خبریں

مودی حکومت منظم طریقے سے عدلیہ کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے: سونیا گاندھی

کانگریس پارلیامانی پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے پارٹی کی پارلیامانی پارٹی کی میٹنگ میں مرکزی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وزراء اور اعلیٰ آئینی عہدوں پر فائز لوگوں کے عدلیہ پر تبصرے مناسب اصلاحات تجویز کرنے کی کوشش نہیں، بلکہ  عوام نظروں میں عدلیہ کی  ساکھ کو کم کرنے کی کوشش ہیں۔

سونیا گاندھی اپوزیشن کے اراکین پارلیامنٹ کے ساتھ بدھ کو پارلیامنٹ ہاؤس کے باہر چین کے ساتھ سرحدی معاملے پر بحث کا مطالبہ کر تے ہوئے مظاہرہ کر رہی ہیں۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

سونیا گاندھی اپوزیشن کے اراکین پارلیامنٹ کے ساتھ بدھ کو پارلیامنٹ ہاؤس کے باہر چین کے ساتھ سرحدی معاملے پر بحث کا مطالبہ کر تے ہوئے مظاہرہ کر رہی ہیں۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کانگریس پارلیامانی پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی نے بدھ کو کہا کہ نریندر مودی حکومت منظم طریقے سے عدلیہ کے اختیار کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو  بہت ہی  پریشان کن پیش رفت ہے۔

انہوں نے سرحد پر ‘چین کے تجاوزات’ کو لے کر حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ اس اہم موضوع پر حکومت کی جانب سےپارلیامنٹ میں بحث کرانے سے انکار کرنا جمہوریت کی توہین ہے اور اس پورے معاملے میں حکومت کی خاموشی تشویشناک ہے۔

پارلیامنٹ ہاؤس کے سینٹرل ہال میں ان کی صدارت میں ہوئی  پارٹی پارلیامانی پارٹی کی میٹنگ میں کانگریس کے صدر اور راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف ملیکارجن کھڑگے، لوک سبھا میں پارٹی کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری اور کانگریس کے ارکان شریک ہوئے۔

دی ہندو کے مطابق، مرکزی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے سونیا گاندھی نے کہا، ‘ایک اور پریشان کن نئی پیش رفت عدلیہ کے اختیار کو کمزور کرنے کی منظم کوشش ہے۔ وزراء – حتیٰ کہ اعلیٰ آئینی عہدوں پر فائز افراد سےلوگوں کو مختلف بنیادوں پر عدلیہ پر حملہ کرنے والی تقاریر کرنے کے لیےکہا گیا ہے۔

انہوں نے الزام لگایا، ‘یہ بالکل واضح ہے کہ یہ بہتری کے لیے مناسب تجاویز دینے کی کوشش نہیں ہے۔ بلکہ عوام کی نظروں میں عدلیہ کے وقار کو کم کرنے کی کوشش ہے۔

ان کا یہ بیان مرکز اور عدلیہ کے درمیان گزشتہ چند ہفتوں سے جاری تعطل کے درمیان آیا ہے، جہاں مرکزی وزیر قانون کرن رجیجو نے اعلیٰ عدلیہ میں تقرریوں کے لیے کالجیم نظام کو لے کر کئی بار مختلف تبصرے کیے ہیں۔

موجودہ پارلیامنٹ کے اجلاس میں ہی انہوں نے سپریم کورٹ سے ضمانت کی درخواستوں اور ‘بد نیتی پر مبنی’ عرضیوں  کی سماعت نہ کرنے کو کہا ہے، جس کے بعد انہوں نے عدالتی تعطیلات پر تبصرہ کیا ہے اور عدالت میں زیر التوا معاملوں کو ججوں کی تقرری سے جوڑ تے ہوئے کالجیم کی جگہ پر ایک نیا نظام لانے کی بات  دہرائی ۔

