خبریں

کانگریس پاپولیشن کنٹرول بل لاتی تو میں 4 بچوں کا باپ نہ ہوتا: بی جے پی ایم پی روی کشن

بی جے پی ایم پی  روی کشن نے لوک سبھا میں ایک پرائیویٹ بل پیش کیا ہے، جس میں آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے کی دفعات ہیں۔ اس کا مقصد لوگوں کو دو سے زیادہ بچوں کو جنم دینے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جن کے دو سے زیادہ بچے ہیں انہیں سرکاری ملازمتوں اور سرکاری سہولیات اور سرکاری سبسڈی کے لیے نااہل قرار دیا جانا چاہیے۔

روی کشن۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

روی کشن۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی:خود کو چار بچوں کا باپ بن جانے کے لیے بی جے پی کےایم پی  روی کشن نے کانگریس پارٹی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ گزشتہ جمعہ کو انہوں نے کہا تھا کہ اگر کانگریس مرکز میں اقتدار میں رہتے ہوئے پاپولیشن کنٹرول بل لاتی تو وہ ‘رک’ جاتے۔

بھوجپوری فلم انڈسٹری میں پہلی بار اپنا نام بنانے والےکشن نے پارلیامنٹ میں پاپولیشن کنٹرول بل پیش کرنے سے ٹھیک پہلے ایک نیوز چینل کےپروگرام سے خطاب کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیا۔

اتر پردیش میں گورکھپور سے ایم پی روی کشن نے کہا، ‘میرے چار بچے ہیں۔ ایک باپ کے طور پران کی پرورش کے دوران میرا اپنااسٹرگل بھی تھا۔ سپر اسٹارڈم تو میں نے بہت عرصے بعددیکھا۔ شروع میں ہمیں فلم انڈسٹری میں 15 سال تک پیسے نہیں دیے گئے۔ وہ کہتے تھے کہ کام لو یا پیسہ، میں کام کا انتخاب اس لیے کرتا تھا کہ مجھے کام چاہیے تھااور پیسہ پیچھے پیچھے  آئے گا ہی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ،’اب بچے ہونے لگے تو ایک باپ کے طور پر میں نے اپنی بیوی کو دیکھا، وہ لمبی تھیں، دبلی  پتلی تھیں، اب میں نے ان  کے جسم  کو بگڑتے ہوئے دیکھا، ایک ڈلیوری کے بعد، دوسری ڈلیوری کے بعد۔ کچھ دماغ نہیں چلتا تھا۔ اسٹرگل بھی کر رہا ہوں، شوٹنگ بھی کر رہا ہوں، تیسری  بے بی، فورتھ بے بی ہوگئی۔ اب جب وقت… زندگی نے ٹھہراؤ دیا، پختگی آئی، زندگی میں کچھ چیزیں مستحکم ہوگئیں، اب جب انہیں دیکھتا ہوں تو آئی فیل ساری۔

اس پر جب اینکر نے انہیں ٹوکا کہ،’اب لوگ تو یہی  بولیں گے  نہ کہ اپنا تو کرلیا، اب دوسروں پر پابندی لگا رہے ہیں’، تو روی کشن نے تپاک سے کہا، ‘ارے تو بھائی، اگر کانگریس یہ بل پہلے لاتی تو ہم رک جاتے۔

تب اینکر نے ہنستے ہوئے کہا، ‘اس میں بھی کانگریس قصوروار ہے’ پھر روی کشن نے کہا، ‘ہاں، سمجھ رہے ہو’۔

نیوز چینل کے پروگرام کے بعد بی جے پی کے رکن پارلیامنٹ روی کشن نے لوک سبھا میں ایک پرائیویٹ بل پیش کیا، جس میں آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے کااہتمام ہے۔

گورکھپور سے لوک سبھا کے رکن نے ‘پاپولیشن کنٹرول بل 2019’ ایوان میں پیش کیا۔ اس کے علاوہ کئی اور پرائیویٹ بل لوک سبھا میں پیش کئے گئے۔

ملک میں آبادی پر قابو پانے کے حوالے سے مجوزہ بل کا مقصد لوگوں کو دو سے زیادہ بچوں کو جنم دینے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ دو سے زیادہ بچوں والے جوڑوں کو سرکاری ملازمتوں اور حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی مختلف سہولیات اور سامانوں پر سبسڈی کے لیے نااہل قرار دیا جانا چاہیے۔

حالانکہ اس بل کو تقریباً تین درجن بار پارلیامنٹ میں پیش کیا جا چکا ہے، لیکن دونوں ایوانوں سے گرین سگنل حاصل کرنے میں یہ بل ناکام رہا ہے۔

