ادبستان

کرشن چندر کی کہانی خواجہ احمد عباس کی زبانی

یوم پیدائش پر خاص: وقت پڑنے پر کانگریسیوں کا ساتھ بھی دیا ہے، سوشلسٹوں کا بھی، کمیونسٹوں کا بھی۔ وہ ہر ترقی پسند اور انقلابی پارٹی کے ساتھ ہے۔ مگر کسی پارٹی میں نہیں ہے۔ وہ دھرم، مذہب، ذات پات کے بندھنوں سے آزاد ہے۔ سامراج اور فرقہ پرستی کا دشمن ہے، عوام اور اشتراکیت کا ساتھی ہے۔ وہ یہ سب کچھ ہے۔ اسی لیے میرا دوست ہے۔ ایسا دوست جسے سچ مچ ہم دم کہا جا سکتا ہے۔ ورنہ ’دوست‘ تو بازار میں ٹکے سیر ملتے ہیں۔

خواجہ احمد عباس اور کرشن چندر

خواجہ احمد عباس اور کرشن چندر

جب میں اس سے نہیں ملا تھا تو مجھے اس کے نام ہی سے ہی اچھی خاصی چڑ  تھی۔ ایک تو اس لیے کہ اس کے نام کے ساتھ اس کی ڈگری کا دُم چَھلا لگا رہتا تھا۔’کر شن چند ایم –اے’! ہُنہ— یہ بھی کو ئی با ت ہوئی (میں دل ہی دل میں سوچتا) ارے بھئی تم ایم–اے ہو تو ہم کیا کر یں ۔ کا لی داس نے کبھی ‘ودیا النکار ‘ ہو نے کا دعویٰ نہیں کیا ۔ شیکسپیر بیچارہ تو میٹرک بھی نہیں تھا ۔ اگر کو ئی کہے کہ آرمس اینڈ دی مین کا ڈرامہ ‘بر ناڈ شاہ بی–اے’ نے لکھا ہے تو کیا سب ہنسیں گے نہیں ؟ تو پھر کر شن چندر ایم–اے کون بلا ہے ؟

اور پھر دلی کے پرانے ریڈیو اسٹیشن میں ایک دن اس ‘بلا’ سے ملاقات ہو گئی اور ماننا پڑا کہ وہ ہے’خوبصورت بلا’ ۔ ویسے اس سے پہلے بھی میں نے کرشن چند ر کی تصویر کسی رسالے میں چھپی ہو ئی دیکھی تھی۔ بڑی بڑی چمکیلی آنکھیں ، اُونچی پیشانی ، کالے گھنے اور کچھ گھونگر یالے بال،کوٹ ، پتلون، ٹائی میں کافی اسمارٹ لگتا تھا۔’تب ہی تو کالج کی چھوکریاں اس کے افسانے پڑھ پڑھ کر لٹّو ہو جاتی ہیں’۔میں نے سوچا تھا اور مجھے اس سے جو چڑتھی وہ اور گہری ہو گئی تھی ۔ مگر میں نے یہ سوچ کر اپنے دل کو تسلی دے لی تھی کہ ضرور تصویر کو فوٹو گرافر سے— ری ٹچ کرایا گیا ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اتنے اچھے رُومانٹک افسانے بھی لکھتا ہو اور ساتھ میں اس کی صورت شکل بھی اتنی اچھی اور رومانٹک ہو!

اور جب میں اس سے ملا اور میں نے دیکھا کہ یہ کمبخت تو سچ مچ اتنا خوبصورت ہے تو مجھے اس سے اور بھی چڑ ہو گئی۔ اے خدا! یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک آدمی کی اتنی اچھی صورت بھی ہو، اور اس کے قلم میں اتنا جادو بھی ہو کہ پڑھنے والے( اور پڑھنے والوں سے زیادہ پڑھنے والیاں ) صرف اس کے افسانے پڑھ کر ہی اس پر عاشق ہو جائیں ؟