رجیجو کے علاوہ 7 دسمبر کو نائب صدر اور راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھن کھڑ نے اپنے پہلے پارلیامانی خطاب میں این جے اے سی قانون کو  سپریم کورٹ کی طرف سے خارج  کیے جانے پر عدالت کو نشانہ بنایا تھا۔

غور طلب ہے کہ پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں نے اگست 2014 کے مہینے میں شنل جوڈیشل اپوائنٹمنٹ کمیشن (این جے اے سی) کے اہتمام والے 99ویں آئینی ترمیم کو متفقہ طور پرمنظور کیا تھا، جس میں ججوں  کے ذریعے ججوں کی تقرری کا 22 سال پرانا کالجیم نظام کی جگہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تقرری میں ایگزیکٹو کو ایک اہم رول دیا گیا تھا۔

بعد ازاں اکتوبر 2015 میں سپریم کورٹ نے اس قانون کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا تھا کہ یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے مطابق نہیں ہے۔

اس کا حوالہ دیتے ہوئے رجیجو نے ایوان میں کہا کہ ججوں کی تقرری کا موجودہ کالجیم نظام عوام اور ایوان کے جذبات کی عکاسی نہیں کرتا ہے۔ پارلیامنٹ نے اس بل کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا،  لیکن سپریم کورٹ نے اسے 2015 میں مسترد کر دیا تھا۔

تاہم،  اس سے پہلے این جے اے سی کے سوال پر وزیر قانون نے  ہی راجیہ سبھا میں کہا تھا کہ فی الحال اسے دوبارہ لانے کی حکومت کی کوئی تجویز نہیں ہے۔

عدالت اور کالجیم کے بارے میں رجیجو کے حالیہ تبصروں پر کانگریس کے رکن پارلیامنٹ منیش تیواری نے بھی پچھلے ہفتہ سوال کیا تھا۔ انہوں نے سوال کیا تھا کہ کیا حکومت عدلیہ سے ٹکرانے کی کوشش کر رہی ہے؟

راجیہ سبھا کے چیئرمین جگدیپ دھن کھڑنے جمعرات کو عدلیہ کے بارے میں سونیا گاندھی کے بیان کو ‘پورے طور پر نامناسب’ قرار دیا اور سیاسی جماعتوں کے قائدین سے اپیل کی کہ وہ اعلیٰ آئینی عہدوں پر فائز لوگوں پر جانبداری کا الزام نہ لگائیں۔

دھن کھڑ نے کہا کہ یو پی اے چیئرمین کا بیان ان کے خیالات سے بالکل مختلف ہے اور عدلیہ کو کمتر کرنا ان کی سوچ سے بالاتر ہے۔ یو پی اے چیئرمین کا بیان مکمل طور پر غیر ضروری ہے اور جمہوریت میں ان کے اعتماد کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔

اہم معاملات پر خاموش رہنا اس حکومت کی پہچان بن چکی ہے

بدھ کی میٹنگ میں سونیا گاندھی نے چین کی طرف سے سرحدی تجاوزات کے معاملے پر بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے کہا کہ اہم موضوعات پر خاموشی اس حکومت کی پہچان بن چکی ہے۔

کانگریس کی سابق صدر نے کہا، ‘ہماری سرحد پر چین کی  طرف سےمسلسل تجاوزات انتہائی تشویشناک ہے۔ پورا ملک ہمارے چوکس فوجیوں کے ساتھ کھڑا ہے، جنہوں نے مشکل حالات میں چینی حملوں کو ناکام بنایا۔ تاہم حکومت اس پر ضدی رویہ اپناتے ہوئے پارلیامنٹ میں بحث کرانے سے انکار کر رہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور عوام اصل زمینی صورتحال سے لاعلم ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ ‘مستقبل میں چین کو دخل اندازی سے روکنے کے لیے حکومت کی کیا پالیسی ہے؟ یہ دیکھتے ہوئے کہ چین کے ساتھ ہمارے تجارتی تعلقات میں کمی آئی ہے، ہم اپنی برآمد سے کہیں زیادہ درآمد کررہے ہیں، ایسے میں چین کی فوجی کارروائی پر کوئی اقتصادی ردعمل کیوں نہیں ہے؟  عالمی برادری کے لیے حکومت کی  سفارتی پہنچ کیا ہے؟

