فکر و نظر

آہ! عامر سلیم خان صاحب

عامرسلیم خان اپنی رپورٹس کی دلچسپ  سرخیوں اور خبر وں کی ترتیب و پیشکش کے لیے ہمیشہ یاد کیے جائیں گئے ۔ مجھ جیسے  صحافت کے طالبعلم کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ایک سرخی ان جیسی لگا پاتا ۔

نیو ہورائزن اسکول نظام الدین ایسٹ ، نئی دہلی میں ایک تقریب کے دوران اعزاز حاصل کرتے ہوئے عامر سلیم خان، فوٹو بہ شکریہ فیس بک

نیو ہورائزن اسکول نظام الدین ایسٹ ، نئی دہلی میں ایک تقریب کے دوران اعزاز حاصل کرتے ہوئے عامر سلیم خان، فوٹو بہ شکریہ فیس بک

اُردو کے معروف صحافی اور روزنامہ ’ہمارا سماج‘ کے مدیر عامر سلیم خان کا دل کا دورہ پڑنے سے  دہلی میں انتقال ہو گیا۔جانکاری کے مطابق چار دن قبل انہیں دل کا دورہ پڑا تھا، وہ  دہلی کے جی بی پنت اسپتال میں زیر علاج تھے۔آج صبح انھیں ایک بار پھردل کا دورہ پڑا، اس کے بعد انہیں  وینٹی لیٹر پر رکھا گیاتھا۔

اطلاعات کے مطابق ، عامر سلیم خان عالم دین تھے اور انہوں نے جامعہ سنابل دہلی سے فضیلت کی ڈگری حاصل کی تھی۔ پسماندگان میں اہلیہ اور تین بیٹے ہیں۔حال کے دنوں میں انہوں نے ‘ہمارا سماج’ کا یوٹیوب چینل بھی شروع کیا تھا۔

یہاں سینئر صحافی اور مرحوم  عامرسلیم خان صاحب کے سابق شریک کار اشرف علی بستوی کا تعزیتی مضمون پیش کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

عامر بھائی سے میرارابطہ پہلی بار 25 مئی 2006 کو دریا گنج واقع روزنامہ ہندوستان ایکسپریس کے دفترمیں ہوا تھا، اس وقت  اخبار کے بانی مدیر خالد انور نے بطوررپورٹر میراسلیکشن کرنے کے بعد عامر سلیم خان صاحب سے یہ کہتے ملوایا تھا کہ ، یہ عامر سلیم خان آپ کے چیف رپورٹر ہیں، جائیے ان کے ساتھ مل کر کام کیجیے۔ اس دن  سے جو تعلق بنا وہ اسی طرح برقرار رہا اورآخری باررابطہ ایک خبرکی اشاعت کے سلسلے میں 9 دسمبر 2022 کی شام 6 بجے بذریعہ وہاٹس ایپ چیٹ ہوا،انہوں نے  لکھا ‘اوکے بھائی’۔

اگلی صبح اخبارات کی آن لائن مانیٹرنگ کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ فیس بک پر نظر پڑی؛  عامربھائی کو رات دیرگئے دل کا دوسرا دورہ پڑا اورانہیں جی بی پنت میں انتہائی نگہداشت والی یونٹ میں داخل کرایا گیا ہے ۔ اسی لمحے سے عامر بھائی کے چاہنے والوں کی بڑی تعداد ان کی صحت یابی کی دعائیں کررہی تھی۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

عامر بھائی کا تعلق سدھارتھ نگر (اترپردیش)سے تھا۔ پسماندگان میں اہلیہ اور تین بیٹے ہیں ۔ ابھی ایک ماہ قبل مرحوم کے والد محترم کا بھی دوران علاج دہلی میں انتقال ہوگیا تھا ۔