ان دنوں دلی کا ریڈیو اسٹیشن کشمیری دروازے کے باہر ایک چھوٹے سے بنگلے میں تھا ۔ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ دلی اسٹیشن اچھا خاصا ادبی مر کز بنا ہوا  تھا ۔ کرشن چندر ، سعادت حسن منٹو، اُپندر ناتھ اشک، تینوں وہاں کام کرتے تھے ، مجاز ریڈیو کے اردو میگزین ‘آواز’ کے ایڈیٹر تھے۔فیض احمد فیض اور چراغ حسن حسرت دونوں شاعر فوجی وردی پہنے وہاں اکثر مو جود رہتے تھے۔ مگر پہلی نظر ہی میں معلوم ہو گیا کہ اس ادبی حلقے کا مر کز یہ کمبخت ‘کرشن چندر ایم–اے’ ہی ہے۔ شر بتی چمکیلی آنکھوں والا کر شن چندر ، جو خوبصورت شکل سے اپنی رومانٹک کہانیوں کا ہیرو نظر آتا تھا ، اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس کے اور اپنے قد کا اندازہ کیا اور یہ دیکھ کر کسی قدر اطمینان کا سانس لیا کہ وہ بھی میری طرح ٹھنگنا ہی ہے ۔ مُطلبی فریدآبادی یا راہول سنکرتائن کی طرح لمبا چوڑا پہلوان نہیں ہے۔

اور اب کہ اس ملاقات کو انتیس برس ہو چکے ہیں اور کر شن چندر کے چمکیلے سیاہ بال اس کی چند یا سے غائب ہو تے جارہے ہیں ، اور جو رہے سہے بال ہیں وہ بھی سوکھے ، سخت اور اجاڑ ہو گئے ہیں ، اور عینک کے موٹے موٹے ‘کانچ کے ٹکڑوں ‘ کے پیچھے اس کی آنکھیں باون برس تک دنیا کے اندھیرے اجالے کو دیکھ دیکھ کر اندر دھنس گئی ہیں، اور اس کے ہشاش بشاش چہرے پر سوچ ، پریشانی، محنت اور دوڑ دھوپ نے گہری لکیریں ڈال دی ہیں ۔ مجھے اب بھی اس سے ویسی ہی چڑ ہے، دل ہی دل میں اس سے اب بھی جلتا ہوں ، کیوں؟—  اس لیے کہ باون برس کی عمر میں اس کے قلم کا جادو آج بھی جوان ہے، آج بھی اس کی کہانیاں اور کتابیں پڑھ کر کا لج کی لڑکیاں بن دیکھے اس پر عاشق ہو جاتی ہیں ۔ صرف ہندوستان ہی میں نہیں دوسرے دیشوں میں بھی!

کئی برس ہوئے —میں اور سردار جعفری دونوں ماسکو میں تھے اور وہاں سے کرشن چندر کو خط پر خط اور تار پر تار بھیج رہے تھے کہ بھئی توبھی کسی طرح یہاں پہنچ جا کہ ہماری مثلث پوری ہو جائے۔ ماسکو یو نیورسٹی کے ایشیا ئی زبانوں کے ایک کالج نے ہمیں دعوت دی تھی کہ ہم اردو ادب کے بارے میں کچھ کہیں ۔سو، سواسو نو جوان لڑکے اور لڑکیاں جو ہمیں سننے آئے وہ سب اُردو یا  ہندی پڑھ رہے تھے ۔ جب میں اپنی تقریر ختم کر چکا تو انھوں نے سوال کرنے شروع کیے۔ سوال کر نے والیاں زیادہ تر لڑکیاں تھیں اور ان کے سوال زیادہ تر کرشن چندر کے بارے میں تھے ۔ انھوں نے اس کی ساری کتابیں پڑھی ہو ئی تھیں ، اس کے ہر افسانے کے کردار انھیں زبانی یاد تھے، اور جس طرح وہ اس کا ذکر کر رہی تھیں ، اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ان کا چہیتا ہندوستانی ادیب ہے۔ وہ اس کے بارے میں سب کچھ جا ننا چاہتی تھیں ۔ اس کی نئی کتاب کون سی شائع ہوئی ہے؟ آج کل وہ کیا لکھ رہا ہے؟ کیا اس کی شادی ہو چکی ہے؟ اس کے کتنے بچے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب دیتے دیتے میں جل ہی تو گیا—


