خبریں

چھتیس گڑھ: نارائن پور ضلع میں عیسائی مخالف تشدد کے خلاف گاؤں والوں کا احتجاجی مظاہرہ

بستر ڈویژن کے نارائن پور ضلع میں کلکٹریٹ کے باہرسینکڑوں لوگوں نے احتجاجی  مظاہرہ کیا۔ کلکٹر کو دیے گئے میمورنڈم میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ آر ایس ایس اور دیگر ہندوتوا تنظیموں کے اکساوے پر عیسائیوں کے خلاف تشددکیا جا رہا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے کارروائی کی جائے۔

نارائن پور ڈسٹرکٹ کلکٹریٹ کے باہر عیسائی مخالف تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ  کی ایک تصویر۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نارائن پور ڈسٹرکٹ کلکٹریٹ کے باہر عیسائی مخالف تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ  کی ایک تصویر۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: مقامی لوگوں کے مطابق، چھتیس گڑھ کے بستر علاقے کے نارائن پور ضلع کے مختلف گاؤں سے عیسائی مخالف مظاہروں کے 20 سے زیادہ واقعات سامنے آئے ہیں۔

تقریباً ایک ہزارکی تعداد میں  مشتعل مقامی لوگ اس وقت نارائن پور میں ضلع کلکٹریٹ کے باہر ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں تاکہ تشدد کے ان  واقعات  کے سلسلے  میں ایف آئی آر درج کرنے کے لیے حکام پر  دباؤ بنایا جا سکے۔

بتایا گیا ہے کہ منگل کی دوپہر تک گاؤں والے کلکٹریٹ کے باہر احتجاج کر رہے تھے۔

مقامی لوگوں نے شکایت کے ساتھ ضلع کلکٹر کو ایک میمورنڈم سونپا ہے، جس میں تشدد کرنے والوں  کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق، تشدد کرنے والوں  کو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) اور دیگر ہندوتوا تنظیموں سے متاثر مقامی سیاست دانوں نے اکسایا تھا۔

دی وائر کےدیکھے گئے دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ صرف 18 دسمبر کو 20 حملےدرج کیے گئے۔ 18 دسمبر کے تشدد کو چھوڑ کر دسمبر میں اب تک 21 مختلف واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں نومبر میں 15 اور اکتوبر کے مہینے میں  3 واقعات رونماہوئے۔

شکایت کے مطابق، بستر کے چیرانگ میں 50 لوگوں کو مارا پیٹا گیا اور ان کو گھروں سے بھگا دیا گیا۔ تشدد کے الگ الگ واقعات میں بھاٹ پال، موڈینگا اور گوہڑا عیسائیوں پر حملہ کیا گیا۔ شکایت میں کہا گیا ہے کہ بورونڈا سے بھی پرتشدد حملے اور توڑ پھوڑ کے ایک  واقعہ کی اطلاع ملی تھی۔

اپنی شکایت میں مقامی لوگوں نے الزام لگایا کہ جو   لوگ عیسائی مذہب پر عمل کر رہے ہیں ، ان کو گاؤں کے مختلف لیڈروں کی جانب سے تشدد کے لیے  بھڑکانے کے بعد نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے بتایا، گاؤں  کے رہنماؤں نے ہمیں دھمکیاں دینے، گالیاں دینے  اور ہماری فصلوں اور پیداوار کو تباہ اور چوری کرکے ہم پر جسمانی حملہ کرنے کے لیے دوسرے لوگوں کو اکسایا۔ عیسائیوں پر جادو ٹونے کا الزام لگاتے ہوئے سماجی بائیکاٹ کی  بھی اپیل  کی گئی۔