انہوں نے کہا کہ ‘جب کوئی بڑا قومی چیلنج آتا ہے تو پارلیامنٹ کو اعتماد میں لینا روایت رہی ہے۔ بحث کئی اہم سوالات پر روشنی ڈال سکتی ہے۔ سنگین قومی تشویش کے معاملے پر بات کرنے سے انکار کرنا جمہوریت  کی توہیں اور حکومت کی نیت کو ظاہر کرتا ہے۔

واضح ہوکہ بدھ کے روز کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن ارکان پارلیامنٹ نے پارلیامنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کیا اور چین پر بحث کے اپنے مطالبے کو دہرایا اور بعد ازاں اسپیکر اوم برلا کے بحث پر راضی نہ ہونے پر لوک سبھا سے واک آؤٹ کر گئے۔

معلوم  کہ 9 دسمبر کو اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر کے یانگتسے علاقے میں ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے درمیان تازہ جھڑپ ہوئی تھی جس میں دونوں طرف کے فوجی زخمی ہوئے تھے۔

اس سلسلے میں پارلیامنٹ میں ایک بیان میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ 9 دسمبر کو چینی فوجیوں نے اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر کے یانگتسے علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) پر اسٹیٹس کو کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن ہندوستانی فوج نے اپنے ‘مضبوط اور دلیرانہ’ جواب سے انہیں پسپائی پر مجبور کردیا۔

تاہم اس کے بعد سے اپوزیشن مسلسل اس معاملے پر بحث کا مطالبہ کر رہی ہے۔

نوجوانوں کو نوکریاں دینے میں ناکام رہنا اس حکومت کی پہچان ہے

کانگریس پارلیامانی پارٹی کی میٹنگ کے دوران سونیا گاندھی نے معاشی صورتحال، مہنگائی، بے روزگاری اور کسانوں سے متعلق مسائل پر بھی حکومت کو نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا، ‘حکومت کے اس دعوے کے باوجود کہ سب کچھ ٹھیک ہے، ملک کی معاشی صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔ روزمرہ کی ضرورت کی تمام چیزوں کی قیمتیں ناقابل برداشت حد تک بڑھ گئی ہیں جس سے کروڑوں خاندانوں پر بھاری بوجھ پڑ رہا ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا، لوگوں کو خاص طور پر نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں ناکامی اس حکومت کی پہچان رہی ہے۔ وزیر اعظم نے بھلے ہی چند ہزار لوگوں میں تقرری نامے تقسیم کیے ہوں، لیکن کروڑوں لوگوں کا مستقبل غیر یقینی ہے کیونکہ حکومت میں اسامیاں پُر نہیں ہو رہی ہیں، امتحانات قابل اعتبار نہیں ہیں اورپی ایس یو از کی نجکاری کی جا رہی ہے۔

سونیا گاندھی نے کسانوں کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کسانوں کو کھیتی کی لاگت، خاص طور پر کھاد کی قیمت، فصلوں کی قیمت کے بارے میں غیر یقینی صورتحال اور خراب موسم کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ تینوں قوانین کے تھوپنے  کی بے معنی کوششوں کے بعد کسان اب حکومت کی ترجیحات میں نہیں رہے۔

انہوں نے حالیہ انتخابات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گجرات اسمبلی انتخابات اور دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے نتائج کانگریس کے لیے اچھے نہیں رہے، لیکن پارٹی نے ہماچل میں حکومت بنائی ہے، جہاں عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا وقت آگیا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)