یہ بھی پڑھیں:’کرشن چندر آج لکھ رہے ہو تے تو تہاڑ جیل میں ہو تے‘


اور پھر ہم ماسکو کی ایک لائبریری میں گئے اور وہاں کی لائبریرین نے ہمیں بتایا کہ ہندوستان کے جن ادیبوں کی کتابیں روسی زبان میں تر جمہ ہو کر شائع ہو ئی ہیں ، ان میں کر شن چندر کی کتابیں سب سے زیادہ مقبول ہیں ۔ ریڈنگ روم میں ایک نوجوان لڑکی (جو کسی کارخانے میں کام کر تی تھی) بیٹھی کرشن چندر کی ایک کتاب پڑھ رہی تھی۔ سردار جعفری نے پوچھا، ‘ کامریڈ؛ کیا تمہیں یہ مصنف پسند ہے؟’ روسی لڑکی نے بڑے جوش سے جوب دیا۔ ‘بہت پسند ہے’! اور کئی اور لڑکے لڑکیوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔’’ہت پسند ہے، بہت پسند ہے، وہ ہمارا محبوب ادیب ہے۔’ اور سردار جعفری نے ان جو شیلی لڑکیوں کو چھیڑنے کے لیے کہا؛ ‘مجھے تو کرشن چندر کی کہانیاں کو ئی خاص پسند نہیں ۔ لکھتا اچھا ہے ، مگر اس کا نقطۂ نظرسراسر رومانٹک ہے’۔

‘تب ہی تو ہم اسے پسند کرتے ہیں۔ ‘ ایک لڑکے اور لڑکی نے ہم زبان ہو کر کہا۔

‘مگر کیا اس کی رومانٹک کہانیوں میں سماج کی سچی تصویر مل سکتی ہے ؟’ جعفری نے بحث کو بڑھانے کے لیے کہا اور کر شن چندر کی کہانی’پھول سرخ ہیں’ کا نام لیا۔ (یہ کہانی ایک اندھے پھول بیچنے والے کے بارے میں ہے)۔ ‘میں تو سمجھتا ہوں اس کہانی میں ہندوستانی مزدور کی سچی تصویر نہیں ملتی۔’

اور ایک نو جوان مزدور نے جواب دیا۔’اگر آپ کا مطلب ہے کہ ہندوستانی مزدور کا اوپری روپ اس میں نہیں جھلکتا تو میں مان سکتا ہوں شاید ایسا ہی ہو۔مگر میری رائے میں اس کہانی میں ایک مزدور کی آتما  کی ، اس کی اندورونی زندگی کی سچی تصویر ملتی ہے۔’

اور یہ سن کر ایک لڑکی نے کرشن چندر کی ایک اور کہانی کا حوالہ دیا۔’پورے چاند کی رات’ یہ کرشن کی بہت خوبصورت مگر سو فی صد ی رومانٹک کہانی ہے جس میں دور دور بھی سماجی اور طبقاتی کش مکش کاذکر نہیں ہے۔ ہندوستان کے کئی کٹر کٹھ ملا ٹائپ کے ‘کا مریڈ وں ‘ نے تو اس کہانی کو پڑھ کر کر شن چندر پر’رومانٹک بور ژوا’ ہونے کا فتویٰ دے دیا تھا ۔ اس لیے ماسکو میں نو جوان کمیو نسٹوں کی زبانی اس کہانی کی تعریف سن کر ہمیں اچنبھا ہوا۔

اور وہ لڑکی بولی،’کتنی خوبصورت کہا نی ہے یہ۔ اس کہانی میں مجھے ہندوستان کی ساری خوبصورتیاں سمٹی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ نہ صرف کشمیر کی وادی کا قدرتی حسن بلکہ ہندوستانی عوام کے محبت بھرے دل کا اندرونی حسن۔ ایسی کہانی وہی لکھ سکتا ہے جو نہ صر ف حسن سے بلکہ زندگی سے پیار کرتا ہے۔ اس کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ کرشن چندر دراصل ایک شاعر ہے، اگرچہ وہ شعر نہیں کہتا۔’

