خبریں

چھتیس گڑھ: سماجی کارکن ہڑمے مرکام جیل سے رہا، پولیس دہشت گردی کے الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی

چھتیس گڑھ کی معروف سماجی   کارکن ہڑمےمرکام کو  9 مارچ 2021 کو دنتے واڑہ میں ایک اجلاس  کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے خلاف پرتشدد نکسلی حملے اورقتل جیسے پانچ مقدمات درج کیے گئے تھے۔ تقریباً دو سال قید میں رہنے کے بعد وہ  رہا کی گئی ہیں۔ اب تک وہ چار مقدمات میں بری ہو چکی ہیں جبکہ ایک مقدمہ زیر التوا ہے۔

دنتے واڑہ میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی کے درمیان ایک مظاہرے کے دوران ہڑمے مرکام۔ (تصویر: دیپیندر سوری)

دنتے واڑہ میں سیکورٹی فورسز کی تعیناتی کے درمیان ایک مظاہرے کے دوران ہڑمے مرکام۔ (تصویر: دیپیندر سوری)

چھتیس گڑھ میں جنگلات کے حقوق اور قیدیوں کے حقوق کی معروف سماجی کارکن ہڑمےمرکام جیل سے باہر آگئی ہیں، کیوں کہ پولیس ان کے خلاف لگائے گئے دہشت گردی کے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہی ۔

مرکام پر پولیس اور نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) نے نکسل سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ انہیں 9 مارچ 2021 کو دنتے واڑہ میں یوم خواتین کے موقع پر منعقدہ ایک اجلاس سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کو چار مقدمات میں بری کر دیا گیا تھا اور آخری معاملے میں ضمانت ملی  ہے۔

انہیں ایک ‘خونخوار نکسلی’ کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ پولیس نے ایک پریس ریلیز میں دعویٰ کیا تھا کہ ان پر ایک لاکھ روپے کا انعام تھا۔ان کو پرتشدد نکسلائیٹ حملوں اور قتل کے پانچ مقدمات میں مطلوب دکھایا گیا تھا۔

تقریباً دو سال کی قید کے بعد بھی پولیس ان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی۔

ان کے وکیل چھتج دوبے نے تصدیق کی کہ 4 جنوری کو ایک سیشن کورٹ نے انہیں چوتھے کیس میں بری کر دیا۔ پانچویں مقدمے کے حوالے سے دوبے نے تصدیق کی کہ عدالت نے انہیں چند ماہ قبل ضمانت دے دی تھی، لیکن مرکام کو جیل سے باہر آنے کے لیے دیگر مقدمات میں بری ہونے کا انتظار کرنا پڑا۔

انہیں 5 جنوری کو شام 7 بجے جگدل پور سینٹرل جیل سے رہا کیا گیا۔

ان کے خلاف چار معاملات ریاستی پولیس دیکھ رہی تھی، جبکہ ایک معاملے کی جانچ این آئی اے نے کی تھی۔مرکام کو تعزیرات ہند (آئی پی سی ) اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت سنگین الزامات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن کوئی بھی ثابت نہیں کیا جا سکا۔ عدالتوں نے ایک کے بعد ایک استغاثہ کے مقدمات کو خارج کر دیا۔

مرکام ایک دہائی سے زیادہ سے بستر کے علاقے میں جنگلات کے حقوق اور قیدیوں کے حقوق کے کارکن کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ وہ تقریب جس کے دوران انہیں 9 مارچ 2021 کو گرفتار کیا گیا تھا، وہ پولیس کے اس مبینہ تشدد کے جواب میں منعقد کیا گیا تھا جس کی وجہ سے حراست میں ایک 18 سالہ لڑکی پانڈے کواسی کی موت  ہوگئی تھی۔

نومبر 2021 میں، دی وائر نے متنازعہ اسکیم ‘لون وراٹو (گھر واپسی)’ کے تحت آدی واسی  نوجوانوں کے ساتھ  بدسلوکی اور تشدد کے بارے میں ایک تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ شائع کی تھی، جس میں کواسی جیسے کئی آدی واسی نوجوانوں کو دنتے واڑہ میں غیر قانونی حراست میں رکھا گیاتھا اور مبینہ طور پر ان کی مرضی کے خلاف  ان کی شادی کر دی گئی تھی۔

ہڑمے مرکام ، سماجی کارکن سونی سوری سمیت  دیگر قبائلی حقوق کے رہنماؤں کے ساتھ اس منصوبے کے خلاف جارحانہ طور پر مہم چلا رہی تھیں۔

ہڑمے مرکام کئی کان کنی منصوبوں کی مخالفت میں بھی پیش پیش  رہی ہیں۔ جیل بندی رہائی منچ کے ایک اہم حصے کے طور پرمرکام باریکی  سے ہر گاؤں سے معلومات اکٹھا کر رہی تھیں اور جیل میں بند لوگوں کی رہائی کے لیے کیس تیار کر رہی  تھیں۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کو علاقے میں ریاستی اور مرکزی فورسز کے کریک ڈاؤن کے ایک حصے کے طور پر گرفتار کیا گیا تھا۔

