خبریں

پاکسو کیس میں دہلی پولیس نے محمد زبیر کو کلین چٹ دی، کہا – ٹوئٹ میں کچھ بھی مجرمانہ نہیں

یہ معاملہ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کے اگست 2020 میں کیے گئے ایک ٹوئٹ سے متعلق ہے، جس میں انہوں نے ایک صارف کی پروفائل پکچر شیئر کرتے ہوئے پوچھا  تھا کہ کیا اپنی  پوتی کی تصویر لگاکر قابل اعتراض زبان کا استعمال کرنا ٹھیک ہے۔ اس کے بعد صارف نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی تھی۔

محمد زبیر۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

محمد زبیر۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)

نئی دہلی: دہلی پولیس نے جمعرات کو دہلی ہائی کورٹ کو مطلع کیا کہ اگست 2020 میں ایک ٹوئٹر صارف کو جواب دیتے ہوئے فیکٹ چیک ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کی طرف سے کیے گئے  ٹوئٹ میں کوئی بھی مجرمانہ بات نہیں پائی گئی ہے۔ اس سے قبل پولیس نے ان کے خلاف پاکسو ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔

لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، دہلی پولیس کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے ایڈوکیٹ نندتا راؤ نے جسٹس انوپ جے رام بھمبھانی کو بتایا کہ زبیر کا نام ایف آئی آر کے سلسلے میں داخل چارج شیٹ میں بھی نہیں ہے۔

عدالت نے اب اس معاملے کو 2 مارچ کےلیے  لسٹ  کیا ہے اور پولیس سے چارج شیٹ ریکارڈ پر رکھنے کو کہا ہے۔

یہ معاملہ زبیر کے ایک ٹوئٹ سے متعلق ہے، جس میں انہوں نے ایک صارف کی پروفائل پکچر شیئر کی تھی اور پوچھا تھا کہ کیا اپنی پوتی کی تصویر  کا استعمال کرتے ہوئے ان کا  (صارف) قابل اعتراض زبان استعمال کرنا ٹھیک ہے۔ زبیر نے اپنے ٹوئٹ میں نابالغ لڑکی کا چہرہ دھندلا کر دیا تھا۔

زبیر نے ٹوئٹ کیا، ‘ہیلو…، کیا آپ کی پیاری پوتی کوسوشل میڈیا پر لوگوں کو گالی دینے کی آپ کی پارٹ ٹائم جاب کے بارے میں پتہ  ہے؟ میرا مشورہ ہے کہ آپ اپنی پروفائل پکچر تبدیل کریں۔

اس کے بعد صارف نے زبیر کے خلاف اپنی پوتی کے سائبر جنسی ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے کئی شکایات درج کرائی تھیں۔ دہلی میں درج ایف آئی آر میں زبیر کے خلاف پاکسو ایکٹ، آئی پی سی کی دفعہ 509 بی، انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کی دفعہ 67 اور 67 اے لگائی  گئی تھیں۔

مئی 2022 میں دہلی پولیس نے عدالت کو بتایا کہ زبیر کے خلاف کوئی معاملہ نہیں بنتا ہے۔

تاہم، نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس (این سی پی سی آر) نے دلیل دی  تھی کہ پولیس کی جانب سے اپنی اسٹیٹس رپورٹ میں فراہم کردہ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ زبیر تحقیقات سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے اورپوری طرح سے تعاون نہیں کر رہے تھے۔

زبیر کو 9 ستمبر 2020 کو جسٹس یوگیش کھنہ نے گرفتاری سے عبوری تحفظ فراہم کیا تھا۔ عدالت نے ڈپٹی کمشنر آف پولیس سائبر سیل سے بھی اس معاملے میں کی گئی تحقیقات پر اسٹیٹس رپورٹ داخل کرنے کو کہا تھا۔

عدالت نے ٹوئٹر انڈیا کو دہلی پولیس کے سائبر سیل کی درخواست پر کارروائی کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ اس سے قبل جولائی 2022 میں سپریم کورٹ نے محمد زبیر کو ہندو دیوتا کے بارے میں ان کے مبینہ ‘قابل اعتراض ٹوئٹ’ کے سلسلے میں اتر پردیش میں درج تمام مقدمات میں ضمانت دے دی تھی۔

بنچ نے زبیر کے خلاف درج ایف آئی آر کی جانچ کے لیے اتر پردیش حکومت کی طرف سے قائم کی گئی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) کو ختم کرنے کی بھی ہدایت دی تھی۔

معلوم ہو کہ محمد  زبیر کو گزشتہ 27 جون کو آئی پی سی کی دفعہ 295 اے (کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقیدے کی توہین کرنے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے جان بوجھ کر اور بدنیتی سے کیا گیا کام) اور 153 (مذہب، ذات پات، جائے پیدائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت دہلی پولیس نے معاملہ درج کرکے گرفتار کیا تھا۔

گزشتہ 2 جولائی کو دہلی پولیس نے زبیر کے خلاف ایف آئی آر میں مجرمانہ سازش اورثبوت کوضائع کرنے اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ کی دفعہ 35 کے تحت نئے الزامات شامل کیے ہیں۔ یہ الزامات انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے لیے تحقیقات میں مداخلت کا دروازہ کھولتے ہیں۔

زبیر کی  گرفتاری 2018 کے  اس ٹوئٹ کے سلسلے میں ہوئی تھی ، جس میں 1983 کی فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کا اسکرین شاٹ شیئر کیا گیا تھا۔

گزشتہ 2 جولائی کو ایک ہندو دیوتا کے بارے میں مبینہ طور پر ‘قابل اعتراض ٹوئٹ’ کرنے کے الزام میں محمد زبیر کوعدالت نے 14 دنوں کی عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔

زبیر کے خلاف اتر پردیش میں کل 7 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، جن میں ہاتھرس میں دو اور سیتا پور، لکھیم پور کھیری، مظفر نگر، غازی آباد اور چندولی پولیس اسٹیشنوں میں ایک ایک ایف آئی آر شامل ہے۔