Narayanpur Collector Complaint by The Wire

پرتشدد حملوں سے متاثر ہونے والے لوگ مقامی سیاستدانوں کو اکساوے کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہتے ہیں، ہم ان گاؤں میں بغیر کسی تفریق کے، نسلوں سے رہ رہے ہیں ، پر امن طریقے سے اپنے مذہب اور رسم و رواج پر عمل کر رہے ہیں۔ تاہم، کچھ رہنما دوسروں کو ہم پر اور ہماری کمیونٹی پر حملہ کرنے کے لیے اکسا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں، ہم پر ہمارے گھروں میں حملہ کرنے کے لیے گرام سبھاؤں کے  نام  کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ خواتین اور ہمارے بچوں کے خلاف  نازیبا تبصرے  کیے جا رہے ہیں، ہمارے بنیادی حقوق، ہمارے جینے کا حق اور ہمارے انسانی حقوق ہم سے چھینے جا رہے ہیں۔

چھتیس گڑھ  کے نارائن پورمیں عیسائی مخالف تشدد سے متاثرہ لوگ اپنا گاؤں چھوڑ کر جاتے ہوئے۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

چھتیس گڑھ  کے نارائن پورمیں عیسائی مخالف تشدد سے متاثرہ لوگ اپنا گاؤں چھوڑ کر جاتے ہوئے۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

اس وقت زمین پر فعال طور پر کام کر رہے ایک کارکن وریندر کاپ نے دی وائر کو بتایا،گاؤں والوں کو چوٹیں آئی ہیں اور کئی  لوگوں کے بدن پورے طور پرکالے پڑ چکے ہیں، لیکن وہ ایف آئی آر درج کرنے اورحملوں کے لیے اکساوا اور اس کو انجام دینے والوں کے خلاف کارروائی کے لیےانتظامیہ پر دباؤ بنانے کے لیے ضلع کلکٹریٹ کے سامنے بیٹھے ہیں۔

انہوں نےبتایا کہ حملوں کاپیٹرن بتاتا ہے کہ یہ آر ایس ایس جیسی دائیں بازو کی تنظیموں کے اکسانے کا نتیجہ ہے۔

مقامی کارکن کھوراکہتے ہیں،آر ایس ایس کے لوگ عام لوگوں میں یہ رائے پیدا کر رہے ہیں کہ عیسائیوں کو گاؤں چھوڑ دینا چاہیے۔ یہ مکمل طور پر مربوط آپریشن ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس اس وقت ہوا جب ہم گراؤنڈ پر پہنچے اور ایسے 69 واقعات کو شمار کیا، یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔

مقامی لوگوں نے اپنی شکایت میں ان واقعات کے لیے  ذمہ دار26 لوگوں کونامزد کیا ہے، جن میں بی جے پی کے نارائن پور ضلع صدر روپ سائی سلام، بے نور کے صدر پھول دھر کچنام، باھٹ پال گاؤں کے شیام لال پوٹائی اور دیگر کے نام  شامل ہیں۔

ان گاؤں  کی زیادہ تر آبادی گونڈ اور موریا قبائل کی ہے۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئےایک کارکن  وکرم کمار (بدلا ہوا نام)، جو اس وقت تشدد کے خلاف احتجاجی مظاہرہ  میں  تھے ، نے سوموار کوبتایا، یہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ عیسائیوں کے خلاف ایک مربوط مہم شروع کر دی گئی ہے۔ 18 دسمبر کو 20 سے زیادہ گاؤں  پر حملہ کیا گیا۔ تشدد کے اب تک بیس مقدمات درج ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد سے ہم گزشتہ 24 گھنٹوں سے کلکٹریٹ کے باہر احتجاجی مظاہرہ  کر رہے ہیں۔ کسی کے گھر میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے تو کسی کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ آر ایس ایس سے وابستہ لیڈروں اور بجرنگ دل جیسے دائیں بازو کے دیگر گروپوں نے ان حملوں کے لیے اکسایا ہے۔

تشدد میں زخمی ہونے والے لوگ اس وقت نارائن پور ڈسٹرکٹ اسپتال اور کونڈاگاؤں ڈسٹرکٹ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ زخمیوں کی صحیح تعداد کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔

دی وائر نے نارائن پور ضلع کلکٹریٹ کے نوڈل افسر دیویش دھرو سے ان کے دفتر کے باہر احتجاج کے بارے میں رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا، ‘کوئی احتجاجی مظاہرہ  نہیں ہوا۔ ہم نے ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی ہے۔ صورتحال قابو میں ہے۔

(اس  رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)