عامربھائی کے ساتھ کام کرنے کی مدت تو بہت کم رہی کیونکہ تین ماہ ہی گزرے تھے کہ میرا سلیکشن سہ روزہ دعوت میں ہوگیا اور میں جامعہ نگر شفٹ ہوگیا،  لیکن ان سے سیکھنے کا  عمل آخرتک جاری رہا ۔ البتہ اب ملاقاتیں کم ہوتیں، لیکن جب ہوتیں بھر پور ہوتیں اور میری کسی نہ کسی تحریر یا ویڈیو رپورٹ کے حوالے سے بات شروع کرتے اور دل کھول کرحوصلہ افزائی کرتے ۔

آج بھی  مجھے پیارسے بستی والا کہہ کر پکارتے ، ہندوستان ایکسپریس میں میرا قلمی نام اشرف بستی والا تھا جو انہیں بہت پسند تھا ۔

ان کے ساتھ کام کرتے ہوئے جو تجربات ہوئے اس میں سے ایک واقعہ اس وقت ذہن میں آرہا ۔ جولائی 2006 کی کوئی شام تھی،  میں دوپہرکی رپورٹرس میٹنگ میں شریک ہوا اور شام ہوتے ہوتے دیے گئے ڈے پلان کے مطابق اپنے حصے کی دو خبریں ڈیسک کو دےکر تیسری خبر کی کوریج کے لیے شام سات بجے آ ئی ٹی او واقع پیارے لال بھون پہنچا وہاں ایک کلچرل پروگرام تھا جس میں قوالی بھی تھی ۔

محفل کچھ اس طرح جمی کہ کافی دیرہوگئی اورذہن میں آیا کہ کیا ہوا دو خبریں تو دے ہی دیا ہے اب اس کی رپورٹ کل دے دوں گا ۔ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ موبائل کی گھنٹی بجی’پیج جانے کا وقت ہوگیا ہے بھائی خبر کہاں ہے  ؟’ میں نے کہا سر، یہاں قوالی ہورہی ہے ،دوسری طرف سے عامر بھائی بولے یہاں خالد صاحب مجھے قوالی سنا رہے ہیں، جلدی کریں ۔ خیر گھبراہٹ میں کسی طرح دفتر پہنچا اور جلدی جلدی رپورٹ فائل کی، اتنے میں وہ پیچھے سے آئے، کندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے ہی نرم لہجے میں بولے ‘بھائی بستی والا ایسا نہ کریں آپ کوآج تین رپورٹ دینی تھی رپورٹنگ کرتے وقت اپنا اور اپنے وقت کا خیال رکھیں ۔’

ابھی ایک ماہ قبل ایک موقع پر ملاقات ہوئی تھی۔  ہمارا سماج کے نئے نئے یوٹیوب چینل کے بارے میں باتیں ہوئیں اور  اسے مزید فعال کیسے بنایا جائے اس پر بات ہوئی۔ کہنے لگے بھائی قارئین اب ناظرین میں جس تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں،اس تبدیلی کو ہمیں سمجھنا ہوگا ۔

عامر بھائی پریس کلب آف انڈیا کے رکن تھے ، ورکنگ جرنلسٹ کلب کے صدر تھے ملی ایشوز پرلکھنے کا ملکہ رکھتے تھے ، ذرائع کا خوب استعمال کرتے لیکن مکمل رازداری رکھتے ۔ کبھی کبھار جب کوئی اہم اسپیشل رپورٹ لکھ رہے ہوں تو فون کرکے ضروری معلومات اپڈیٹ کرتے ،خاص طور سے ملی ایشوزپرلکھتے وقت ضرور یاد کرتے ۔

ہندوستان ایکسپریس نےاولین دنوں میں کئی ایسی خبریں دیں جو صرف اسی اخبارمیں دیکھی گئیں ۔

عامرسلیم خان اپنی رپورٹس کی دلچسپ  سرخیوں اور خبر وں کی ترتیب و پیشکش کے لیے ہمیشہ یاد کیے جائیں گئے ۔ مجھ جیسے  صحافت کے طالبعلم کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ایک سرخی ان جیسی لگا پاتا ۔ اللہ تعا لیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور پسماندگان کو صر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

(اشرف علی بستوی ایشیا ٹائمز نئی دہلی کے چیف ایڈیٹر ہیں۔)