کرشن چندر نے اپنا بچپن کشمیر میں گزارا ہے اور اس کی کہانیوں پر کشمیر کے حسن کی گہری شاعرانہ چھاپ ہے۔ اس نے کشمیر کے بارے میں کتنی ہی خوبصورت کہانیاں لکھی ہیں۔ یہی نہیں کہ کشمیر کی زندگی نے اس کو افسانوی مواد دیا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ اس کی اپنی شخصیت میں اور اس کے ادبی اسٹائل میں کشمیر کا قدرتی حسن ہمیشہ کے لیےگُھل گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر اور کشمیر کی یاد نے اس کی کتنی ہی کہانیوں کو انسپائر کیا ہے۔ مگر کشمیر کے حسن کے علاوہ جس چیز نے کرشن چندر کو افسانہ نگار بنا دیا وہ ایک بیماری تھی جس نے کئی مہینے تک اسے بستر پر لٹا کر ایک کمرے میں قید کر دیا۔ نہ اسکول جا سکتا تھا، نہ دوستوں کے ساتھ کھیل کود میں شریک ہو سکتا تھا۔ کتنے ہی دن تو اتنی طاقت بھی نہ تھی کہ کتاب پڑھ سکے۔ ایسی حالت میں اپنا ’رفیق تنہائی‘ وہ خود ہی تھا۔ پلنگ پر لیٹے لیٹے کمزوری سے آنکھیں بند کیے وہ گھنٹوں سوچتا رہتا، سوچتا رہتا۔ موت اور زندگی کے بارے میں، اپنے ماں باپ کے بارے میں، کشمیر کے قدرتی حسن کے بارے میں۔ وہ حسن جو اس کھڑکی کے باہر حد افق تک پھیلا ہوا تھا اور ان غریب کشمیریوں کے بارے میں جو گندے چیتھڑے پہنے بھاری بوجھ پیٹھ پر لادے پہاڑی راستوں پر چلتے نظر آتے تھے اور اس کے دل نے جو بیماری کے کارن اپنے دکھ اور درد سے بھرا ہوا تھا ساری دنیا کا دکھ اور درد اپنے اندر سمیٹ لیا۔

برسوں ہوئے میں ایک بار گل مرگ گیا اور وہاں ایک ہوٹل میں ٹھہرا تو اس کے منیجر نے بتایا کہ کرشن چندر نے اس ہوٹل کے ایک کمرے میں اپنا ناول ’شکست‘ مکمل کیا تھا۔ میں نے کہا، مجھے وہ کمرہ تو دکھاؤ، اس کمرہ میں دو کھڑکیاں تھیں۔ میں نے ایک کھڑکی کھولی تو سامنے ایک بالکنی تھی۔ اس بالکنی کی کہانی وہ لکھ چکا ہے، اور اس بالکنی میں سے گل مرگ کی سرسبز وادی اور کھلن مرگ کی برفیلی چوٹیوں کا حسین منظر دکھائی دیا۔ لیکن دوسری طرف کی کھڑکی کھولی تو دیکھا کہ ہوٹل کا پچھواڑہ ہے، جہاں کوڑا کباڑ پڑا ہے، گھورے کے ڈھیر ہیں، ان پر بھنبھناتی مکھیاں ہیں، ہوٹل کا ’کالو بھنگی‘ صاحب لوگوں کے کموڈ صاف کر رہا ہے، اور ہوٹل کے بیروں کی چھوٹی چھوٹی گندی اندھیری کوٹھریاں ہیں۔ اور میں نے محسوس کیا کہ یہ دو کھڑکیاں کرشن چندر کے کمرے ہی میں نہیں اس کے دل اور دماغ میں بھی کھلی ہوئی ہیں۔ ایک کھڑکی میں سے وہ قدرت اور زندگی کا حسن دیکھتا ہے اور اس کا شاعرانہ تخیل جھوم اٹھتا ہے اور دوسری کھڑکی میں سے وہ انسان کی حالت دیکھتا ہے، جو چاروں طرف پھیلے ہوئے قدرتی حسن اور قدرت کی فیاضی کے باوجود غربت، لاچاری، گندگی اور بیماری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اور اس کا درد آشنا دل دکھ ہی سے نہیں، غصے سے بھر جاتا ہے۔ ان دونوں کھڑکیوں میں سے دکھائی دینے والے نظاروں کے تضاد نے کرشن چندر کی شخصیت، اس کے نظریے، اس کے اسٹائل اور اس کے آرٹ کی تشکیل کی ہے۔

