

 دراصل وی ڈی ساورکر، جس نے اصل میں دو قومی نظریے کی بنیاد رکھی تھی اور جو ہندو توا نظریہ کے خالق ہیں، نے ہندوؤں پر زور دیا تھا کہ وہ نئی زمینیں تلاش کرکے ان کو نو آبادیوں میں تبدیل کریں۔ ان کو رہ رہ کر یہ خیال ستاتا تھا کہ مسلمان او ر عیسائی دنیا کے ایک وسیع رقبہ میں پھیلے ہوئے ہیں اور ہندو صرف جنوبی ایشیاء میں ہندوستان  اور نیپال تک ہی محدود ہیں۔ اپنی کتاب میں وہ آر ایس ایس کے اکھنڈ بھارت کے فلسفہ سے ایک قدم آگے جاکر عالمی ہندو نظام یا سلطنت کی وکالت کرتے ہیں۔

ایک صدی بعد اس وقت آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں اس نظریہ کو عملاً نافذ کروانے کا کام کررہی ہیں۔ گو کہ یہ تنظیمیں یورپ میں 1960سے ہی کام کرتی ہیں، مگر ان کا دائرہ  2014میں مودی کے برسر اقتدار میں آنے کے بعد وسیع اور فعال ہو گیا۔ آر ایس ایس،  ایچ ایس ایس اور دیگر تنظیمیں اب 48ممالک میں سرگرم ہیں۔ امریکہ میں ایچ ایس ایس نے 32ریاستوں میں 222شاکھائیں قائم کی ہیں اور اپنے آپ کو ہندو فرقہ کے نمائندہ کے بطور پیش کیا ہوا ہے۔

متحدہ امارات اور دیگر خلیجی ممالک میں بھی وہ سرگرم ہیں۔ ابھی حال ہی میں آر ایس ایس کی تھنک ٹینک انڈیا فاؤنڈیشن کے ذمہ داروں نے ترکیہ کا دورہ کرکے وہاں حکومتی شخصیات اور تھنک ٹینک کے ذمہ داروں سے بات چیت کی، جو کہ نہایت ہی چونکا دینے ولا واقعہ ہے اور اس کا نوٹس لینے کی اشد ضرورت ہے۔

آر ایس ایس افریقی ملک کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے۔ کینیا کی شاکھاؤں کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ‘ یوگنڈا‘ موریشش اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک کے ہندوؤں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ان کی پانچ شاکھائیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔

چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے اس لیے وہاں کی شاکھائیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں اور اکثر یوگا کے نام پر اجتماع منعقد کرتے ہیں۔ فن لینڈ میں ایک الیکٹرانک شاکھا ہے جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے بیس ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں۔ یہ ممالک وہ ہیں جہاں پر آر ایس ایس کی باضابطہ شاکھا موجود نہیں ہے۔


یہ بھی پڑھیں:  ملک میں پھیلی فرقہ پرستی کا وائرس اب تارکین وطن تک رسائی حاصل کر چکا ہے


امریکی تنظیم کی ایک رپورٹ ہندو نیشنلسٹ انفلوینس ان دی یو ایس میں بتایا گیا کہ 2001سے 2019 تک سنگھ سے وابستہ سات تنظیموں نے امریکہ میں 158.9ملین ڈالر اکٹھے کیے، جس میں اکثر رقم ہندوستان میں نفرت پھیلانے میں خرچ کی گئی۔ تیرہ ملین ڈالر تو ایک تنظیم سولائیزیشن فاؤنڈیشن کو دیے گئے، تاکہ امریکی یونیورسٹیوں میں تحقیقی کاموں پر اثر انداز ہوں۔

ٹیکس گوشواروں کے مطابق ایک تنظیم اوبیرائی فاؤنڈیشن نے امریکی ریاستوں میں نصابی کتابوں اور اساتذہ کی ٹریننگ پر چھ لاکھ ڈالر خرچ کیے ان میں سے ڈیڑھ لاکھ ڈالر کیلی فورنیا کے اسکولوں پر خرچ کیے گئے۔  اسی تنظیم نے سان ڈیاگو اسٹیٹ یونیورسٹی کو تحقیق کے لیے کم از کم $68000 دیے۔ جس میں سکھ مت، جین مت، بدھ مت اور ہندو مت کی چار دھرم روایات میں کام کرنے والے اسکالرزکے بارے میں معلومات کا ڈیٹا بیس بنانے کا ایک پروجیکٹ بھی شامل تھا۔

