فکر و نظر

عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں ہندوستان اور پاکستان کی سفارت کاری

 پاکستانی سفارت کاری کی وجہ سے عالمی طور پر تلافی کے فنڈنگ کا ایک مسئلہ فی الحال تو حل ہوگیا، مگر ان کو اسی شدو مد کے ساتھ اپنے ہی خطے میں ہندوستان کے ساتھ دریائے سندھ اور اس کی معان ندیوں کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر اور لداخ کے پہاڑوں میں موجود گلیشیرزکے تیزی کے ساتھ پگھل کر ختم ہونے کے ایشوز پر بھی اسی طرح کا کوئی قدم اٹھانا ہوگا۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

حالیہ عرصے میں کسی بین الاقوامی فورم پر اگر پاکستانی سفارت کاری کو کوئی بہت بڑی کامیابی ملی ہے، تو وہ مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے والی اقوام متحدہ کی ماحولیاتی تبدیلی کی کانفرنس یعنی ’کاپ 27‘میں گروپ 77یعنی ترقی پذیر ممالک کی قیادت کرتے ہوئے،ایک تاریخی معاہدے پر اتفاق رائے کروانا ہے۔

جس کے تحت ماحولیاتی تبدیلی سے’نقصان اور تباہی’کی تلافی کے لیے ایک فنڈ قائم کیا گیا، تاکہ ان ممالک کی مدد کی جائے، جنہیں ماحولیات کی تبدیلی کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑ ا ہو۔اس فنڈ کو قائم کرنے کے لیے چھوٹے جزیروں اور دیگر کمزور ممالک کی حکومتیں کئی دہائیوں سے مطالبہ کرتی آرہی تھیں۔

کانفرنس میں شرکت کرنے والے کئی مندوبین، جس میں ہندوستان کے نمائندے بھی شامل ہیں نے راقم کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے پاکستانی وفد پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا اور ان کی وجہ سے ہی مغربی ممالک  کے ترغیب و لالچ  دینے کے باوجود گروپ77ممالک کی صفوں میں دراڑیں پیدا نہیں کرسکے۔

پاکستان نے آخر وقت تک ترقی پذیر ممالک کے اس گروپ کو لیڈ کیا اور اس فنڈ کے قیام کے لیےاتفاق رائے پیدا کروانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس گروپ میں گو کہ اب  134ممالک ہیں، مگر ابھی بھی اس کو گروپ77کے نام سے جاتا ہے کیونکہ 1964 میں اس کی بنیاد کے وقت اس میں 77ممالک شامل ہوگئے تھے۔

مغربی ممالک اس فنڈکو تو ایجنڈہ میں ہی شامل کرنے کے روادار نہیں تھے۔ جب 6نومبر کو شرم الشیخ میں اس کانفرنس کا آغاز ہوا تو پہلے دو دن تو ایجنڈہ کو ہی طے کرنے میں لگ گئے۔ 48گھنٹوں تک چلنے والی بات چیت جو دن رات صبح پانچ بجے تک بغیر کسی بریک کے جاری رہی کی وجہ سے بالآخر ‘نقصان اور تباہی’ کی تلافی کے فنڈ کو ایجنڈہ میں شامل کیا گیا۔

 بعد میں 18 نومبر کو جب اعلامیہ ترتیب دیا جا رہا تھا تو اس کو شامل کرنے پر خاصی لے دے ہوگئی۔ امریکی صدر کے مشیر جان کیری  نے تو یہاں تک کہا کہ اکثر ممالک تو اس وقت کساد بازاری کا شکار ہیں۔ ان کہنا تھا کہ فی الحال یہ فنڈ ایجنڈہ میں آگیا ہے، اس لیے  آئندہ کسی دوسری کانفرنس میں مناسب وقت پر اس کو اعلامیہ میں شامل کیا جائے۔

ہرجیت سنگھ، جو گلوبل پالیٹیکل اسٹریٹجی، کلائمیٹ ایکشن نیٹ ورک انٹرنیشنل کے سربراہ ہیں، نے ان کو کانفرنس کی میز پر ہی بتایا کہ جس طرح  بینکوں کو بیل آؤٹ کرنے، کووڈ وباء کا مقابلہ کرنے اور اب حال ہی میں روس–یوکرین جنگ لڑنے کے لیے مغربی ممالک نے جس طرح خزانے کھول دیے ہیں، اس کا مطلب یہی ہے کہ پیسہ ان ممالک کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے، بلکہ ترجیحات ایشو ہیں۔

