خبریں

عیسائی تنظیموں نے کمیونٹی پر ہو رہے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا، وزیراعظم کی خاموشی پر اٹھایا سوال

ملک بھر میں عیسائی کمیونٹی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے عیسائی  تنظیموں نےمختلف  ریاستی اور مرکزی حکومت کو ملک بھر میں عیسائیوں  اور دیگر اقلیتی کمیونٹی کے جان و مال کے تحفظ  کی اپیل کرتے ہوئے تشدد اور نفرت پھیلانے والے  مجرموں کے خلاف کارروائی  کی مانگ کی ہے۔

عیسائی کمیونٹی کی جانب سے نکالی گئی ایک احتجاجی ریلی۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

عیسائی کمیونٹی کی جانب سے نکالی گئی ایک احتجاجی ریلی۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: میگھالیہ کی سرکردہ  عیسائی تنظیموں نے ملک میں عیسائی کمیونٹی کو نشانہ بنائے جانے کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ‘گہری خاموشی’  پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

دی ٹیلی گراف کی  رپورٹ کے مطابق، چھتیس گڑھ کے نارائن پور ضلع میں ایک چرچ کی حالیہ توڑ پھوڑ اور 16 دسمبر کو آسام پولیس کی طرف سے ریاست کے اضلاع کو چرچوں  کی تعداد اور تبدیلی مذہب کا ڈیٹا جمع کرنے کے لیے جاری کردہ ایک خط سمیت دیگر  وجوہات سے عیسائی تنظیموں کی طرف سےان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔

شیلانگ واقع کرسچن لیڈرز فورم (کے جے سی ایل ایف) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ، ملک کے مختلف حصوں میں عیسائیوں کے خلاف طویل عرصے سے جاری مظالم پر وزیر اعظم کی خاموشی قابل توجہ  ہے۔

فورم نے خصوصی طور پر سوموار (2 جنوری) کو چھتیس گڑھ کے نارائن پور میں وشو دیپتی کرسچن اسکول کے احاطے کے اندر ایک چرچ پر حملے کے  معاملے کو اٹھایا۔ مذکورہ حملے میں ضلع سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سمیت کئی لوگ زخمی ہوگئے تھے۔

اس سلسلے میں منگل (3 جنوری) کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو مقامی رہنماؤں سمیت کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ چھتیس گڑھ میں کانگریس کی حکومت ہے۔

چھتیس گڑھ میں مبینہ طور تبدیلی مذہب کے سلسلے میں عیسائی کمیونٹی پر ہونے والے حملوں  کی کڑی میں نارائن پور کا واقعہ تازہ ترین معاملہ تھا۔

وہیں، کیتھولک ایسوسی ایشن آف شیلانگ نے آسام پولیس کے خط پر تشویش کا اظہار کیا ہے  اور اسے ‘ریاست (آسام) میں خاص طور پر عیسائی اقلیتوں کے لیے ایک خوفناک صورتحال’ قرار دیا۔

بتا دیں کہ میگھالیہ ایک عیسائی اکثریتی ریاست ہے۔

میگھالیہ کی بھاری عیسائی اکثریت میں کیتھولک اور اس کے بعد دیگر فرقوں کا کا غلبہ ہے۔

فورم کے سکریٹری ڈاکٹر ایڈون ایچ کھارکونگور نے کہا کہ فورم نے امیدکی تھی  کہ اقتدار میں بیٹھے  ہوئے لوگ، عیسائیوں اور اپنی  پسند کے مذہب اور  عقیدے پر عمل کرنے والوں کے خلاف بعض تنظیموں کی طرف سے جاری منفی کارروائیوں کو ‘سختی سے مسترد’ کریں گے۔

پورے ملک میں عیسائیوں کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے فورم نے ریاستی اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ وہ ملک بھر میں ‘عیسائیوں اور دیگر اقلیتی گروہوں کی جان و مال کی حفاظت کریں’ اور تشدد اور نفرت پھیلانے والے مجرموں  کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائیں۔

وہیں، کیتھولک ایسوسی ایشن آف شیلانگ نے مرکزی وزارت داخلہ سے’فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کرنے’ کی مانگ کرتے ہوئے  ہمیشہ کے لیے عیسائی  اقلیتوں کو نشانہ بنانے سے روکے جانے کویقینی بنانے کی گزارش کی ہے۔

آسام پولیس کے خط پر کیتھولک ایسوسی ایشن نے کہا کہ جو جانکاری  مانگی گئی ہیں وہ بعض کمیونٹی، علاقوں اور ان کی ثقافت کے تئیں تعصب کو ظاہر کرتی ہیں۔

کیتھولک ایسوسی ایشن کے بیان میں مزید کہا گیا ہے، ‘محکمہ نے ریاست میں خاص طور پر عیسائیوں کو نشانہ بنانے والی سات تفصیلات مانگی ہیں۔ یہ بڑے پیمانے پر کمیونٹی کو ڈرانے اور دھمکانے کی کوششوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔

کیتھولک ایسوسی ایشن نے آسام حکومت بالخصوص وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما سے اس  خط کوواپس لینے کی اپیل کی ہے۔

اس سے قبل شرما نے اصرار کیا تھا کہ متنازعہ خط کا ان کی حکومت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے کہا تھا، ‘میں آسام حکومت کی پوزیشن واضح کرنا چاہتا ہوں۔ ہم کسی چرچ یا کسی اور مذہبی ادارے پر کوئی سروے نہیں کرنا چاہتے۔ میں اپنے آپ کو پوری طرح سےاس  خط سے الگ کرتا ہوں۔ اس پر کبھی کسی سرکاری فورم پر بات نہیں ہوئی۔

(اس  رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)

Categories: خبریں

Tagged as: , , , , ,