خبریں

کرناٹک: پروفیسر نے مسلم طالبعلم کو دہشت گرد کے نام سے پکارا، سسپنڈ

کرناٹک کی نجی یونیورسٹی منی پال انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کا معاملہ۔ واقعہ سے متعلق مبینہ ویڈیو میں طالبعلم ملزم پروفیسر سے کہتا ہے کہ اس ملک میں مسلمان ہونا اور یہ سب  ہر روزجھیلنا  مذاق نہیں ہے سر۔ آپ  میرے مذہب کا مذاق نہیں اڑا سکتے، وہ بھی توہین آمیز طریقے سے۔

منی پال انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں طالبعلم اور استاد کے درمیان بات چیت کے وائرل ویڈیو کا اسکرین گریب۔

منی پال انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی میں طالبعلم اور استاد کے درمیان بات چیت کے وائرل ویڈیو کا اسکرین گریب۔

نئی دہلی: کرناٹک کے اڈپی ضلع میں ایک نجی یونیورسٹی کے پروفیسر کو سسپنڈ کر دیا گیا ہے۔ یہ کارروائی پروفیسر کے  ایک مسلم طالبعلم کو دہشت گردکے  نام سے پکارنے کے مبینہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد کی گئی۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں منی پال انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی کے ایک مسلمان طالبعلم کو کلاس میں پروفیسر سے سوال کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ طالبعلم کہتا ہے کہ وہ (پروفیسر) توہین آمیز طریقے سے اس کے  عقیدے کا مذاق نہیں اڑا سکتے۔

ویڈیو میں طالبعلم کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ’26/11 (ممبئی دہشت گردانہ حملے کا دن) کوئی مذاق نہیں ہے۔ اس ملک میں مسلمان ہونا اور یہ سب ہر روز جھیلنا مذاق نہیں ہے سر۔ آپ  میرے مذہب کا مذاق نہیں اڑا سکتے، وہ بھی توہین آمیز طریقے سے۔

اس دوران دوسرے طلبا خاموش رہتے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک اسے چپ رہنے کے لیے  کہتا ہے۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے بتایا کہ  ویڈیو میں پروفیسر کو طالبعلم سے معافی مانگتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘وہ ان کے بیٹے کی طرح ہیں’۔

اس پر طالبعلم نے جواب دیا کہ، کیا آپ اپنے بیٹے سے اس طرح بات کریں گے؟ کیا آپ اسے دہشت گرد کہہ کر پکاریں گے؟’

جب پروفیسر نے ‘نہیں’ کہا تو طالبعلم نےمزید کہا، ‘پھر اتنے لوگوں کے سامنے آپ مجھے اس طرح کیسے بلا سکتے ہیں؟ آپ ایک پیشہ ور شخص ہیں، آپ پڑھا رہے ہیں۔ صرف ایک ساری کہہ دینے سے یہ نہیں بدلتا ہے کہ آپ کیسے سوچتے ہیں یا آپ یہاں اپنے آپ کو کیسے پیش کرتے ہیں۔

طالبعلم پھر کہتا ہے کہ اگر اس کے والد نے ایسا کچھ کہا ہوتا تو وہ انہیں بھی چھوڑ دیتا۔

یونیورسٹی کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر ایس پی کار نے کہا ہے کہ یہ واقعہ مبینہ طور پر گزشتہ ہفتے پیش آیا۔ انسٹی ٹیوٹ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ طالبعلم کو کونسلنگ فراہم کی گئی تھی۔

ایک بیان میں یونیورسٹی نے کہا، ہم چاہتے ہیں کہ ہر کوئی جان لے کہ یہ ادارہ اس طرح کے رویے کی مذمت نہیں کرتا اور اس منفرد واقعے سے طے شدہ  پالیسی کے مطابق نمٹا جائے گا۔

یونیورسٹی نے پروفیسر کو معطل کرتے ہوئے انکوائری شروع کر دی ہے۔ کالج نے تحقیقات مکمل ہونے تک پروفیسرکو کلاس میں  پڑھانے پر پابندی لگا دی ہے۔

اس کے بعد طلبہ کے گروپ میں ایک وہاٹس ایپ پوسٹ شیئر کی گئی، جس میں متاثرہ طالبعلم کا کہنا ہے کہ پروفیسر نے اسے ‘قصاب’ کہا تھا۔

اجمل قصاب 2008 کے ممبئی حملوں کے ذمہ دار دہشت گردوں میں سے ایک تھا اور اسے زندہ پکڑ لیا گیا تھا، اسے 2012 میں پھانسی دی گئی تھی۔

پی ٹی آئی کے مطابق، طالبعلم نے ایک وہاٹس ایپ پوسٹ میں لکھا ہے، ‘آپ سب نے ایک ویڈیو وائرل ہوتے دیکھا ہوگا، جس میں ایک طالبعلم اپنے استاد سے کہہ رہا ہے کہ نسلی تبصرے قابل قبول نہیں ہیں۔ یہ ایک مذاق تھا، جسے کسی انسان کی شناخت پر سوال اٹھانے کی معقول وجہ نہیں سمجھا جا سکتا۔

طالبعلم نے پھر کہا کہ اس نے پروفیسر سے بات کی اور محسوس کیا کہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے معافی مانگ رہے تھے۔

طالبعلم نے کہا، ‘ہمیں بطور اسٹوڈنٹ کمیونٹی اس کو ایک حقیقی غلطی کے طور پر جانے دینا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان  کے دماغ میں کیا  چل  رہا تھا اور میں یقین کرنا چاہوں گا کہ ان  کے کہنے  کا یہ مطلب نہیں ہوگا۔ یہ بات ایک استاد، ایک ایسے شخص سے غلط  طریقے سےنکلی جس کی ہم تعریف کرتے ہیں، لیکن اس بار اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ میرے ساتھ کھڑے ہونے کا شکریہ، جو بہت معنی رکھتا ہے۔

 (خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)