خبریں

کووڈ ویکسین کے منفی اثرات سے ہوئی اموات کے لیے حکومت کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا: مرکز

کووڈ ٹیکہ کاری کے مبینہ منفی اثرات سے دو لڑکیوں کی موت کے معاملے میں ان کے والدین نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔ اس سلسلے میں مرکزی حکومت نے عدالت میں پیش کیے گئے  ایک حلف نامہ میں کہا ہے کہ ویکسین کے استعمال کی وجہ سے ہونے والی موت کے معاملات میں حکومت کو معاوضے کے لیے جوابدہ ٹھہرانا قانونی طور پر درست نہیں ہے۔

(علامتی  تصویر: رائٹرس)

(علامتی  تصویر: رائٹرس)

نئی دہلی: مرکز نے سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ حکومت انسداد کووڈ-19 ویکسین لگائے جانے کے بعد ‘منفی ویکسینیشن اثرات’ (اے ای ایف آئی ) کے کسی بھی واقعے سے موت کے لیے معاوضہ ادا کرنے کے لیے جوابدہ نہیں ہو سکتی۔

مرکزی حکومت ملک میں کووڈ کی وبا سے نمٹنے کے لیے شروع سے ہی زورو شور سے ٹیکہ کاری مہم چلا رہی ہے اور تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں اب تک 219.92 کروڑ خوراک دی جا چکی ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر مرکز کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں داخل کردہ حلف نامہ کو اہم مانا جا رہا ہے۔

کووڈٹیکہ کاری  کے بعد مبینہ منفی اثرات کی وجہ سے دو لڑکیوں کی موت کے معاملے میں ان کے والدین کی عرضی  کے جواب میں مرکزی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کی طرف سے یہ حلف نامہ داخل کیا گیا۔ درخواست گزاروں کی بیٹیوں کی عمر 19 اور 20 سال تھی۔

اس میں  دعویٰ کیا گیا کہ تیسرے فریق کے ذریعہ تیار کردہ ویکسین کا کامیاب ریگولیٹری جائزہ لیا گیا ہے اور حکومت کو معاوضے کے لیے براہ راست ذمہ دار ٹھہرانا قانون کے مطابق نہیں ہے۔

حلف نامے کے مطابق، ان حقائق کے پیش نظر عاجزی کے ساتھ عرض کیا جاتا ہے کہ ویکسین کے استعمال کی وجہ سے اے ای ایف آئی  کے باعث ہونے والی موت کے انتہائی کمیاب واقعات کے معاوضے کے لیے حکومت کو براہ راست ذمہ دار ٹھہرانا قانونی طور پر درست نہیں ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ مرکز نے وبائی امراض سے پیدا ہونے والے انتہائی مشکل حالات کے درمیان اس سے نمٹنے کے لیے ایک محفوظ اور مؤثر ویکسینیشن پروگرام چلانے کی اہم کوششیں کی ہیں۔

حلف نامے کے مطابق،  19 نومبر 2022 تک ملک میں کووڈ-19 ویکسین کی 219.86 کروڑ خوراکیں دی گئی ہیں۔ اب تک منفی اثرات کے 92114 (0.0042 فیصد) واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے 89332 (0.0041فیصد) معاملات ‘معمولی’ ہیں۔ باقی 2782 (0.00013فیصد) معاملے گمبھیر ہیں۔

اسکرول کی رپورٹ کے مطابق، ویکسین کے منفی اثرات سے 1148 اموات ہو چکی ہیں۔

حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ تیسرے فریق کے ذریعہ تیار کردہ ویکسین کا کامیابی سے ریگولیٹری جائزہ لیا گیا ہے اور یہ قانونی طور پر درست نہیں ہوگا کہ ریاست کو معاوضے کی فراہمی کے لیے براہ راست ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔

اس میں کہا گیا ہے، ‘ٹیکہ کاری پروگرام کے تحت استعمال ہونے والی ویکسین تیسرے فریق کے ذریعہ تیار کی جاتی ہیں اور ہندوستان کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک میں کامیابی کے ساتھ مکمل ریگولیٹری جائزہ لیا جاتا ہے، جن کو دنیا بھر میں محفوظ اور مؤثرمانا جا رہا ہے۔’

حلف نامے میں کہا گیا ہے، ‘جس طرح کسی دوا کے مضر اثرات ہوتے ہیں، اسی طرح اے ای ایف آئی  کے کیسز دنیا کی ہر ویکسین کے حوالے سے رپورٹ ہوتے ہیں۔ ویکسین سے فائدہ اٹھانے والے کے پاس ہمیشہ ویکسین کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ ویکسینیشن سائٹ پر موجود ہیلتھ ورکریا اپنے  ڈاکٹر سے ٹیکہ اور اس کے ممکنہ مضر اثرات کے بارے میں جانکاری حاصل کرلیں۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹیکہ کاری  کے لیے کوئی قانونی پابندی نہیں تھی اور یہ خالصتاً رضاکارانہ تھا۔

اس میں کہا گیا ہے، ‘ایک ویکسین جیسی دوائی کے رضاکارانہ استعمال کے معاملے میں باخبر رضامندی کا تصور ناقابل عمل ہے۔ اگرچہ حکومت ہند نے مفاد عامہ میں تمام اہل افراد کو ٹیکے لگوانے کی ترغیب دی تھی لیکن اس کے لیے کوئی قانونی مجبوری نہیں ہے۔

مرکزی حکومت نے مزید کہا کہ کووڈ ٹیکہ کاری سے متعلق تمام متعلقہ معلومات ویکسین بنانے والوں اور وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے ذریعہ عوامی طور پر دستیاب کرائی گئی تھی اور عرضی گزار اس کے ممکنہ منفی اثرات کے بارے میں خود مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے آزاد تھے۔

معاوضے کی مانگ کے علاوہ درخواست گزاروں نے یہ بھی استدعا کی کہ ان کی بیٹیوں کی موت کی تحقیقات کے لیے ایک آزادانہ  ماہر میڈیکل بورڈ مقرر کیا جائے۔

لائیو لا کے مطابق، پٹیشن میں میڈیکل بورڈ کو کووڈ-19 ٹیکوں  کی وجہ سے ہوئے اے ای ایف آئی  کا جلد پتہ لگانے اور بروقت علاج کے لیے ایک پروٹوکول تیار کرنے کی ہدایت دینے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)