پاپولیشن کنٹرول بل، 2019، جسے 2022 میں واپس لے لیا گیا تھا،میں فی جوڑے دو بچوں کی پالیسی کی تجویز تھی۔ اس بل میں تعلیمی فوائد، ہوم لون، روزگار کے بہتر مواقع، مفت صحت کی دیکھ بھال اور ٹیکسوں میں کٹوتیوں کے ذریعے پالیسی کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کرنے کی بھی تجویز ہے۔

معلوم ہو کہ بی جے پی مقتدرہ کئی ریاستیں، خاص طور پر اتر پردیش اور آسام، اس خیال کو آگے بڑھا رہی ہیں کہ قانونی تبدیلیوں کے ذریعے آبادی پر کنٹرول ضروری ہے۔

اس سال جون کے مہینے میں فوڈ پروسیسنگ انڈسٹریز کے مرکزی وزیر مملکت پرہلاد سنگھ پٹیل نے کہا تھا کہ ملک میں آبادی کنٹرول قانون جلد ہی لایا جائے گا۔

جولائی 2021 میں اتر پردیش نے دو بچوں والی پالیسی کو لاگو کرنے کے لیے ایک مسودہ بل جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھاکہ اس پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بلدیاتی انتخابات لڑنے، سرکاری ملازمتوں کے لیے درخواست دینے، پروموشن اور کسی بھی طرح  کی سرکاری سبسڈی حاصل کرنے سے روک دیا جائے گا۔

جولائی 2021 میں ہی دی وائر نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس طرح کے قوانین کے بہت سے نتائج  ہوتے ہیں، جن میں بچیوں کے جنین کشی میں اضافہ، غیر محفوظ اسقاط حمل اور چنندہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا جانا شامل ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق، بڑھتی ہوئی آبادی کا ٹھیکراعام طور پر سنگھ پریوار اور ان کے اتحادی مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے ان پر پھوڑتے ہیں ،جس سے ایک جھوٹا بیانیہ تیار کیا جاتا ہے  کہ مسلمان ملک میں اکثریت میں آنے  کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

جولائی 2021 میں، آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما نے مسلم علاقوں میں آبادی پر قابو پانے کے لیے ‘یوتھ آرمی’ تیار کرنے کی بات کی تھی۔

سال 2021 میں ہی وکٹوریہ یونیورسٹی آف ویلنگٹن میں سینٹر فار سائنس ان سوسائٹی کی سینئر لیکچرر نین تارا شیورن ایپلٹن نے دی وائر سائنس کو بتایا تھا کہ،یہ حقیقت نہیں ہے۔ آبادی کے دھماکے کا خیال ملک کے پہلے سے ہی مسلم مخالف جذبات کو بڑھاوا دیتا ہے۔ ممتاز سیاست دانوں کے فرقہ وارانہ بیانات سے اس بات کو ہوا ملتی ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے ہندو آبادی کو پیچھے چھوڑ رہی ہے۔ تاہم، حقیقت میں مسلمانوں میں شرح پیدائش (ٹی ایف آر) ہندوؤں کے مقابلے میں تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

اگست 2018 میں 125 ارکان پارلیامنٹ نے صدر کو ایک خط لکھا تھا، جس میں ملک میں دو بچوں کے اسٹینڈرڈ کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایک سال بعد آر ایس ایس کے پس منظر والے رکن پارلیامنٹ راکیش سنہا نے پرائیویٹ ممبر کے بل کے طور پر پارلیامنٹ میں پاپولیشن ریگولیشن بل پیش کیا تھا۔

سال 2019 میں اپنی یوم آزادی کی تقریر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا، ‘ہمیں آبادی کے دھماکے کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہے’، کیونکہ یہ ‘وکاس’ کے لیے نقصاندہ ہے۔ انہوں نے چھوٹے خاندانوں والے لوگوں کو ‘ذمہ دار شہری’ کے طور پر پیش کیا تھا۔

سال 2020 میں شیو سینا سے وابستہ راجیہ سبھا کے رکن انل دیسائی نے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 47اےمیں ترمیم کی تجویز پیش کی تھی، تاکہ اس سلسلے میں لائے گئےاترپردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کے بل کے مسودے کی طرح کی دفعات کو شامل کیا جاسکے۔

پاپولیشن کنٹرول بل کو بی جے پی کے اس ایجنڈے کے ساتھ بھی  جوڑا جاتاہے، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہندو خطرے میں ہیں۔ اکثریتی ہندو برادری کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پارٹی کے ارکان اس لائن کو انتخابی مہم کے دوران استعمال کرتے ہیں۔