خبریں

فلمساز سعید اختر مرزا نے فلم دی کشمیر فائلز کو ’کچرا‘ بتایا، کہا – بات طرفداری کی نہیں ہے

ہندوستانی سینما کے معروف ہدایت کار سعید اختر مرزا نے متنازعہ فلم دی کشمیر فائلز کے بارے میں ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ فلم میرے لیے کچرا ہے۔ بات طرفداری  کی نہیں ہے ۔ انسان بنیے اور معاملے کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔

فلم سعید اختر مرزا اور دی کشمیر فائلز کا پوسٹر۔ (تصویر: رائٹرس/وکی پیڈیا)

فلم سعید اختر مرزا اور دی کشمیر فائلز کا پوسٹر۔ (تصویر: رائٹرس/وکی پیڈیا)

نئی دہلی: معروف فلمساز سعید اختر مرزا نے اس سال کئی بار بحث اور تنازعات کا شکار رہی وویک اگنی ہوتری کی فلم دی کشمیر فائلز کو کچرا  بتاتے ہوئے کہا کہ بات طرفداری  کی نہیں ، موضوع کو انسانی طور پرسمجھنے کی  ہے۔

نیشنل فلم ایوارڈ یافتہ مرزا نسیم، البرٹ پنٹو کوغصہ  کیوں آتا ہے، سلیم لنگڑے پر مت رو جیسی فلموں اور مشہور سیریل نکڑ کے لیے جانے جاتے ہیں۔

انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس سال ریلیز ہونے والی کشمیر فائلز کا ذکر آنے پر کہا، ‘میرے لیے یہ فلم کچرا ہے۔ کیا کشمیری پنڈتوں کا مسئلہ کچرا ہے؟ نہیں وہ نہیں ہے۔یہ حقیقی  ہے۔ کیا یہ صرف کشمیری ہندوؤں کے بارے میں  ہے؟ نہیں۔ اس میں مسلمان بھی شامل ہیں جو انٹلی جنس ایجنسیوں کی سازشوں کے فحش جال ، ، نام نہاد قومی مفادات کی بات کرنے والے ممالک اور سرحد پار سے تباہی پھیلانے والے لوگوں کے بیچ  پھنسے ہیں۔ بات کسی کو سپورٹ کرنے کی نہیں ہے۔ انسان بنیے  اور معاملے کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔

بات چیت میں انہوں نے آنجہانی ڈائریکٹر کندن شاہ کا بھی ذکر کیا۔ مرزا نے ان کی یادداشت تحریر کی  ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شاہ نے 2002 کے گجرات فسادات کے دوران ان سے معافی مانگی تھی۔

انہوں نے کہا، ‘انہوں نے گجرات فسادات کے بارے میں مجھ سے معافی مانگی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ میں ہندو ہوں اور کسی نہ کسی کو جوابدہ ہونا پڑے گا۔ میں جانتا ہوں کوئی نہیں ہو گا۔میں نے کہا کہ 21ویں صدی میں تم ہندو بن رہے ہو اور میں مسلمان؟ انہوں نے کہا کہ بات یہی  ہے۔ تم اس سے منہ پھیر رہے ہو، میرے ملک کا  یہی سچ ہے۔

انہوں نے ‘حب الوطنی کو پیسہ کمانے کے طور پر استعمال کیے جانے ‘ کے بارے میں بھی بات کی اور کہا کہ یہ ہر کوئی کرتا ہے اور اس میں دنیا کے بہت سے ممالک شامل ہیں۔

سعید اختر مرزا موہن جوشی حاضر ہو (1984)، البرٹ پنٹو کوغصہ کیوں آتا ہے (1980)، سلیم لنگڑے پر مت رو (1989) اور نسیم (1995) جیسی فلموں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ وہ مقبول ٹی وی سیریل نکڑ (1986) اور انتظار (1988) کے ڈائریکٹر ہیں۔ انہوں نے آخری بار شارٹ فلم کرما کیفے لکھی تھی، جو 2018 میں ریلیز ہوئی تھی۔

بتادیں کہ ‘دی کشمیر فائلز’ 11 مارچ کو سینما گھروں میں ریلیز ہوئی تھی۔

اس فلم کے مصنف اور ہدایت کار وویک اگنی ہوتری ہیں۔ پروڈیوسر زی اسٹوڈیو ہے۔ یہ فلم سال 1990 میں پاکستان  اسپانسرڈ دہشت گردوں کے ہاتھوں کشمیری پنڈتوں کے قتل کے بعد کشمیر سے کمیونٹی کے انخلا پر مبنی ہے۔ اس میں اداکار انوپم کھیر، درشن کمار، متھن چکرورتی اور پلوی جوشی سمیت دیگر اہم کرداروں میں ہیں۔