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق کئی تنظیموں کو ہندوستانی حکومت نے ہر ماہ پندرہ ہزار سے 58ہزار ڈالر مختلف امریکی ادارو ں میں لابی کرنے کے لیے دیے۔امریکہ میں سرگرم سنگھ سے وابستہ 24تنظیموں نے اپنے گوشواروں میں 97.7ملین ڈالر اثاثے ظاہر کیے ہیں، جس میں وشو ہندو پریشد کی امریکی شاخ کے پاس 5.3ملین ڈالر تھے۔

نومبر 2020 کو سنگھ نے دیوالی منانے کے لیے  ایک ورچوئل جشن منعقد کیا جس میں سان فرانسسکو علاقہ ا کے آٹھ میئرزاور دیگر منتخب افراد نے شرکت کی، جن میں  کارلا براؤن (پلیزنٹن)؛ سنجے گیہانی (فوسٹر سٹی)؛ باربرا ہالیڈے (ہیورڈ)؛ میلیسا ہرنینڈز (ڈبلن)؛ ڈیو ہڈسن (سان رامون)؛ للی میئی (فریمونٹ)؛ ایلن ایل ناگی (نیوارک)؛ اور باب وومر (لیورمور)شامل تھے۔

سال 2001-2012 کے درمیان سنگھ سے منسلک پانچ اداروں  ایکل ودیالیہ فاؤنڈیشن آف یو ایس اے، انڈیا ڈیولپمنٹ اینڈ ریلیف فنڈ، پرم شکتی پیٹھ، سیوا انٹرنیشنل، امریکہ کی وشو ہندو پریشد کے ذریعے امریکہ سے 55 ملین ڈالر ہندوستان  منتقل کیے گئے۔ یہ سبھی تنظیمیں ہندوستان میں اقلیتوں پر حملوں اور سماجی پولرائزیشن کی خلیج وسیع کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

ہندوستانی  تارکین وطن کا دوغلا پن کس حد تک ظاہر ہوتا ہے کہ جن ممالک میں یہ رہتے ہیں وہاں وہ لبر ل اور جمہوری نظام کے نقیب اور اقلیتوں کے محافظ کے بطور اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ مگر ہندوستان میں ان کا رویہ اس کے برعکس رہتا ہے۔ مغرب یا خلیجی ممالک میں وہ غیر سرکاری تنظیموں کو کام کرنے کی آزادی کے خواہاں ہیں،مگر ہندوستان  میں مودی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق و دیگر 250  تنظیموں پر بیرون ملک سے فنڈ حاصل کرنے پر پابندی لگانے کی حمایت کرتے ہیں۔

حتیٰ کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسے ادارے کے اثاثے بھارت میں منجمد کردیےگئے۔کسی اور ملک میں اس طرح کا قدم تو عالمی پابندیوں کو دعوت دینے کا مترادف تھا۔  ہندوستانی تارکین وطن اور سفارت کار دنیا بھر میں موہن داس کرم چند گاندھی المعروف مہاتما گاندھی کو مورال کمپاس یا آئی کان کے بطور پیش کرتے ہیں، مگر اپنے ملک کے اندر گاندھی کے قاتل ناتھو را م گوڑسے اور اس قتل کے منصوبہ سازوں، جن میں ویر ساورکر اور آر ایس ایس سے وابستہ افراد بھی شامل ہیں، کی پذیرائی کرتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں ہندوستانی فلم ایکٹریس پرینکا چوپڑہ، جو اقوام متحدہ کی ایک اعزازی سفیر بھی ہے نے ایرانی خواتین کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ حجاب نہ پہننے کے لیے ان کو انتخاب کی آزادی ہونی چاہیے،مگر بس چند ماہ قبل ہی ہندوستان میں حجاب پہننے پر جس طرح مسلم لڑکیوں کو نشانہ بنایا گیا اور ان کے نام تک اسکولوں سے کاٹ دیے گئے اور کئی کو تو امتحان ہالوں میں داخلہ نہیں دیا گیا، تو ان کے آزادی انتخاب پر ان کے لبوں کو جنبش بھی نہیں ہوئی۔

