خبریں

بھیما کورےگاؤں ملزمین کے وکیل نے کہا – 5 سال بعد بھی شواہد کی 60 فیصد کاپیاں انہیں نہیں دی گئی ہیں

بھیما کورےگاؤں اور ایلگار پریشد کیس میں کچھ ملزمین کی طرف سے پیش ہونے والے  وکیل نے کہا ہے کہ عدالت نے مئی 2022 میں این آئی اے کو ہدایت دی تھی کہ وہ ملزمین کو ان کے خلاف جمع کیے گئے شواہد کی تمام  کلون کاپیاں فراہم کرے، لیکن ابھی تک صرف 40 فیصدکاپیاں ہی شیئر کی گئی ہیں۔

بھیما کورےگاؤں  اور ایلگار پریشد معاملے میں گرفتار کارکن۔ (فوٹو: دی وائر)

بھیما کورےگاؤں  اور ایلگار پریشد معاملے میں گرفتار کارکن۔ (فوٹو: دی وائر)

نئی دہلی: پونے کے بھیما کورےگاؤں میں ذات پات کی بنیاد پر ہوئے تشدد کو تقریباً پانچ سال ہوچکے ہیں، لیکن اس کیس کے 15 ملزمان کے خلاف جمع کیے گئے شواہد کی 60 فیصد ‘کلون کاپیاں’ ابھی تک ان کے ساتھ شیئر نہیں کی گئی ہیں۔ ملزمان میں کارکن، وکلا، صحافی اور پروفیسرشامل ہیں۔

دی ہندو کی ایک رپورٹ میں اس حوالے سے جانکاری دی گئی ہے۔

فرانزک کلون ڈیجیٹل شواہد کی ہوبہو کاپی ہوتی  ہے۔ اس میں فائلیں، فولڈرز، ہارڈ ڈرائیوز وغیرہ شامل ہوتے  ہیں۔

کیس میں کچھ ملزمین کی نمائندگی کرنے والے وکیل برون کمار کا کہنا ہے کہ ،تقریباً پانچ سال ہوچکے ہیں لیکن 60 فیصد کلون کاپی، جن میں ملزمان کے خلاف پراسیکیوٹنگ ایجنسیوں نےاہم شواہد اکٹھے کیے ہیں، ان کے ساتھ شیئر نہیں کیے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، اسپیشل این آئی اے عدالت نے مئی 2022 میں مرکزی ایجنسی (این آئی اے) کو (ملزمان کو) تمام کلون کاپی فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی ، اس کے باوجود صرف 40 فیصد کاپیاں ہی شیئر کی گئی ہیں۔

غور طلب ہے کہ 18 اگست 2022 کو اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت نے ٹرائل کورٹ سے کہا تھا کہ وہ تین ماہ کے اندر ملزمان کے خلاف الزامات طے کرے۔ تاہم، 25 نومبر 2022 کو،خصوصی این آئی اے جج آر جے کٹاریہ نے کہا تھا کہ یہ معاملے میں الزام طے کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں ،اس کا فیصلہ کرنے میں  مزید ایک سال لگے گا۔

فی الحال کچھ ملزمین کی جانب سے دائر کی گئی ڈسچارج عرضیوں پر عدالت میں سماعت ہو رہی ہے۔

معلوم ہو کہ یہ معاملہ 31 دسمبر 2017 کو پونے کے شنیوارواڑہ میں منعقدہ ایلگار پریشد کانفرنس میں دی گئی مبینہ اشتعال انگیز تقاریر سے متعلق ہے، جس کے بارے میں پولیس نے دعویٰ کیا تھاکہ اس کی وجہ سے اگلے دن بھیما-کورےگاؤں جنگی یادگار کے قریب تشدد ہوا تھا۔

تشدد میں ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ پونے پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ کانفرنس کو ماؤنوازوں کی حمایت حاصل تھی۔ قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کو منتقل کیے  جانے سے پہلے پونے پولیس اس کیس کی جانچ کر رہی تھی۔

معاملے میں اب تک 16 لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

ایلگار پریشد کیس میں گرفتار ہونے والوں میں مصنف اور ممبئی کے دلت حقوق  کےکارکن سدھیر دھاولے، گڑھ چرولی کےنوجوان کارکن مہیش راوت، جنہوں نے نقل مکانی پر کام کیا، شوما سین، جو ناگپور یونیورسٹی میں انگریزی  کی پروفیسراور صدر شعبہ تھیں، ایڈوکیٹ ارون فریرا اور سدھا بھاردواج، مصنف وراورا راؤ، کارکن ورنن گونجالوس، قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے رونا ولسن، یو اے پی اے کے ماہر اور ناگپور کےوکیل سریندر گاڈلنگ، آدی واسی  حقوق کے کارکن آنجہانی فادر اسٹین سوامی، دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ہینی بابو، ماہر تعلیم اور کارکن آنند تیلتمبڑے، کارکن گوتم نولکھا، اور ثقافتی گروپ کے کبیر کلا منچ کے اراکین،: ساگر گورکھے، رمیش گائچور اور جیوتی جگتاپ کے نام شامل ہیں۔

