فکر و نظر

کیوں صنعتوں سے محروم شمالی بہار کے شہر شدید فضائی آلودگی سے دوچار ہیں؟

نومبر کے آخری دنوں کی مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ کی رپورٹ میں بہار کے موتیہاری کا ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیوآئی ) 402 تھا۔ یہ صورتحال تقریباً ایک ماہ سے  ہے۔ ایک ایسے شہر میں جہاں صنعت کے نام پر کسی زمانےکی  شوگر مل کے کھنڈرات ہی نظر آتے ہیں، آلودگی کی یہ سطح سنگین سوالوں  کو جنم دیتی ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ (مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ)کی طرف سے 28 نومبر 2022 کو جاری ایک رپورٹ کے مطابق، بہار میں موتیہاری کا ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی )  402تھا۔ اس اے کیو آئی میں پی ایم  2.5(پارٹیکلر میٹر، جو ہوا کا سب سے چھوٹا ذرہ ہے اور آسانی سے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر نقصان پہنچا سکتا ہے) بھی شامل ہے، جو  ‘شدید طور پر خطرناک’ سطح تک جا پہنچا ہے۔

اس سے 11 دن پہلے یعنی 17 نومبر کو اے کیو آئی 410 تھا۔ تاہم، 28 نومبر کو ہی بیگوسرائے اور بتیا کا اے کیو آئی موتیہاری سے زیادہ تھا۔ لیکن، پچھلے ایک مہینے میں قومی میڈیا کی سرخیوں میں موتیہاری اکیلے جگہ بنانے میں ‘کامیاب’ رہا ہے۔

گاندھی کا میدان عمل، ستیہ گرہ کی تجربہ گاہ، نیلہے انگریزوں کے خلاف ستیہ گرہ کی پہلی کامیاب مثال، کامیابی کی یہ کہانیاں موتیہاری (مشرقی چمپارن، بہار) کے کھاتے میں درج ہیں۔ لیکن، نئی صدی کی نئی کامیابی ‘اے کیو آئی’ ہے۔ وہ بھی ایک ایسے شہر میں جہاں صنعت کے نام پر کسی زمانے میں  بڑلا گروپ کے ذریعے شروع کی گئی  شوگر مل کے کھنڈرات ہی نظر آتے ہیں۔

تو سوال یہ ہے کہ آخر جب بہار کا پورا شمالی علاقہ بالخصوص موتیہاری صنعتوں سے خالی ہے تو پھر وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اے کیو آئی  اتنا بڑھ جاتا ہے۔

ضلع انتظامیہ ہو یا ریاستی حکومت کی ایجنسی، ان کی طرف سےاب تک کوئی ایسا سائنسی یا ماحولیاتی مطالعہ نہیں کیا گیا ہے، جو پوری طرح سے یہ بتا سکے کہ اس افسوسناک صورتحال کی وجہ کیا ہے۔ تاہم بہار ریاستی آلودگی کنٹرول بورڈ کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ شمالی بہار (گنگا سے شمالی بہار کے ترائی علاقے تک) میں بڑھتی ہوئی آلودگی کی ایک وجہ اس علاقے کی جغرافیائی ساخت بھی ہو سکتی ہے۔

تاہم یہ دلیل ماحولیاتی سائنس کی کسوٹی پر کتنی درست ہے، یہ تحقیقات کا معاملہ ہے۔

بتیا کی طرف سے آتے ہوئےجیسے ہی آپ موتیہاری شہر میں داخل ہوں گے، آپ کو ‘وکاس’ کی ایک تصویر نظر آئے گی۔ سنگھیا گمٹی، جہاں ایک ریلوے اوور برج بنایا جا رہا ہے۔ اس اوور برج کے 500 میٹر کے دائرے میں تقریباً ہر وقت دھول کا غبار  اڑتا نظر آتا ہے۔ وجہ تعمیراتی کام کے لیے ڈالی گئی مٹی، دیہاتوں سے ٹریکٹروں پر لائی جارہی مٹی اور ریت،  نہ کوئی روکنے والا، نہ کوئی ٹوکنے والا۔