کرشن چندر نے سینکڑوں کہانیاں لکھی ہیں۔ کشمیر کی سندر وادیوں سے لے کر بمبئی کی گندی چالوں اور ’مہالکشمی کے پل‘ تک اس کی کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔ اس نے ’اکسٹرا گرل‘ کی کہانی بھی لکھی ہے اور ’کالو بھنگی‘ کی بھی۔ بنگال کے قحط کی بھی اور ’پانچ روپے کی آزادی‘ کی بھی۔ اس ’غالیچہ‘ کی کہانی بھی جس پر جوانی نے شراب لنڈھائی ہے اور اس ’لال باغ‘ کی کہانی بھی جہاں انسان نے انسان کا خون گرایا۔ ’پشاور ایکسپریس‘ کی بھیانک کہانی بھی اور ’پورے چاند کی رات‘ کی مدھر پریم بھری کہانی بھی۔ یہاں تک کہ جب وہ دنیا کی ہر چیز کی کہانی لکھ چکا تو اس نے ’کہانی کی کہانی‘ بھی لکھ ڈالی— کرشن چندر کا دماغ ایک ایسی آٹومیٹک مشین ہے جس کی پکڑ میں آ کر اس کا ہر تجربہ اور مشاہدہ، اس کی ہر دکھ اور ہر سکھ، اس کا ہر دوست اور دشمن کسی کہانی کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔

ہاں تو کرشن چندر نے اتنی بہت سی کہانیاں لکھی ہیں مگر اس کی کہانی اب تک کسی نے نہیں لکھی۔ مگر کہا جا سکتا ہے کہ کرشن کی ہر کہانی ایک ڈھب سے خود اس کی اپنی کہانی ہوتی ہے۔ وہ اپنی ہر کہانی میں ایک نیا جنم لیتا ہے اور جب اپنے بنائے ہوئے کیرکٹر کو مارتا ہے تو ساتھ میں خود بھی مر جاتا ہے۔ پھر اگلی کہانی میں پیدا ہوتا ہے۔ نت نئی کہانیاں لکھنا بھی تو آواگون کا ایک چکر ہے—

کرشن چندر کی کہانی کسی نے نہیں لکھی۔ خود اس نے بھی ابھی نہیں لکھی۔ (لیکن ’یادوں کے چنار‘ میں اس نے اپنے بچپن کی جو جھلکیاں دکھائی ہیں، ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس دن اس نے اپنی سوانح عمری قلمبند کرنے کا فیصلہ کیا وہ اس کی زندگی کا سب سے بڑا شاہکار ہوگا)۔مگر جو کوئی کرشن چندر سے ملا ہے، اس نے یہ کہانی ’پڑھی‘ نہیں تو ’دیکھی‘ ضرور ہے۔ یہ کہانی قدرت اور وقت نے کرشن کے چہرے پر ہر برس کے ساتھ گہری ہوتی ہوئی لکیروں میں لکھ دی ہے اور میرا اپنا خیال ہے کہ یہ کہانی کرشن چندر کے قلم سے لکھی ہوئی سب کہانیوں سے زیادہ دلچسپ، رومانی اور ڈرامے سے بھری ہوئی ہے۔

