خبریں

چھتیس گڑھ: مبینہ تبدیلی مذہب کو لے کر نارائن پور میں ہوئے تصادم میں اب تک 26 لوگ گرفتار

چھتیس گڑھ کے نارائن پور ضلع کے گورا گاؤں میں یکم جنوری کو مبینہ تبدیلی مذہب کو لے کر عیسائی خاندانوں پر ہوئے حملے میں ایک پولیس افسر سمیت متعدد افراد زخمی ہوگئے تھے۔ اگلے دن 2 جنوری کو نارائن پور میں تبدیلی مذہب کے خلاف ایک میٹنگ ہوئی تھی،  جس کے بعد ہجوم نے شہر کے ایک اسکول میں واقع چرچ میں توڑ پھوڑ کی تھی۔ اس سے پہلے اس معاملے میں بی جے پی لیڈروں سمیت کئی لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

چھتیس گڑھ کے عیسائی قبائلیوں پر مبینہ حملے کے خلاف نئی دہلی میں احتجاجی مظاہرہ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

چھتیس گڑھ کے عیسائی قبائلیوں پر مبینہ حملے کے خلاف نئی دہلی میں احتجاجی مظاہرہ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: چھتیس گڑھ کے نارائن پور ضلع کے گورا گاؤں میں مبینہ تبدیلی مذہب کو لے کر دو گروپوں کے درمیان تصادم کے سلسلے میں پولیس نے اتوار کو پانچ اور  لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ ایک افسر نے یہ اطلاع دی ہے۔

بستر رینج کے انسپکٹر جنرل آف پولیس سندرراج پی نے بتایا کہ ایڑکا تھانہ حلقہ کے تحت گوررا گاؤں میں یکم جنوری کو پیش آئے اس واقعہ کے سلسلے میں اب تک آٹھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

پولیس نے 3 جنوری کوتین افراد کو گرفتار کیا تھا۔ افسر نے بتایا کہ اتوار کو گرفتار کیے گئے پانچ لوگوں کی شناخت نارائن پور کے کمہارپاڑا کے پریم ساگر نیتام (48 سال)، چھپریل کے لچھو کارنگا (32 سال)، سنتورام دگا (35 سال) اور پنورام دگا (45) اور تیرتل  کے اجمن کارنگا (46 سال) کے  طور پر کی گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ تمام کو مقامی عدالت میں پیش کیا گیاتھا، جس نے انہیں عدالتی تحویل میں جیل بھیج دیا ہے۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ ان پانچ میں سے دو کے پادری ہونے کی بات پتہ چلی ہے۔

پولیس نے بتایا کہ قبائلیوں، قبائلی عیسائیوں اور پولیس پر ہوئے مبینہ حملوں کے سلسلے میں تینوں کی تحریرپر ایڑکا پولیس اسٹیشن میں تین الگ الگ مقدمات درج کیے گئے تھے۔

انسپکٹر جنرل آف پولیس سندرراج پی نے کہا کہ گوررا گاؤں اور نارائن پور شہر میں رونماہوئے واقعات کے سلسلے میں اب تک 26 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

واضح ہو کہ یکم جنوری کو نارائن پور کے گورا گاؤں میں عیسائی خاندانوں پر  ہوئے حملے میں ایک پولیس افسر سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے تھے۔ کچھ زخمی افراد نے بتایاتھا کہ تقریباً ایک درجن عیسائیوں پر تقریباً 400 سے 500 لوگوں کی بھیڑ نے حملہ کیاتھا، جس میں گورا گاؤں کے لوگ اور باہر کے لوگ شامل تھے۔

اس کے اگلے دن2 جنوری کومبینہ تبدیلی مذہب کے خلاف احتجاج کے لیے نارائن پور میں تقریباً 2000 لوگوں نے میٹنگ کی تھی، جن میں زیادہ تر قبائلی تھے۔

پولیس کے مطابق، اس گروپ نے میٹنگ میں مبینہ تبدیلی مذہب پر تبادلہ خیال کیا۔ میٹنگ کے بعد بھیڑ گروپوں میں بٹ گئی اور اس میں ایک گروپ  لاٹھی–ڈنڈوں سے لیس ہو کر مبینہ طور پر بنگلا پاڑا میں وشوا دیپتی کرسچن اسکول کیمپس میں گھس گیا اور کیمپس میں واقع سیکریڈ ہارٹ چرچ میں توڑ پھوڑ کی تھی۔

پولیس نے اس سلسلے میں 3 جنوری کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو مقامی رہنماؤں سمیت کئی لوگوں کو گرفتار کیا تھا۔

بتادیں کہ 18 دسمبر 2022 کو قبائلی عیسائی کمیونٹی  کے لوگوں نے اپنے اوپر ہونے والے مبینہ مظالم کے خلاف نارائن پور ضلع کے کلکٹر آفس کے سامنےدھرنا دیا تھا۔ قبائلی اکثریتی ضلع کے کم از کم 14گاؤں  کے مظاہرین نے دعویٰ کیا  تھاکہ  عیسائی مذہب پر عمل کرنے کی وجہ سے ان پر مبینہ طور حملہ کیا گیا اورانہیں گھروں سے نکال دیا گیا۔ انہوں نے انتظامیہ سے اس معاملے میں کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، یہ تمام متاثرہ خاندان عارضی کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ نارائن پور شہر کے انڈور اسٹیڈیم میں متاثرہ خاندانوں کے لیے عارضی کیمپ لگائے گئے ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)