خبریں

سپریم کورٹ نے تاج محل  کے بارے میں ’غلط تاریخی حقائق‘ کو حذف کرنے سے متعلق عرضی کو خارج کیا

عدالت عظمیٰ میں دائر ایک درخواست میں مرکز کو یہ ہدایت دینے کی استدعا کی گئی تھی کہ تاج محل کی تعمیر سےمتعلق مبینہ غلط تاریخی حقائق کو تاریخ کی کتابوں اور نصابی کتابوں سے ہٹا دیا جائے۔ عدالت نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں تاریخ کو کھنگالنے کے لیے نہیں بیٹھے ہیں۔

تاج محل (فوٹو: رائٹرس)

تاج محل (فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے تاریخ کی کتابوں سے تاج محل کی تعمیر سے متعلق مبینہ غلط تاریخی حقائق کو حذف کرنے اور اس یادگار کی عمر کا تعین کرنے کی عرضی  پر سماعت کرنے سے سوموار کو انکار کر دیا۔

لائیو لا کے مطابق، جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی بنچ نے سوال اٹھایا کہ یہ کس طرح  کی عرضی ہے۔

بنچ نے کہا،  مفاد عامہ کی عرضی کا مطلب غیر ضروری پوچھ گچھ کرنا نہیں ہے۔ ہم یہاں تاریخ کو کھنگالنے کے لیے نہیں بیٹھے ہیں۔ تاریخ کوقائم رہنے دیں۔ رٹ پٹیشن واپس لے لی گئی ہے اس لیے اسے خارج کیا جاتا ہے۔ اگر درخواست گزار چاہے تو معاملہ اے ایس آئی کے سامنے اٹھا سکتا ہے۔ ہم نے اس کی میرٹ  پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

لائیولاکے مطابق، اکتوبر کے اوائل میں عدالت عظمیٰ نے اسی طرح کی ایک اور درخواست کو خارج کیا تھا۔ اس درخواست میں تاج محل کی ‘حقیقی تاریخ’ پڑھانے کی ہدایت دینے کی اپیل  کی گئی تھی۔ بنچ نے اسے ‘پبلسٹی انٹرسٹ لٹیگیشن’ کہا تھا۔

سوموار کو سپریم کورٹ سرجیت سنگھ یادو کی طرف سے دائر ایک عرضی پر سماعت کر رہی تھی، جس میں مرکز کو ہدایت دینے کی درخواست کی گئی ہے کہ وہ تاریخ کی کتابوں اور نصابی کتابوں سے تاج محل کی تعمیر سے متعلق مبینہ غلط تاریخی حقائق کو ہٹائے۔

عرضی میں اے ایس آئی کو یہ ہدایت دینے کی بھی استدعا کی گئی ہے کہ  وہ پتہ لگائے کہ تاج محل کتنا پرانا ہے۔ تاج محل 17ویں صدی کی یادگار ہے جسے یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ہے۔

عدالت نے عرضی گزار سے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کےسامنے اٹھائے۔

عرضی گزار نے دلیل دی تھی کہ ان کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس جگہ پر پہلے ایک شاندار حویلی موجود تھی جہاں مغل بادشاہ شاہ جہاں کی اہلیہ ممتاز محل کی لاش کو دفن کیا گیا۔

عرضی  میں کہا گیا ہے کہ ‘یہ بہت عجیب بات ہے کہ شاہ جہاں کے تمام درباری مؤرخین نے اس شاندار مقبرے کے معمار کے  نام کا ذکرکیوں نہیں کیا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ راجہ مان سنگھ کی حویلی کو منہدم نہیں کیا گیا تھا، بلکہ حویلی کو صرف تاج محل کی موجودہ شکل بنانے کے لیے تبدیل کیا گیا تھا اور اس کی تزئین و آرائش کی گئی تھی… یہی وجہ ہے کہ شاہ جہاں کے درباری مؤرخین نے کسی  بھی معمار کا ذکر نہیں کیا۔’

قابل ذکر ہے کہ مئی کے شروع میں بی جے پی لیڈر رجنیش سنگھ نے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ کے سامنے درج ایک عرضی  میں مقبرے کی ‘حقیقی تاریخ’ جاننے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ بھی کہا تھاکہ اس کی تاریخ کے بارے میں مبینہ ‘تنازعہ’ کوختم کرنے کے لیے اے ایس آئی کو تاج محل کے اندر 22 بند کمروں کے دروازے کھولنے کی ہدایت دی جانی چاہیے۔

اسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔بنچ نے  بی جے پی لیڈر رجنیش سنگھ کی عرضی پر سرزنش کرتے ہوئے کہا  تھاکہ براہ کرم پی آئی ایل سسٹم کا مذاق نہ بنائیں۔ جائیے  اور تحقیق کیجیے۔ نیٹ/جے آر ایف  کیجیے اور اگر کوئی یونیورسٹی آپ کو ایسے موضوع پر تحقیق کرنے سے انکار کر دے تو ہمارے پاس آئیے۔

غور طلب  ہے کہ دائیں بازو کی کئی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ مغل دور کا یہ مقبرہ ماضی میں بھگوان شیو کا مندر تھا۔

سال 2017 میں، بی جے پی رہنما ونے کٹیار نے دعویٰ کیا  تھاکہ 17ویں صدی کی یادگار تاج محل کو مغل بادشاہ شاہ جہاں نے ایک ہندو مندر کو تباہ کرنے کے بعد بنایا تھا۔

تاہم، 17 اگست 2017 کو آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے آگرہ کی عدالت کو بتایا کہ تاج محل کبھی مندر نہیں تھا اور ہمیشہ سے ایک مقبرہ رہا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)