گزشتہ ماہ، گوا میں 53 ویں انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا (آئی ایف ایف آئی) کے جیوری چیف اور اسرائیلی فلمساز نادو لیپڈ نے  ہندی فلم ‘دی کشمیر فائلز’ کو ‘پروپیگنڈہ’  اور ‘فحش’ فلم قرار دیا تھا۔یہ فلم آئی ایف ایف آئی کے ‘انڈین پینورما سیکشن’ کا حصہ تھی  اور اسے 22 نومبر کو دکھایا گیا تھا۔

 لیپڈ نے الزام لگایا کہ ‘دی کشمیر فائلز’ کو ‘سیاسی دباؤ‘ کے تحت فیسٹیول میں زبردستی شامل کرایا گیا۔

اپنے بیان کی وجہ سے ہندوستان میں ایک طبقے کے نشانے پر آئے لیپڈ نے تتنقید کا جواب دیتے ہوئے  کہا تھا کہ بری فلم بنانا کوئی جرم نہیں ہے، لیکن وویک اگنی ہوتری کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم ‘ادھوری، جان بوجھ کر حقائق کو مسخ کرنے والی  اور پرتشدد’ ہے۔

تنازعہ کے درمیان آئی ایف ایف آئی  جیوری کے تین غیر ملکی اراکین نے کہا تھا کہ لیپڈ  نے جو کہا ، وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

معلوم ہو کہ فلم ’دی کشمیر فائلز‘ کی ریلیز کے بعد سیاسی جماعتوں میں بھی بحث چھڑ گئی تھی۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سمیت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کئی رہنماؤں نے جہاں فلم، اس کی کاسٹ اور اس کے فلم سازوں کی تعریف کی تھی۔ وہیں اپوزیشن نے اسے یک طرفہ اور انتہائی پرتشدد قرار دیا تھا۔

بی جے پی کے مخالفین پر سخت حملہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے 15 مارچ 2022 کو کہا تھا کہ ایسی فلمیں بنتی رہنی چاہیے، کیونکہ یہ  سچائی کو سامنے لاتی ہیں۔ جس سچ کو عرصہ دراز سے چھپانے کی کوشش کی گئی اسے سامنے لایا جا رہا ہے، جو سچ چھپانے کی کوشش کرتے تھے آج وہ احتجاج کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا تھا، ‘ان دنوں کشمیر فائلز پر خوب بحث ہو رہی ہے۔ جو ہر وقت اظہار  رائے کی آزادی کا جھنڈا لے کر گھومتے رہتے ہیں، وہ پوری جماعت بوکھلا گئی  ہے۔

اس کے علاوہ بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کی طرف سے فلم کی سرگرمی سے تشہیر کی گئی  تھی اور تمام بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں فلم کو ٹیکس فری کردیا گیا تھا۔ یہی نہیں کئی ریاستوں میں سرکاری ملازمین کو فلم دیکھنے کے لیے خصوصی چھٹی دی گئی تھی۔

یہ فلم اتفاق سے سال کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی ہندی فلموں میں سے ایک بن گئی۔

سیاسی تنازعہ کے درمیان مرکزی وزارت داخلہ نے اپنے ڈائرکٹر وویک اگنی ہوتری کو سی آر پی ایف کی وائی زمرہ کی سیکورٹی فراہم کی تھی۔

سینما گھروں میں فلم کی نمائش کے دوران فرقہ وارانہ نعرے بھی لگائے گئے۔ دی وائر کی تفتیش  میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ فلم کے سینما گھروں میں آنے کے ابتدائی ہفتوں میں وہاں شدت پسند نوجوانوں کے تشدد بھڑکانے اور مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کرنے  والے کئی ویڈیو منظر عام پر آئے تھے۔

ان ویڈیوز کو بنانے اور سوشل میڈیا پر شیئر کرنے والے بہت سے لوگ طویل عرصے سے فرقہ وارانہ مہم کا حصہ تھے۔

رپورٹ میں کہا گیاتھا، ’’بہت سے دوسرے لوگ ہیٹ اسپیچ دینے اور ’لو جہاد‘ جیسے ایشوز پر نفرت پھیلانے یا مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کرنے میں سرگرم رہے ہیں۔ ان کارکنوں کے ذریعہ بنائے گئے اور پوسٹ کیے گئے ویڈیوز سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ فلم ہندوتوا کے ایکو سسٹم کے لیے نفرت کے شعلوں کو بھڑکانے کا ایک ذریعہ بن گئی۔