اس کے علاوہ ہزاروں گاڑیاں باہر سے شہر کے اندر آتی اور جاتی رہتی ہیں، جس کی وجہ سے یہ مٹی اور گردو غبار آس پاس کے لوگوں اور گھروں کا جینا مشکل بنا دیتا ہے۔ دراصل اس اوور برج کو شہر میں داخل ہونے والی گاڑیوں کے بائی پاس کے طور پر بھی استعمال کیا جانا ہے۔

موتیہاری کےسینئر صحافی چندر بھوشن پانڈے کہتے ہیں،’جب ہم نے کالج جانا شروع کیا تبھی سےیہ اوور برج بننا شروع ہوا تھا اور آج بھی یہ بن  ہی رہا ہے۔ 40 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ پتہ نہیں کب مکمل ہو گا۔

تعمیراتی کام میں لاپرواہی کو فضائی آلودگی کی وجہ سمجھتے ہوئے ضلع انتظامیہ نے پانی چھڑکنے کا فیصلہ کیا ہے اور تعمیراتی مقامات پر ریت اور مٹی کو ڈھانپنے کا حکم جاری کیا ہے۔ لیکن، سنگھیا گمتی تک پہنچنے تک یہ حکم بے اثر ہو جا رہا ہے۔

پٹنہ کی شہری آبادی 16.84 لاکھ (2011 کی مردم شماری کے مطابق) ہے اور جولائی 2018 تک محکمہ ٹرانسپورٹ میں تقریباً 1437562 گاڑیاں رجسٹرڈ تھیں۔ مظفر پور کی بات کریں تو، بہار ریاستی آلودگی کنٹرول بورڈ کی رپورٹ کے مطابق، یہاں کی شہری آبادی تقریباً 3.93 لاکھ ہے جبکہ گاڑیوں کی تعداد 7.40 لاکھ ہے۔

جبکہ موتیہاری (مشرقی چمپارن) پٹنہ کے بعد بہار کا دوسرا سب سے بڑا ضلع ہے (آبادی کے لحاظ سے)۔ اس حساب سے دیکھیں تو مظفر پور اور موتیہاری کی شہری آبادی کے مقابلے گاڑیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ گاڑیوں کے مذکورہ اعداد و شمار صرف سال 2018 تک کے ہیں۔ پچھلے چار سالوں میں اس تعداد میں اور بھی اضافہ ہوا ہوگا۔ نومبر 2022 کے پہلے ہفتے میں موتیہاری شہر کو بھی شدید ٹریفک جام سے دوچار دیکھا گیا۔

ایکشن پلان فار ایئر کوپالیوشن کنٹرون ان نان اٹینمنٹ سٹیز آف بہار (مظفر پور)‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پٹنہ اور مظفر پور میں فضائی آلودگی کی اہم وجوہات سڑکوں کی دھول، گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، گھر میں جلائے جانے والےچولہے، کھلےمیں کچرے کو جلانا، تعمیراتی سرگرمیاں اور صنعتی اخراج۔ ظاہر ہے کہ یہی سماجی و جغرافیائی حالت موتیہاری شہر کی بھی ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق، بہار کا مظفر پور، ہندوستان ہی نہیں دنیا کے سب سے زیادہ آلودہ (فضائی آلودگی) والے 20 شہروں میں شامل تھا۔ ابھی بھی یہاں کا اے کیو آئی انتہائی ناقص یا شدید (شدید طور پر خطرناک) سطح کا ہے۔ موتیہاری، بتیا، بیگوسرائے، سیوان بھی سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں شامل ہیں اور روزانہ سی پی سی بی کی طرف سے جاری کردہ اے کیو آئی  رپورٹ میں اپنے نام درج کرا رہے ہیں۔

مظفر پور میں فضائی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ کانٹی تھرمل پاور اسٹیشن ہے جو کہ رہائشی علاقے میں بنایا گیا۔ بیلا انڈسٹریل ایریا میں بہت سی کیمیکل فیکٹریاں ہیں، جو شاید ہی آلودگی پر قابو پانے کے اصولوں پر پوری طرح عمل کرتی ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مظفر پور میں سینکڑوں پرائیویٹ نرسنگ ہوم اور ہسپتال ہیں، جو روزانہ سینکڑوں کلو گرام بایو میڈیکل فضلہ پیدا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مظفر پور میں ایک میڈیکل کالج اور صدر اسپتال بھی ہے۔