کانگریس پارٹی کی بیرون ملک شاخ کے ایک لیڈر کمل دھالیوال کے مطابق جو طالب علم آجکل ہندوستان سے یورپ یا امریکہ کی درسگاہوں میں آتے ہیں، لگتا ہے کہ جیسے ان کی برین واشنگ کی گئی ہو۔ صحافی روہنی سنگھ کو دیے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ نظریاتی طور پر ان کی پرورش ہندو قوم پرستی کے خول میں ہوئی ہے اور وہ اس نظریہ کو اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں، جس میں مسلمانوں کے ساتھ نفرت کا عنصر نمایا ں ہوتا ہے۔ ان میں سے تو ہر کوئی ہندوستان سے چلنے والے کسی نہ کسی وہاٹس ایپ گروپ کا ممبر ہوتا ہے، جہاں اقلیتوں کے خلاف روزانہ ہرزہ سرائی کی جاتی ہے۔

معروف مصنف اور قانون دان اے جی نورانی کی500صفحات پر مشتمل ضخیم تصنیف دی آر ایس ایس : اے مینیک ٹو انڈیا میں بتایا گیا ہے کہ اس تنظیم کی فلاسفی ہی فرقہ واریت، جمہوریت مخالف اور فاشزم پر ٹکی ہے۔ سیاست میں چونکہ کئی بار سمجھوتوں اور مصالحت سے کام لینا پڑتا ہے اس لیے اس میدان میں براہ راست کودنے کے بجائے اس نے 1951میں جن سنگھ اور پھر 1980میں بی جے پی تشکیل دی۔

بی جے پی پر اس کی گرفت کے حوالے سے نورانی کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کی ایما پر اس کے تین نہایت طاقتور صدور ماولی چندر ا شرما، بلراج مدھوک اور ایل کے اڈوانی کو برخاست کیا گیاتھا۔ اڈوانی کا قصور تھا کہ 2005میں کراچی میں انہوں نے بانی پاکستان محمد علی جناح  کے مزار پر حاضری دےکر ان کو ایک عظیم شخصیت قرار دیا تھا۔

مصنف کی دلیل ہے کہ جو افراد بی جے پی کو یورپ کی قدامت پسند جماعتوں کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں، وہ اس پارٹی کی تاریخ اور تنظیم سے واقف نہیں ہیں۔ ان کے لیے عرض ہے  ”کہ آپ پوپ کو کبھی پروٹسٹنٹ نہیں بنا سکتے ہیں۔ تنظیم کی فلاسفی اور بنیاد ہی فرقہ وارانہ خطوط پر ٹکی ہے۔“

سال 2019میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم عمرا ن خان نے دنیا کو آر ایس ایس اور اس کے عزائم سے خبردار کیا تھا۔اس تقریر نے اس قدر اثرکیا تھا کہ آرایس ایس کے سربراہ کو پہلی بار دہلی میں غیر ملکی صحافیوں کے کلب میں آکر میٹنگ کرکے وضاحتیں دینی پڑی۔ ورنہ آر ایس ایس کا سربراہ کبھی میڈیا کے سامنے پیش نہیں ہوتا ہے۔

مگر شاید پاکستانی حکمرانوں کی تقدیر میں گفتار کے غازی کا ہوناہی لکھا ہے یا وہ صرف بس ایونٹ مینجمنٹ پر یقین رکھتے ہیں۔ تقریر کے بعد واہ واہی لوٹ کر خوش ہو جاتے ہیں۔ اپنی تقریر کا  فالو اپ کرنے کی بھی ان کو توفیق نصیب نہیں ہوتی ہے۔

کیا وقت نہیں آیا ہے کہ مغرب کو بتایا جائے کہ جس فاشزم کو انہوں نے شکست دی تھی، وہ کس طرح ا ن کی چھتر چھایا میں دوبارہ پنپ رہا ہے اور جلد ہی امن عالم کے لیے ایک شدید خطرہ ثابت ہو سکتا ہے؟