فکر و نظر

’لو جہاد‘ کی سازشی تھیوری اب عام سماجی تاثر کا حصہ بن چکی ہے

ٹی وی آرٹسٹ تونیشا شرما کی خودکشی کے بعد  بحث ذہنی  صحت پر ہونی چاہیے تھی کہ اس عمر میں اتنا کام کرنے کا دباؤ کسی کے ساتھ کیا کر سکتا ہے، وہ بھی ایسی دنیا میں جہاں مقابلہ آرائی غیر معمولی ہے۔ لیکن بحث کو ‘لو جہاد’ کا زاویہ دے کر آسان سمت میں موڑ دیا گیا ہے۔

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

(السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر)

یہ ٹھیک ہی  ہے کہ اداکار شیزان خان کی بہنوں اور والدہ نے شیزان پر لگائے گئے الزامات کا کھل کر جواب دیا ہے، شیزان پر الزام ہے کہ اس نے اپنی کولیگ اور سابق گرل فرینڈ تونیشا شرما کو خودکشی پر مجبور کیا۔ اس الزام کی وجہ سے انہیں گرفتار کر کے جیل بھی بھیج دیا گیا ہے۔

شیزان اور تونیشا ایک دوسرے سے پیار کرتے تھے اور کچھ عرصہ قبل علیحدگی اختیار کر چکے تھے، دونوں نے ساتھ کام بھی کیا تھا۔ تونیشاابھی صرف 20 سال کی  تھی۔ یہ رشتہ ٹوٹنے کے کچھ عرصے بعد تونیشا نے خودکشی کر لی۔

خودکشی کے بعد سب سے پہلے جو بات میڈیا میں آئی وہ تھی تونیشا اور شیزان کی محبت۔ خودکشی کے لیے وجہ سامنے موجود تھی۔ ایک مسلمان نے محبت کی اور پھر رشتہ توڑ دیا۔ لڑکی کے پاس خودکشی کے سوا  چارہ  ہی کیاتھا؟ شیزان پر فوراً ‘لو جہاد’ کا الزام لگایا گیا۔ اس نے رشتہ  توڑا کیوں؟

ایسے سوال کرنے والوں کے مطابق صاف ہے کہ شیزان نے ایک ہندو لڑکی کو محبت کے جال میں پھنسایا اور پھر  چھوڑ دیا۔ اس طرح اسے خودکشی کی طرف دھکیل دیا۔  پولیس کے سوچنے کا طریقہ بھی  یہی ہے ورنہ شیزان کو اتنی عجلت  میں کیوں گرفتار کیا جاتا۔ مہاراشٹر حکومت کے ایک وزیر نے بھی اسی طرف اشارہ کیا۔

خودکشی کے لیے اکسانے کا الزام ابھی حال میں کرناٹک کے ایک ٹھیکیدار نے اپنی موت کے پہلے کرناٹک کے ایک وزیر پر لگایا۔ لیکن وہ وزیر آزاد ہیں۔ اکساوے کا الزام ثابت کرنا آسان نہیں اور یہ فوراً گرفتاری کی وجہ نہیں بن سکتا۔ ہندوستان میں ایسے کئی واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ کیا ان میں اس طرح گرفتاری ہو جاتی ہے جیسے شیزان کی ہوئی؟

ظاہر ہے، شیزان کو مسلمان ہونے کی سزا بھگتنی پڑ رہی ہے۔ ایک مسلمان مرد کے لیے ہندو لڑکی سے محبت کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ وہ اس  رشتے کو آگے بڑھائے یا ختم کردے، دونوں ہی صورتوں میں وہ مجرم یا سازشی بنارہتا ہے۔ شیزان نے یہ غلطی کی تھی۔ اس نے ایک  ہندو لڑکی سے محبت ہی کیوں کی  اور پھر اس رشتے کو ختم کیوں  کر دیا؟

ہم سب جانتے ہیں کہ جس عمر میں تونیشا تھی،اس میں رشتے بن سکتے ہیں اور ٹوٹ بھی سکتے ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ لیکن تونیشا کی والدہ اور اس کے خاندان نے آج کے ہندوتوا ایکو سسٹم میں شیزان پر الزام لگایا کہ وہ تونیشا کو حجاب پہننے کے لیے مجبور کر رہے تھے۔ یہ بھی کہ وہ ادھر اُردو بولنے لگی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ شیزان یقینی طور پر تونیشا پر تشدد کر رہا تھا۔