مظفر پور میں شہری آبادی کے مقابلے گاڑیوں کی تعداد تقریباً دوگنی ہے، اور چونکہ شہر کا سڑک انفرا اسٹرکچر اب بھی پرانا ہے، اس لیے بھاری ٹریفک جام لگتا ہے۔ اس طرح جام میں پھنسی گاڑیاں بڑی مقدار میں دھواں خارج کرتی ہیں۔ موتیہاری جیسے شہر کا بھی یہی حال ہے۔

بایو میڈیکل اور ٹھوس فضلہ بھی فضائی آلودگی کی ایک وجہ ہے۔ گھروں اور ریستورانوں سے بایو میڈیکل ویسٹ اور فضلہ سڑک کے کنارے پھینک کر کھلے میں جلا دیا جاتا ہے۔ غورطلب ہے کہ بہار ریاستی آلودگی کنٹرول بورڈ کی جانب سے ایک فہرست جاری کی گئی تھی، جس میں ضلع وار سینکڑوں ڈی فالٹنگ اسپتالوں کے نام درج ہیں، جن کے پاس پالیوشن بورڈ کی اجازت نہیں ہے۔

موتیہاری اور مظفر پور جیسے شہر بھی اس سے اچھوتے نہیں ہیں۔ موتیہاری شہر میں بڑی مقدار میں کچراہائی وے کے کنارے پھینکا جا رہا ہے، جبکہ شہری آبادی سے دور کچرا اٹھانے کے لیے بنایا گیا ڈمپنگ یارڈ تعمیر کے دو سال گزرنے کے باوجود استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ 250 سے زیادہ  اے کیو آئی صحت کے لیے نقصان دہ سمجھا جاتا ہے۔ لیکن، 400 اے کیو آئی  اب اس شہر کے لیے ‘نیو نارمل’ بنتا جا رہا ہے۔

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذرات دل کی بیماری، پھیپھڑوں کے کینسر اور سانس کی بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس کے مطابق، پوری دنیا میں ہونے والی سالانہ اموات کا 3فیصد کارڈیو پلمونری (دل اور پھیپھڑوں سے متعلق) بیماری اور 5فیصد اموات پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ یورپ میں پی ایم 2.5 کی وجہ سے لوگوں کی متوقع عمر میں 8.6 ماہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔

انوائرمنٹل سائنس اینڈ ٹکنالوجی لیٹرس جرنل (2014 میں امریکن کیمیکل سوسائٹی کی طرف سے قائم کیا گیا تھا) کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق، پی ایم  2.5 نے ایشیا اور افریقہ کے ممالک میں لوگوں کی متوقع عمر 1.2 سے 1.9 سال تک کم کر دی ہے۔

تاہم، جیسا کہ مرکزی آلودگی کنٹرول بورڈ نے اپنے ایکشن پلان میں کہا ہے: خشک پتے، فصل کی باقیات، لکڑی، کوئلہ، گوبر کے اپلے نہ جلائیں اور اس کے ساتھ ہی بہار ریاستی آلودگی کنٹرول بورڈ نے اپنے ایکشن پلان میں نو نکاتی اقدامات تجویزکیے ہیں کہ کیسے فضائی آلودگی کو کیا جا سکتا ہے۔ ان اقدامات پر عملدرآمد کے لیے مانیٹرنگ میکنزم، عوامی آگاہی اور شکایات کے ازالے کا طریقہ کار، عوامی مشاورت، درجہ بند رسپانس ایکشن پلان کو اپنانے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ لیکن، یہ کہنا مشکل ہے کہ آیا ان اقدامات پر صحیح طریقے سے عمل ہو رہا ہے یا کوئی اثر دکھائی دے رہا ہے۔

(ششی شیکھر ایک آزاد صحافی ہیں۔)