فکر و نظر

سکھ ہندوتوا کا ہتھیار بننے سے انکار کر رہے ہیں، ہندو کب اس دھوکے کو پہچان پائیں گے؟

مغلوں اور سکھ رہنماؤں کے درمیان تصادم ہوا،  لیکن سکھوں نے آج اس حقیقت کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کی سیاست کے لیے استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ یہ بات آر ایس ایس اور بی جے پی کو پریشان کرتی رہی ہے۔ وہ سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد میں ملوث کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ گرو گوبند سنگھ یا گرو تیغ بہادر کو یاد کرتے ہیں۔ ارادہ انہیں یاد کرنے کا جتنا نہیں، اتنا مغلوں کی’ بربریت’ کی یاد کو زندہ رکھنے کا ہے۔

(فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی)

(فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی)

یہ ٹھیک ہی ہے کہ سکھ برادری بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سکھ مذہب، طرز زندگی اور ان کی تاریخ کو ہندوتوا کی سیاست کا ہتھیار بنائے جانے کےخلاف احتجاج کر رہی ہے۔

صاحب زادوں کی شہادت کو مسلم مخالف نفرت اور تشدد کی سیاست کے لیے استعمال کرنے کے لیے بی جے پی حکومت نے ان کے یوم شہادت کو ‘ویر بال دوس’ کے طور پر منانا شروع کر دیا ہے۔ سکھ تنظیموں نے اس نام کی مخالفت کی ہے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اورنگ زیب نے گرو گوبند سنگھ کے بیٹوں صاحب زادہ زوراور سنگھ اور صاحب زادہ فتح سنگھ کو قتل کروا دیا تھا۔ تاریخ کی اس حقیقت کو سکھوں نے فراموش  نہیں کیا۔ جیسےانہوں نے گرو تیغ بہادر کو بھی  فراموش نہیں کیا ہے۔

لیکن سکھ روایت میں ان دونوں کو ‘بال’ نہیں ‘بابا’ کے خطاب سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔ جنوری میں جب وزیر اعظم نے ‘ویر بال دوس’ کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد ہی سکھ تنظیموں نے کہا تھا کہ اسے ‘صاحب زادے شہادت دوس’ہونا چاہیے، کیونکہ وہ انہیں بچوں کی طرح نہیں دیکھتے، لیکن حکومت نے ان کی درخواست کو  قبول نہیں  کیا اور اس دن کو ‘ویر بال دوس’ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔

شرومنی گوردوارہ پربندھک کمیٹی اور اکال تخت نے اس کی مذمت کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی اور حکومت سکھ تاریخ اور روایت کو مسخ کر رہی ہے۔ اس بیان میں انہوں نے جو کچھ نہیں کہا، لیکن جسے سمجھنا مشکل نہیں، وہ یہ ہے کہ بی جے پی سکھ مذہب کو مسلمانوں کے خلاف نفرت کو تیز کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

یہ درست ہے کہ مغلوں اور سکھ رہنماؤں کے درمیان تصادم ہوا ،  لیکن سکھوں نے آج اس تاریخی حقیقت کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کی سیاست کے لیے استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔ سکھ تنظیمیں کشمیری مسلمانوں کے لیے کھڑی ہوئیں، جب ہندوستان میں ان پر حملے ہو رہے تھے تو سکھ تنظیمیں ان کی مدد کے لیے آگے آئیں۔

جب مسلمانوں نے شہریت قانون کے خلاف تحریک شروع کی تو سکھ ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ جب مسلمانوں کو گڑگاؤں میں جمعہ کی نماز پڑھنے سے روکا گیا تو سکھوں نے ان کے لیے اپنے گوردوارے کے دروازے کھول دیے۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بی جے پی  کویہ بات پریشان کرتی رہی ہے۔ وہ سکھوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد میں ملوث کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ گرو گوبند سنگھ یا گرو تیغ بہادر کو یاد کرتے ہیں۔ارادہ  انہیں  یاد کرنے کاجتنا نہیں اتنا ان کے بہانے  مغلوں کی’ بربریت’ کی یاد کو ان زندہ رکھنے کاہے۔

بی جے پی کا مقصد دراصل سکھوں کو مخاطب کرنا نہیں ہے۔ ورنہ وہ ان کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے صاحب زادہ دوس کو ‘ویر بال دوس’ کے طور پر کیوں مناتی؟ اسے اس بات کی پرواہ کیوں نہیں کہ ایسا کرنے سے سکھ ناراض ہو سکتے ہیں؟

اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ یہ سب کرتے ہوئے ہندوؤں سے مخاطب ہے۔ وہ ہندوؤں کو بتانا چاہتی ہیں کہ سکھ مت کے نام سے کسی الگ مذہب کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ ہندو مت کی ایک شاخ ہے۔ اس لیے صاحب زادے کو اس نام سے نہیں پکارا جائے گا جس سے سکھ انہیں یاد کرتے ہیں، بلکہ ویر بالک کہہ کر ان کی الگ پہچان ختم کردی جائے گی۔

