خبریں

مدھیہ پردیش: اے بی وی پی نے لا کالج کے اساتذہ پر ’مذہبی انتہا پسندی‘ کو فروغ دینے کا الزام لگایا، 6 اساتذہ کو ہٹایا گیا

یہ معاملہ گورنمنٹ لا کالج اندور کا ہے۔ اے بی وی پی نے ہنگامہ کرتے ہوئے  دعویٰ کیا تھا کہ کالج میں  کچھ اساتذہ طلبہ کے درمیان شدت پسندی ، لو جہاد اور ملک کے بارے میں منفی باتوں کو فروغ  دے رہے ہیں۔ اس معاملے میں  کالج کی طرف سے عارضی طور پر ہٹائے گئے چھ اساتذہ میں سے چار مسلمان ہیں۔

(فوٹوبہ شکریہ: اے بی وی پی/فیس بک  پیج)

(فوٹوبہ شکریہ: اے بی وی پی/فیس بک  پیج)

نئی دہلی: بی جے پی کی اسٹوڈنٹ  ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) نے جمعرات کو اندور میں یہ سنگین الزام لگا کر ہنگامہ کھڑا کر دیا کہ شہر کے گورنمنٹ لا کالج میں کچھ اساتذہ نئے طلبہ میں مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور ان کے ذہنوں میں ملک کی حکومت اور فوج کے بارے میں منفی باتیں بھر رہے ہیں۔

ہنگامہ آرائی کے بعد کالج انتظامیہ نے ان الزامات کی جانچ ڈسٹرکٹ کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج سے کرانے کا فیصلہ کرتے ہوئے چھ پروفیسروں کو پانچ دنوں کے لیے تعلیمی کام سے ہٹا دیا ہے جن میں چار مسلم اساتذہ  شامل ہیں۔

کالج کے ایک اہلکار نے یہ جانکاری دی۔ گورنمنٹ نیو لا کالج میں اے بی وی پی کی اکائی کے صدر دیپیندر ٹھاکر نےبتایا کہ ان کی طرف سے کالج کے پرنسپل ڈاکٹر انعام الرحمن کو سونپی  گئی شکایت میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ ‘کچھ اساتذہ اس ادارے کے نئے طالبعلموں کے درمیان  مذہبی شدت پسندی کو فروغ دے رہے ہیں اور ان کے ذہن میں  ہندوستان کی حکومت اور فوج کے بارے میں منفی خیالات ڈالتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ شکایت میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ ہر جمعہ کو کالج کے پرنسپل، مسلم اساتذہ اور اس کمیونٹی کے طلبہ طالبات مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں اور اس وقت کلاسز نہیں لگائی جاتی ہیں۔

ٹھاکر نےبتایا کہ شکایت میں کالج کے احاطے میں ‘لو جہاد’ کو فروغ دینے اور گوشت کھانے کے الزامات بھی لگائے گئے ہیں۔

دوسری جانب کالج کے پرنسپل ڈاکٹر انعام الرحمان نے کہا کہ ‘ہمارے کالج کا ماحول بالکل بھی ایسا نہیں ہے جیسے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ تاہم، اے بی وی پی کی شکایت سنگین ہے اور میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کی جانچ ایک ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ کورٹ جج سے کروائی جائے۔

پرنسپل نے بتایا کہ اے بی وی پی کی شکایت پر انہوں نے چھ پروفیسروں کو تعلیمی کام سے پانچ دنوں کے لیےفارغ کر دیا ہے، تاکہ تفتیش متاثر نہ ہو۔ انہوں نے تصدیق کی کہ ان میں چار مسلم اساتذہ شامل ہیں۔

پرنسپل نے بتایاکہ تعلیمی کام سے عارضی طور پر ہٹائے جانے والوں میں دو ہندو اساتذہ بھی شامل ہیں، جن کے خلاف اے بی وی پی نے من مرضی سے کام کرنے، طلبہ سے مناسب طریقے سے بات نہ کرنے اور نظم و ضبط کا خیال نہ رکھنے کے الزامات لگائے ہیں۔

دینک بھاسکر کے مطابق، مذہبی شدت پسندی پھیلانے اور بے ضابطگی سے متعلق الزامات کا سامنا کرنے والے اساتذہ کے نام پروفیسرعمیق  کھوکھر، ڈاکٹر مرزا موجز بیگ، ڈاکٹر فیروز احمد میر، پروفیسر سہیل احمد وانی، پروفیسر ملند کمار گوتم اور ڈاکٹر پورنیما بیسے ہیں۔

اخبار نے اے بی وی پی کے ریاستی وزیر گھنشیام سنگھ چوہان کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے پہلے  پرنسپل سے مذہبی انتہا پسندی کے پھیلاؤ کے حوالے سے زبانی شکایت کی تھی، لیکن انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

اس معاملے کے حوالے سے ہائر ایجوکیشن کی ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر کرن سلوجا کا کہنا ہے کہ انہیں مذہبی انتہا پسندی پھیلانے کے بارے میں  شکایت ملی ہے۔ کالج کے پرنسپل کو بلایا  ہے اور کالج انتظامیہ سے تحقیقات کرنے کو کہا گیا ہے۔تاہم پرنسپل  نے اخبار کو بتایا کہ آج تک اس کالج میں ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔

یہاں کے تمام اساتذہ پڑھائی اور کام کے لیے وقف ہیں۔ رات کو دیر تک بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ کالج کونیک (این اے اےسی) سے ‘بی’ گریڈ ملاہوا  ہے۔ ہم مسلسل ‘اے’ گریڈ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، حالانکہ الزام لگانے والے اے بی وی پی کے طلبہ کا کہنا ہے کہ ہمیں اس بات سے کوئی مطلب  نہیں ہے۔

 (خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)