مرکام ناخواندہ ہیں اور صرف اپنی علاقائی زبان گونڈی میں ہی بات کر سکتی ہیں، لیکن ان کے کام کی وجہ سے گاؤں والے ان پر بھروسہ کرتے ہیں اور جب بھی علاقے میں ریاستی یا نکسلی زیادتیوں کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ان سے رابطہ کرتے ہیں۔

پولیس الزامات  ثابت کرنے میں ناکام رہی

پہلا کیس جس میں ہڑمےمرکام کو گرفتار کیا گیا تھا،   وہ 2016 میں پولیس ٹیم پر مسلح حملے سے متعلق تھا۔ 2017 کے ایک اور معاملے میں پولیس نے دعویٰ کیا تھاکہ مرکام ایک دیہاتی کے قتل میں ملوث تھیں،  جسے مبینہ طور پر اغوا کیا گیا تھا اور پھر نکسلیوں نے مار دیا تھا۔

دنتے واڑہ میں سونی سوری کے گھر پر ہڑمےمرکام۔ (تصویر: رنچن)

دنتے واڑہ میں سونی سوری کے گھر پر ہڑمےمرکام۔ (تصویر: رنچن)

ان کے وکیل چھتج دوبے نے دی وائر کو بتایا،اس معاملے میں مقدمہ  پہلے ہی ختم ہو چکا تھا اور گرفتار لوگوں کو سیشن کورٹ نے پہلے ہی بری کر دیا تھا۔مرکام کو پھر بھی جیل  میں رکھا گیا اور مقدمے کا سامنا کرنا پڑا۔ بالآخر انہیں بری کر دیا گیا۔

دیگر تین مقدمات میں ان پر قتل کی کوشش اور اسلحہ یا دھماکہ خیز مواد رکھنے کے علاوہ دیگر دفعات کے  تحت الزامات عائد کیے گئے تھے۔ سوائے قتل کے مقدمے کے،جس میں مقتول کے اہل خانہ نے گواہی دی تھی، دیگر مقدمات میں استغاثہ کے پاس بھروسہ کرنے کے لیے صرف پولیس کے گواہ تھے۔

دوبے نے کہا، لیکن یہ گواہ اور عدالت میں دکھائے گئے شواہد ان مقدمات میں مرکام کے ملوث ہونے کو ثابت کرنے میں ناکام رہے۔

ان مقدمات میں مرکام کو ‘مطلوب ملزم’ کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے فوراً بعد دانتے واڑہ کے اس وقت کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) ابھیشیک پلو نے دی وائر کو بتایا تھا کہ مرکام ایک خونخوار نکسلی ہیں اور کئی پرتشدد حملوں میں شامل رہی ہیں۔

مقامی پولیس کے معاملوں  کی طرح این آئی اے کا معاملہ  بھی مبینہ ‘دہشت گردانہ حملے’ سے متعلق تھا۔

دوبے کہتے ہیں، یہ ان مقدمات میں سے ایک ہے جس میں وہ بری ہو گئی  تھیں۔‘

انہوں نےبتایا  کہ بھلے ہی پولیس بار بار الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ، لیکن  دنتے واڑہ سیشن کورٹ نے انہیں ضمانت دینے سے انکار کر دیا۔ چھتیس گڑھ ہائی کورٹ میں بھی ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔

لہذا، ہم نے کیس پر توجہ مرکوز کی، دوبے دی وائر کو بتاتے ہیں۔

اس بات سے ڈرتے  ہوئے کہ مرکام کو مزید مقدمات میں پھنسایا جا سکتا ہے، ان کی قانونی ٹیم اور کارکنوں نے ان کی رہائی تک عدالت کی پیش رفت کو خفیہ رکھا۔

زیر التوا کیس کے بارے میں دوبے نے کہا کہ عدالت پہلے ہی تمام گواہوں سے جرح کر چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی آر پی سی کی دفعہ 313 کے تحت صرف ملزم کا بیان ریکارڈ کیا جانا ہے۔ یہ معاملہ بھی اگلے چند دنوں میں ختم ہو جانا چاہیے۔

اپنی گرفتاری سے قبل مرکام قبائلی حقوق کی کارکن سونی سوری کے ساتھ مل کر کام کر رہی تھیں۔ سوری کا کہنا ہے کہ مرکام کی رہائی ان کے کئی دہائیوں کے کام کی تصدیق کرتی ہے۔

انہوں نے کہا، ریاست قبائلی برادری کے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کرتی رہتی ہے اور آواز اٹھانے والوں کو جیلوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔

انہوں نے دی وائر کو بتایا،ہم ہمیشہ سے کہتے رہے ہیں  کہ مرکام حکومت کے انتقام کا شکار  بنی ہیں۔

پی یو سی ایل کے ریاستی صدر ڈگری پرساد چوہان نے مرکام کو جیل میں رکھنے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا، مقصد کبھی بھی  ان مقدمات کو ثابت کرنے کا نہیں ہوتا ہے، بلکہ مرکام جیسی بے خوف آواز کو دبانے کا ہوتا ہے۔مرکام کی طرح ہی بہت سے قبائلی نوجوان حکومت کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی وجہ سےجیلوں میں سڑ رہے ہیں۔

 (اس  رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)