شیزان کی بہنوں نے بتایا کہ تونیشا کی حجاب والی  تصویرایک فلم کے سیٹ کی ہے۔ وہ اپنی فلموں اور سیریل کے لیے اردو سیکھ رہی تھیں جیسا کہ تمام اداکارکرتے ہیں۔ ایک بیمار ذہن ہی اس میں سازش دیکھ سکتا ہے۔

شیزان کی بہنوں نے ٹھیک ہی  کہا کہ یہ ذہنی صحت کا مسئلہ ہے، کسی  مسلمان مرد کے ذریعے ہندو لڑکی کو مسلمان بنانے کا نہیں۔ اس خودکشی کے بعد بحث اس بات پر ہونی چاہیے تھی کہ اس عمر میں اتنا  کام کرنے کا دباؤ کسی کے ساتھ کیا کر سکتا ہے اور وہ بھی اس دنیا میں جہاں   مقابلہ آرائی  کی سطح غیر معمولی ہو۔ لیکن بحث کو آسان سمت میں موڑ دیا گیا ہے۔

اس ایک واقعہ نے پھر ظاہر کیا ہے کہ مسلمان مرد مسلسل خطرے میں ہیں۔ ‘لو جہاد’ کی سازشی تھیوری جو کیرالہ میں وضع کی گئی تھی، وہ  اب عام سماجی تاثر کا حصہ بن چکی ہے۔ اس کے مطابق مسلمان ایک سازش کے تحت ہندو لڑکیوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ تعلقات بناتے ہیں۔ اس کے پس پردہ  ایک ارادہ  مسلمان  بچے پیدا کرکے مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کرنا ہے۔

اس تھیوری کے مطابق ایک مسلمان مرد کا ہندو لڑکی سے محبت اس کا فیصلہ نہیں، بلکہ اسے ایک منظم سازش کے تحت اس  کام پر لگایا گیا ہے۔ اسے روکنے کے لیےیکے بعد دیگرے 11 ریاستوں نے قانون بنائے ہیں۔ مہاراشٹر حکومت ہندو عورت اور مسلمان مرد والے جوڑوں پر نظر رکھنے کے لیے ایک کمیٹی بنا رہی ہے۔

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور اس کی تنظیموں کی فعالیت اور خود ریاست کے اداروں کے اندر ہی مسلم دشمنی کی وجہ سے ہمیں  یہ تو معلوم ہوجاتا ہے کہ ایسے کتنے جوڑے بن رہے ہیں جن میں مرد مسلمان اور عورت ہندو ہیں، لیکن ہم نہیں جانتے کہ  ہندو مرد اور مسلمان عورت والے کتنے  جوڑے ہوں گے؟ ایسے جوڑوں میں مسلمان خواتین کیسی زندگی گزارتی ہیں؟ اس کے بارے میں کسی کو تجسس نہیں ہے کیونکہ یہ مانا جاتا ہے کہ اگر ان کوہندو بھی بنایا گیاتو ٹھیک ہی  ہے۔

مسلمان مرد کا ہندو عورت سے تعلق غیر فطری اور نامناسب سمجھا جاتا ہے۔ بجرنگ دل یا بابو بجرنگی جیسی تنظیمیں یا افراد ایسے رشتوں پر نظر رکھتے ہی  ہیں، خود ریاستی اہلکار ایسے رشتوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ایسے افسران کے ساتھ میرا اپنا تجربہ بہت برا رہا ہے۔ وہ ہندو خواتین کو اس سے باز آنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اکثر خاندان ایسے رشتوں میں راضی نہیں ہوتے۔ نتیجتاً دونوں کو گھر والوں کی نظروں سے دور شادی کرنی پڑتی ہے۔ اس کے بعد بھی ان کی زندگی محفوظ نہیں ہوتی۔ کیرالہ کی ہادیہ کا معاملہ زیادہ پرانا نہیں ہے۔ عدالتیں بھی پہلے پہل ایسے رشتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، حالانکہ اکثر وہ ان کی حفاظت بھی کرتی رہی ہیں۔ عدالتوں کے تحفظ کے باوجود ان کے خلاف تشدد ہو ہی  سکتا ہے۔