ان کے مطابق امریکہ نے ہمیشہ غریب ممالک جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے دوچار ہیں کی طرف جانے والے پیسے کو روک دیا ہے۔ ماضی میں ان مغربی ممالک نے بایو ایندھن، یعنی کوئلہ کے استعمال کو کم کرنے کے وعدے کیے تھے، مگر اب یوکرین جنگ کے نام پر اور انرجی اسکیورٹی کے نام پر دوبارہ کوئلہ کی کان کنی کے لیے سرمایہ فراہم کر رہے ہیں۔

اس کانفرنس میں امید تھی کہ کوئلہ کے علاوہ اب گیس کے استعمال پر بھی قدغن لگانے پر کوئی اتفا ق رائے پیدا کیا جائےگا۔ مگر مغربی ممالک نے اس کو ناکام بنادیا۔

ہرجیت کا کہنا ہے کہ کانفرنس میں عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم اضافے کو محدود کرنے کے لیے بھی کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔مگر ان کا کہنا ہے کہ فنڈ کے قیام کے لیے ترقی پذیر ممالک کے اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے پاکستانی سفارت کاری نے خاصی مدد کی۔ اس سے پہلے کی کانفرنسوں میں مغربی ممالک اس طرح کے اتحاد کو لالچ و ترغیب دےکراعلامیہ سے قبل ہی توڑ دیتے تھے۔

اس کے علاوہ یورپی یونین کا اصرارتھا کہ چھوٹے جزیرے والے ممالک اور 46انتہائی کم ترقی والے یعنی ایل ڈی سی ممالک کو ہی ماحولیاتی تبدیلی سے غیر محفوظ مان کر یہ فنڈ ان کے لیے ہی مختص کیا جائے۔ مگر مذاکرات کے دوران ہندوستان اور پاکستان نے مل کر اس فنڈ کو ملک کی جی ڈی پی کے ساتھ منسلک کرنے کی سختی کے ساتھ مخالفت کی۔ خیر یہ فنڈ تو قائم ہو گیا ہے، مگر اس کے لیے رقوم کون ادا کرےگا اور کس کو اس کا حصہ دیا جائےگا اور یہ فنڈ کہا ں رکھا جائےگا، ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔

مغربی ممالک اس فنڈ کو گرین کلائمیٹ فنڈ کے تحت رکھنے پر بھی زور دے رہے تھے۔ مگر اس کی مزاحمت کی گئی،کیونکہ یہ فنڈ کئی شرائط کے تحت ہی ممالک کو فراہم کیا جاتا ہے۔ ماحولیات کے حوالے سے ہندوستان کی ایک موخر تھنک ٹینک سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ (سی ایس ای) کی ڈائریکٹر جنرل سنیتا نارائن کے مطابق چونکہ اس فنڈ کی تفصیلات طے نہیں کی گئی، اس لیے اس کو کل دوبارہ کھولا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک وقت میں صرف ایک قدم اٹھانا عالمی ماحولیات کے لیے تباہ کن ثابت ہورہا ہے اس لیے اس کانفرنس کو دیگر امور کو بھی نپٹانا چاہیے تھا۔

ایک اور مذاکرات کار رچا شرما، جو ہندوستان کی وزارت ماحولیات میں ایڈیشنل سکریٹری بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ ہاں ذمہ داری اور معاوضے کے الفاظ حتمی دستاویز میں موجود نہیں تو ہیں، مگر یہ بالکل واضح ہے کہ جو لوگ غیر متناسب کاربن بجٹ کا استعمال کرتے ہیں، ان کو ہی اس فنڈکے لیے رقوم فراہم کرنی پڑے گی۔