کرشن چندر کی عمر ابھی کوئی باون برس کے لگ بھگ ہے۔ (وہ مجھے ضرور گالی دے گاکہ میں نے یہ بھانڈا کیوں پھوڑ دیا) اپنی زندگی میں اس نے کوئی چالیس کتابیں لکھی ہیں۔ شاید پانچ سو کہانیاں لکھی ہوں گی۔ (اُس کے بہت سے دوستوں کو شکایت ہے کہ کرشن بہت لکھتا ہے۔ میں بھی یہ سمجھتا ہوں کہ وہ بہت لکھتا ہے۔ مگر میں ان اقتصادی مجبوریوں سے واقف ہوں، جن کی وجہ سے کرشن کو اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کے لیے اتنا بہت لکھنا پڑتا ہے) وہ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ پاکستان میں بھی از حد مقبول ہے۔ اس کے اُردو ہندی ناولوں کے کتنے ہی ایڈیشن چھپتے رہتے ہیں۔ اس کے نام کئی فلم اسٹاروں سے زیادہ ’فین میل‘ آتی ہے۔

سوویت یونین میں وہ نہ صرف مقبول ترین ہندوستانی مصنف مانا جاتا ہے بلکہ اس کے ادب کے بارے میں پی ایچ ڈی کی ڈگری کے لیے تھیسس لکھا جا چکا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کا کوئی اُردو یا ہندی کا پرچہ ایسا نہیں جو کرشن چندر کی کہانی چھاپنا اپنی خوش قسمتی نہ سمجھتا ہو۔ مگر کرشن چندر ابھی تک ’عظیم فنکار‘نہیں بنا۔ اسے اپنے بڑے پن کا احساس بالکل نہیں ہے۔ اسے اپنی کہانیوں سے اتنی ہی محبت ہے جتنی اپنے بچوں سے۔ مگر نہ وہ اپنے بچوں کے لاڈ کرتا ہے نہ اپنی کہانیوں کے۔ خود کرشن کی زبان سے اس کی کہانیوں کی تعریف میں آپ کبھی ایک لفظ نہ سنیں گے۔ وہ ابھی تک اپنی تخلیقوں سے پورے طور سے مطمئن نہیں ہے۔ شاید اسی لیے اس کی تحریر میں ٹھہراؤ نہیں پیدا ہوا۔ اور اس کا آرٹ ابھی تک پروان چڑھ رہا ہے۔


یہ بھی پڑھیں:جامن کا پیڑ: کرشن چندر کی کہانی جس کو مبینہ طور پر حکومت کی تنقید کے الزام میں آئی سی ایس ای نے نصاب سے ہٹا دیا


کرشن چندر بالکل معمولی آدمی ہے۔ ہمارے آپ ایسا انسان۔ جس نے اپنی زندگی میں بہت سے پاپڑ بیلے ہیں۔ جرنلسٹ رہا ہے، ایڈیٹری کی ہے۔ کالج کے لڑکوں کو پڑھایا ہے، ریڈیو کی نوکری کی ہے، فلم کے ڈائلاگ لکھے ہیں، فلم ڈائرکٹ اور پروڈیوس کیا ہے۔ فلم کمپنی کا دیوالہ نکالا ہے۔ دوسرے پروڈیوسروں کے لیے ’ہِٹ‘ سِلور جوبلی تصویریں لکھی ہیں۔ بیکاری اور غریبی کے مزے چکھے ہیں۔ پریم بھی کیا ہے (یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ پریم بھی کیے ہیں)۔ شادی بھی، دل لگایا بھی ہے توڑا بھی ہے، جوڑا بھی ہے۔ انقلابیوں کا ساتھ بھی دیا ہے اور شاعروں کی محفل میں بھی وقت گنوایا ہے۔ وقت پڑنے پر کانگریسیوں کا ساتھ بھی دیا ہے، سوشلسٹوں کا بھی، کمیونسٹوں کا بھی۔ وہ ہر ترقی پسند اور انقلابی پارٹی کے ساتھ ہے۔ مگر کسی پارٹی میں نہیں ہے۔ وہ دھرم، مذہب، ذات پات کے بندھنوں سے آزاد ہے۔ سامراج اور فرقہ پرستی کا دشمن ہے، عوام اور اشتراکیت کا ساتھی ہے۔ وہ یہ سب کچھ ہے۔ اسی لیے میرا دوست ہے۔ ایسا دوست جسے سچ مچ ہم دم کہا جا سکتا ہے۔ ورنہ ’دوست‘ تو بازار میں ٹکے سیر ملتے ہیں۔