چند ماہ قبل مدھیہ پردیش کے ڈنڈوری ضلع میں آصف خان کے والد کے گھر اور ان کی دکان پر ضلع مجسٹریٹ نے بلڈوزر چلواکر شان سے اس کااعلان بھی کیا۔ وجہ یہ تھی کہ آصف خان کی شادی ایک ہندو خاتون سے ہوئی تھی۔ ہندوتوا تنظیموں نے آصف کے گھر کو بلڈوز کرنے کا مطالبہ کیا۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے فوراً تعمیل کی ۔ مکان مسمار کر دیا گیا۔ وہ بھی اس وقت جب عدالت نے آصف اور ان کی بیوی ساکشی کو تحفظ دیا ہوا تھا۔

یوں ایسے رشتے بنانے کے خطرات اتنے واضح ہیں کہ آج بھی اگر ایسا کوئی جوڑا بنتا ہے تو اس کی ہمت کو داد دینی چاہیے، بالخصوص ایک مسلمان مرد کی ہمت کو ۔

تونیشا کی والدہ ایسی پہلی خاتون نہیں ہیں جو غم کی اس گھڑی میں بھی ایک مسلمان نوجوان کو مجرم قرار دے رہی ہیں۔ اعجاز احمد نے اپنے مضمون میں بتایا ہے کہ اتر پردیش میں تبدیلی مذہب کے خلاف قانون نافذ ہونے کے ایک ماہ کے اندر اندر ایسے 12معاملوں میں ہندو خواتین کے خاندانوں نے یہ الزام لگاتے ہوئے مقدمات درج کرائے کہ ان کی لڑکیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا تھا۔ تقریباً یہی کام تونیشا کی فیملی بھی کر رہی ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ خاندان ایسے رشتوں کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ جوڑوں کو ان سے چھپ کر جلد از جلد شادی کرنی پڑتی ہے۔ بعض اوقات یہ اتنا مشکل ہوتا ہے کہ تبدیلی کا راستہ آسان لگتا ہے۔ یہ ایک بہت ہی مفید تبدیلی  ہوتی ہے۔ اگر کوئی شادی کے لیے بھی مذہب تبدیل کر لے تو کوئی اور کیوں پریشان ہو اور ریاست کو اس کی فکر کیوں ہونی چاہیے؟

جب گھر والے راضی ہوجاتے ہیں تو ہندوتوا تنظیمیں ہنگامہ کرنے لگتی ہیں۔ حال ہی میں مہاراشٹر میں ایسی ہی ایک شادی کے بعد خاندان کی جانب سے منعقدہ استقبالیہ پر ہنگامہ برپا ہوگیا۔ 2020 میں مراد آباد میں ایسی ہی ایک شادی کے بعد، جس میں گھر والے راضی تھے، اور وشو ہندو پریشد کے ہنگامے کی وجہ سے استقبالیہ نہیں ہو سکا، ایسے جوڑوں کو مکان ملنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں جن میں بعد میں ان کے بچے بھی ذہنی اذیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

یہ صرف ہندو اور مسلم کے درمیان تبدیلی کا معاملہ نہیں ہے۔ ایک دلت مرد اور ایک ‘اونچی ذات’ کی عورت کے درمیان ایسے رشتے کا انجام اکثر المناک ہوتا ہے۔ کئی بار مرد اور بعض صورتوں میں دونوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ لیکن مسلمان مردوں کے لیے لڑکی کے خاندان اور ریاست کے ادارے دونوں ہی خطرہ ہیں۔

آصف خان کی بربادی  اور شیزان خان کو ہراساں کرنے کے باوجود ایسی محبتیں ہوتی رہیں گی۔ کیا یہ تعجب نہیں کہ ایسے قوانین اور  ہندوتوا کے غنڈے کے باوجود–  جو  اس طرح کے رشتوں کو جرم قرار دیتے ہیں، ایسے جوڑے بن رہے ہیں؟ یہ حیران کن ہے لیکن امید کی ایک وجہ بھی ہے۔

(اپووانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)