ان کے وفد نے اس بات پر زور دیا کہ توانائی کے عالمی بحرانوں کو صرف موجودہ روس–یوکرین جنگ سے پیدا شدہ جغرافیائی سیاسی تناظر میں نہیں رکھا جانا چاہیے بلکہ اس بات کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے بڑے حصے مسلسل توانائی کے بحران کی حالت میں رہتے ہیں۔ جس درد کو آج کل یورپ محسوس کرتا ہے، انرجی کے حوالے سے افریقہ، ایشیاء اور معتدد دیگر ممالک کے عوام تو  کئی صدیوں سے اس کے ساتھ جی رہے ہیں۔

ہندوستان کے سابق خارجہ سکریٹری اور وزیر اعظم کے خصوصی ایلچی برائے جوہری امور اور موسمیاتی تبدیلی شیام سرن کا کہنا ہے کہ 2030 تک قابل تجدید توانائی میں سالانہ تقریباً 4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے تاکہ 2050 تک خالص صفر تک اخراج پہنچ سکے۔مزید برآں، کم کاربن معیشت کی عالمی تبدیلی کے لیے کم از کم 4-6 ٹریلین سالانہ کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔

ترقی پذیر ممالک کو قومی سطح پر طے شدہ وعدوں کو پورا کرنے کے قابل بنانے کے لیے 2030 سے پہلے 5.8 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ماضی کی کانفرنسوں میں طے پایا گیا تھا کہ ترقی یافتہ ممالک  2005سے 2015تک بایو ایندھن سے توانائی کی منتقلی میں مدد  دینے کے لیے سالانہ 100 بلین ڈالر فراہم کرنے کریں گے۔ مگر یہ بس خواب ہی رہا۔ اب اگر یہ ممالک اس قدر قلیل رقم نہیں دے پائے، تو ٹریلین ڈالر کی رقم ہر سال کون دےگا۔

خیر پاکستانی سفارت کاری کی وجہ سے عالمی طور پر تلافی کے فنڈنگ کا ایک مسئلہ فی الحال تو حل ہوگیا، مگر ان کو اسی شدو مد کے ساتھ اپنے ہی خطے میں ہندوستان کے ساتھ دریائے سندھ اور اس کی معان ندیوں کو پانی فراہم کرنے والے کشمیر اور لداخ کے پہاڑوں میں موجود گلیشیرزکے تیزی کے ساتھ پگھل کر ختم ہونے کے ایشوز پر بھی اسی طرح کا کوئی قدم اٹھانا ہوگا۔

پاکستان کا مرکزی دریا سندھ، تبت سے نکل کر لداخ اور پھر گلگت کے راستے پاکستان میں داخل ہوجاتا ہے۔اس کی ایک شاخ کرگل کے پاس الگ ہوکر سونہ مرگ کے راستے وادی کشمیر کے ایک حصے کو سیراب کرکے گاندربل میں دریائے جہلم میں ضم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی تین چوتھائی آبادی سندھ تاس میں آباد ہے اور اس کی 80فیصد خوراک کی ضروریات سندھ اور اس کی معاون ندیوں خاص طور پر جہلم اور چناب پر منحصر ہے۔ ان دریاؤں کو فیڈ کرنے والے گلیشیروں کو سب سے زیادہ خطرہ پہاڑی علاقوں میں بلا روک و ٹوک آمد و رفت اور مذہبی یاتراؤں کو سیاست اور معشت سے جوڑنے سے ہے۔

ہندوستانی  حکومت نے حالانکہ ملک کے بیشتردریاؤں اورندیوں کے منبع یعنی گنگا کے گلیشیرو ں کی حفاظت کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں لیکن وادی کشمیر اور پاکستان کو پانی فراہم کرنے والے سند ھ طاس گلیشیر کی تباہی پر وہ اس طرح کے اقدامات کرتے ہوئے نہیں نظر آتی ہے۔

ہندوستان میں گلیشیروں کا ڈیٹا حاصل کرنا بھی خاصا مشکل ہے، کیونکہ یہ سرحدی علاقوں میں آتے ہیں اور وزارت دفاع و فوج ان علاقوں کے سروے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔  فوجی کشیدگی یا سرحدی تنازعات، قومی سلامتی کے لیے خطرات تو ہیں، مگر ماحولیاتی تبدیلیوں سے اس سے بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ یہ خطرہ کسی ایٹمی جنگ سے کم نہیں ہے۔