میرے اس دوست نے لاکھوں روپے کمائے ہیں۔ اس سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔ وہ ہمیشہ قرض کے جال میں جکڑا رہتا ہے۔ پھر بھی ہر ترقی پسند یا ادبی پرچے کے لیے مفت کہانی لکھنے کو تیار رہتا ہے۔ اس کی ناک کی ہڈی بڑھی ہوئی ہے اور اسے ہمیشہ زکام رہتا ہے۔ ایک بار شدید دردِ گردہ بھی ہو چکا ہے۔ اس کے ارد گرد دو قسم کے آدمیوں کی بھیڑ لگی رہتی ہے، وہ جن سے  روپے قرض لیتا رہتا ہے اور وہ جنھیں وہ قرض دیتا رہتا ہے۔ اگر آپ کی جیب خالی ہے تو آپ کرشن چندر سے ضرور ملیے۔ ممکن ہے کہ آپ کے مانگے بغیر وہ آپ کو روپے دے دے۔ لیکن آپ کی جیب بھری ہوئی ہے تو اس سے دور رہیے۔ ممکن ہے کہ آپ سے پوچھے بنا وہ آپ کی جیب خالی کر دے۔ وہ ہمیشہ سفید قمیص اور اونی پتلون پہنے نظر آتا ہے۔ سوٹ اس کے پاس شاید ایک ہی ہے اور جب وہ یہ سوٹ پہنتا ہے تو اس میں جکڑا ہوا نظر آتا ہے اور موقع ملتے ہی اسے اتار پھینک دیتا ہے۔ اس کی جیب میں کبھی ڈیڑھ دو روپے سے زیادہ نہیں ہوتا۔ لیکن اگر ہوتا ہے تو وہ فوراً ٹیکسی لے کر گھومنا شروع کر دیتا ہے اور اپنے دوستوں کے گھر جا کر ان کو روپیہ دے آتا ہے۔ یہاں تک کہ شام تک پھر بس میں چلنے کی نوبت آ جاتی ہے۔

یہ اور بات ہے کہ گھر میں کھانے کو نہ ہو، مگر کہانی لکھنے کے لیے اسے سب سے بڑھیا کاغذ کا رائٹنگ پیڈ چاہیے۔ گھٹیا کاغذ پر اس کا قلم چلتا ہی نہیں۔ جیسے نیلے چکنے موٹے کاغذ پر نوجوان عاشق اپنی محبوبہ کو پریم پتر لکھتے ہیں ویسا کاغذ وہ کہانی لکھنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ دراصل اس کی ہر کہانی ایک پریم پتر ہوتی ہے جو کرشن اپنے پڑھنے والوں کے نام لکھتا ہے۔

وہ ٹائم ٹیبل سے کبھی کام نہیں کرتا۔ لکھنے پر آئے تو ایک دن بلکہ ایک بیٹھک میں پوری کہانی لکھ ڈالے۔ نہیں تو دو مہینے تک ایک لفظ نہ لکھے۔ باتیں جتنی چاہے کرا لیجیے اور دنیا کے ہر موضوع پر، پالیٹکس، لٹریچر، فلم، ڈرامہ، رومانس، اسکینڈل یا ٹھیٹھ گھریلو گپ شپ!

وہ ’بڑا آدمی‘ ہوتا تو میں اس سے کوسوں دور رہتا۔ مگر دراصل کرشن چندر میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ بس معمولی سیدھا سادا آدمی ہے۔ ہم آپ جیسا۔ ہاں، ایک بات ضرور ہے، کمبخت کے قلم میں بڑا جادو ہے اور اسی لیے مجھے اس کے نام ہی سے چڑ ہے اور میں اس سے جلتا ہوں۔ بس یہی اس کی— اور میری— کہانی ہے!

(بہ شکریہ شاعربمبئی ، کرشن چندر نمبر 1967، یہ مضمون کرشن چندر کی کہانی کے عنوان سے شائع ہوا تھا)