آنند تیلتمبڑے، سدھا بھاردواج اور وراورا راؤ ضمانت پر باہر ہیں، لیکن گزشتہ سال مبینہ طور پر حکومت کی لاپرواہی اور مناسب طبی دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے فادر اسٹین سوامی کی موت ہوگئی تھی۔

بتادیں کہ 13 دیگر اب بھی مہاراشٹر کی جیلوں میں بند ہیں۔

حال ہی میں دی وائر کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس معاملے کے ایک اعلیٰ تفتیشی افسر نے قبول کیا ہے کہ ایلگار پریشد ایونٹ کابھیما کورےگاؤں تشدد میں کوئی رول نہیں تھا۔

سال 2018 میں شروع ہوئے ایلگار پریشد معاملے میں کئی موڑ آ چکے ہیں، جہاں ہر چارج شیٹ میں نئے نئے دعوے کیے گئے۔ معاملے کی شروعات ہوئی اس دعوے سے کہ ‘اربن نکسل’ کاگروپ‘راجیو گاندھی کے قتل’ کی طرح وزیر اعظم  نریندر مودی کے قتل کا منصوبہ  بنا رہا ہے۔

یہ حیرت انگیزدعویٰ پونے پولیس نے کیا تھا، جس کے فوراً بعد 6 جون 2018 کو پانچ لوگوں رونا ولسن، سریندر گاڈلنگ، کارکن سدھیر دھاولے، مہیش راؤت اورماہر تعلیم شوما سین کو گرفتار کیا گیا۔

اس کے بعد، اگست 2018 میں مہاراشٹر میں پونے پولیس نے ماؤ نواز سے مبینہ تعلقات کے الزام میں پانچ کارکنوں – شاعر ورورا راؤ، ایڈوکیٹ سدھا بھاردواج، سماجی کارکن ارون فریرا، گوتم نولکھا اور ورنان گونجالوس کو گرفتار کیا تھا۔

بتادیں کہ اس سال جنوری میں فریرا، ولسن اور کیس کے دیگر ملزمان نے پیگاسس اسپائی ویئر کے معاملے میں سپریم کورٹ کی طرف سے تشکیل دی گئی تکنیکی کمیٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ ان کے فون پر پیگاسس سے حملہ ہوا تھا۔

اس سے قبل، دی وائر نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ ایلگار پریشد کیس میں ان کے مبینہ کردار کے لیے گرفتار کیے گئے کم از کم آٹھ کارکنوں، وکلاء اور ماہرین تعلیم کے نام پیگاسس کے ممکنہ نشانے پر رہے لوگوں کے لیک ڈیٹا میں تھے۔ ملزمان کے علاوہ ان کے خاندان کے افراد، وکلاء، معاون کارکنان اور بعض معاملات میں نابالغ بچوں کے نام  بھی فہرست میں شامل تھے۔

دسمبر 2021 میں، میساچوسیٹس میں کی ڈیجیٹل فرانزک فرم، آرسینل کنسلٹنگ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ولسن کا فون نہ صرف اسرائیل کے این ایس او گروپ کے ایک کلائنٹ کے ذریعے نگرانی کے لیے منتخب کیا گیا تھا، بلکہ کئی مواقع پر اسپائی ویئر سے کامیابی کے ساتھ اس میں دراندازی  بھی کی گئی تھی۔

اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد فروری 2022 میں، سی پی آئی (ایم) کے رہنما ایلاارام کریم نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط بھیج کر ایلگار پریشد معاملے میں گرفتار ان کارکنوں اور ماہرین تعلیم کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

وہیں، کچھ دن پہلے آئی آرسینل کنسلٹنگ کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فادر اسٹین سوامی کے لیپ ٹاپ میں بھی ان کو پھنسانے والے دستاویزات پلانٹ کیے گئے تھے۔ سوامی تقریباً پانچ سال تک ایک میل ویئر مہم کے نشانے پر تھے، جب  تک کہ جون 2019 میں پولیس کے ذریعے ان کے آلات ضبط نہیں کر لیے گئے۔

اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلاء اور ماہرین تعلیم نے اس مقدمے کے ملزمان کی رہائی اور الکٹرانک آلات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور کیس میں من گھڑت شواہد کے الزامات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