آر ایس ایس کی وجہ سے اور یہاں تک کہ، ہندوؤں میں یہ سمجھ بوجھ ہے کہ سکھ ہندوؤں کے محافظ یا چوکیدار ہیں۔ یہ مذہب ہندو مذہب کی حفاظت کے لیے پیدا ہوا تھا۔ یہ بات ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ ہندوؤں کے اندر بیٹھی  اس حقیقت کو استعمال کرتے ہوئے بی جے پی سکھ روایت سے جڑے ہر نشان اور ہر موقع کو ہندوتوا کے دائرے میں لانا چاہتی ہے۔

مغلوں اور سکھوں کے درمیان تنازعات اور ہندوستان اور پاکستان کے قیام کے وقت ہونے والی خونریزی کی تاریخ کی مدد سے بی جے پی کو سکھوں میں مسلم دشمنی پیدا کرنے میں کامیابی نہیں ملی۔ لیکن وہ اسے ہندوؤں کے درمیان مسلم مخالف نفرت کو جواز فراہم کرنے کے لیے ضرور استعمال کر رہی ہے۔

وہ ہندوؤں کو یہ بھی سمجھانا چاہتی ہے کہ جو سکھ مسلمانوں کی مخالفت نہیں کرتے وہ بیوقوف ہیں۔ ہندوؤں کو ان کی طرح  احمقانہ حرکتیں نہیں کرنی چاہیے۔

مغلوں کو آج کی مسلم دشمنی کی سیاست کے لیے پہلی بار استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔ بابری مسجد انہدام کی مہم کے دوران لگایا گیا نعرہ  ‘بابر کی اولادوں…’ سب کو یاد ہے۔ مسلمانوں کو بابر کی اولاد کہہ کر ان کی اصلی جگہ پر بھیج دینے کی اپیل ہندوؤں  سے کی گئی۔

پچھلے کچھ سالوں سے آسامی بادشاہ لچیت برفوکن کی یاد پورے ہندوستان میں منائی گئی  کیونکہ انہوں نے ‘مغل حملہ آوروں’ کے دانت کھٹے کر دیے تھے۔ وارانسی میں وشوناتھ مندر کے کاریڈور کا افتتاح کرتے ہوئے بھی وزیر اعظم نے اورنگ زیب کے ظلم کو یاد دلانا ضروری سمجھا۔

‘ویر بال دوس’ کے موقع پر وزیر اعظم نے تاریخ کی ایک نئی تشریح کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کے بقول آج تک ہمیں غلط تاریخ پڑھائی جاتی رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ہندوستانیوں میں احساس کمتری ہے۔ اب یہ حکومت ایک ایسی تاریخ پیش کر رہی ہے جس سے ہندوستانیوں میں فخرکا جذبہ  پیدا ہوگا۔

اس تاریخ میں مغل ہوں یا ٹیپو سلطان، سب دہشت گرد تھے اور جو ہندو یا غیر مسلم راجا یا نواب تھے وہ اعتدال پسند تھے۔ مغلوں کے لیے دہشت گرد کا لفظ بار بار استعمال کرنے کا کیا مطلب ہے؟

دہشت گردی کی آج کی ہندوتوا تعریف میں دہشت گرد کون ہے اس کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اب اس کی تاریخ بتائی جا رہی ہے۔ مغلوں کو آج کے دہشت گردوں کے آباؤ اجداد کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

یہ ثابت کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے کہ زبردستی مذہب تبدیل کروانا ان کا کام تھا۔ یہ تاریخ آج کی تبدیلی مذہب مخالف مہم کے لیے بھی بہت مفید ہے۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے ہر مقدس اور پروقار موقع کو استعمال کرنے کی کمینگی کو نظر انداز کرنا خطرناک ہے۔

میرے ایک طالبعلم نے بتایا کہ ہندوؤں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اب مغلوں کے کیے کا بدلہ لینے کا وقت ہے۔ جو لڑائیاں ہمارے آباؤ اجداد ہارے گئے تھے ان کو جیت میں بدلا جانا ہے۔

یہ کئی طریقوں سے کیا جا رہا ہے۔ نصابی کتابوں میں رانا پرتاپ کو ہلدی گھاٹی میں جتوانے کی بات ہو یا پورے الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کرنا ہو، قرون وسطیٰ کا بدلہ لیا جا رہا ہے۔ مسلمان چونکہ ان کی اولاد ہیں، ان کو قتل کرکے ہم اپنے اسلاف کی طرف سے بدلہ لے رہے ہیں۔

تاہم سکھ اس دھوکے  کو پہچانتے ہیں اور وہ ہندوتوا کا ہتھیار بننے سے انکار کر رہے ہیں۔ ہندو کب اس دھوکے  کو پہچان سکیں گے، اصل سوال یہی ہے۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)