خبریں

تبدیلی مذہب ایک سنگین مسئلہ، اسے سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہیے: سپریم کورٹ

دھوکہ دہی سےہونے والے تبدیلی مذہب کو روکنے کے لیےمرکز اور ریاستوں کو کڑی  کارروائی کرنے کی ہدایت  دینے کی گزارش کرنے والی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم پورے ملک کے لیے فکر مند ہیں۔ اگر یہ آپ کی ریاست میں ہو رہا ہے تو یہ برا ہے۔ اگر نہیں ہو رہا ہے تو اچھی بات ہے۔ اسے سیاسی ایشو نہ بنائیں۔

(علامتی تصویر، کریڈٹ: Lawmin.gov.in)

(علامتی تصویر، کریڈٹ: Lawmin.gov.in)

نئی دہلی: تبدیلی مذہب کو ایک سنگین مسئلہ بتاتے ہوئے سپریم کورٹ نے سوموار کو کہا کہ اسے سیاسی رنگ نہیں  دیا  جانا چاہیے۔ کورٹ نے دھوکہ دہی سے تبدیلی مذہب کے واقعات کو روکنے کے لیےمرکز اور ریاستوں کو کڑی  کارروائی کرنے کی ہدایت دینے کی عرضی پر اٹارنی جنرل آر کے وینکٹ رمنی کی مدد مانگی۔

جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی بنچ نے اٹارنی جنرل سے اس معاملے میں پیش ہونے کے لیے کہا، جس میں درخواست گزار نے ‘ڈر، دھمکی، تحائف اور پیسے  کے ذریعے دھوکہ دہی’ سے تبدیلی مذہب پر روک لگانے کی  اپیل کی ہے۔

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ اصل میں تبدیلی مذہب کے واقعات  ہو رہے ہیں۔

اس معاملے میں اٹارنی جنرل آر وینکٹ رمنی کی مدد طلب کرتے ہوئے جسٹس شاہ نے کہا، مذہب کی آزادی اور مذہب تبدیل کرنے کی آزادی میں فرق ہے۔ ہر کوئی یہ  کر سکتا ہے، لیکن لالچ سے نہیں، اس کے طریقے ہیں کہ کیا کیا جانا چاہیے؟ کیا اصلاحی اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟

بنچ نے کہا، ‘ہم آپ کی مدد بھی چاہتے ہیں، اٹارنی جنرل۔ زبردستی ،لالچ وغیرہ کے ذریعے تبدیلی مذہب – کچھ طریقے ہیں اور اگر  لالچ  سے  بھی کچھ ایسا ہو رہا ہے تو کیا کیا جانا چاہیے؟ اصلاحی اقدامات کیا ہیں؟

بنچ نے یہ تبصرہ اس وقت کیا جب تمل ناڈو حکومت کے وکیل پی ولسن نے اس کیس میں عرضی گزار ‘بی جے پی ترجمان’ اشونی کمار اپادھیائے (جو ‘سیڈیشن  کے معاملے کا سامنا کر رہے ہیں) کی طرف سے دائر پی آئی ایل کو ‘سیاسی’ کہا۔

انہوں نے کہا کہ ریاست میں اس طرح کےتبدیلی مذہب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ولسن نے کہا کہ اس معاملے کو مقننہ پر چھوڑ دیا جانا چاہیے کہ وہ فیصلہ کرے۔ انہوں نے کہا کہ درخواست گزار کی سیاسی وابستگی ہے۔

بنچ نے اس پر اعتراض کرتے ہوئےتبصرہ کیا، ‘آپ کے پاس اس طرح مشتعل ہونے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ عدالتی کارروائی کو دوسری چیزوں مت بدلیے۔ ہم پورے ملک کے لیے فکرمند ہیں۔ اگر یہ آپ کی ریاست میں ہو رہا ہے تو یہ برا ہے۔ اگر یہ نہیں ہو رہا ہے تو یہ اچھی بات ہے۔ اسے کسی ریاست کو نشانہ بنانے کے طور پر نہ دیکھیں۔ اسے سیاسی مسئلہ نہ بنائیں۔

درخواست گزار اپادھیائے نے تب عدالت کو بتایا کہ تبدیلی  مذہب ایک ‘جارحانہ  فعل’ ہے۔ انہوں نے ان دعووں کو خارج کر دیا کہ ان کی عرضی تبدیلی مذہب کے کسی  بھی ڈیٹا پر مبنی نہیں ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ملک میں حقیقت  میں تبدیلی مذہب کے واقعات  ہو رہے ہیں۔

اپادھیائے نے کہا، میرے پاس اعداد و شمار دکھانے کے لیے کتابیں ہیں۔انہوں نے عدالت میں کتابوں کا ڈھیر اٹھاتے ہوئے اس بات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ ان کی درخواست اعداد و شمار پر مبنی ہے۔

عدالت ایڈوکیٹ اشونی کمار اپادھیائے کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی، جس میں دھوکہ دہی پر قابو پانے کے لیے مرکز اور ریاستوں کو سخت اقدامات کرنے کی ہدایت  دینے کی درخواست کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ دھوکہ دہی سے تبدیلی مذہب بہت سنگین معاملہ ہے اور درخواست گزار کی طرف سے پیروی کر رہے سینئر وکیل اروند داتار کو براہ راست عدالت میں حاضر ہوں۔

سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے اس طرح کی تبدیلی کو قومی مفاد کا معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت اسے سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

سپریم کورٹ نے اس معاملے میں 23 ستمبر 2022 کو مرکز اور دیگر سے عرضی پر جواب طلب کیا تھا۔ اپادھیائے نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ جبری تبدیلی  مذہب ایک ملک گیر مسئلہ ہے، جس سے فوری طور پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔

درخواست میں لا کمیشن کو ایک رپورٹ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ایک بل تیار کرنے کی ہدایت دیے جانے کی بھی گزارش کی گئی ہے، تاکہ ڈرا دھمکا کر اور پیسےکے لالچ کے ذریعے کرائے جانے والے تبدیلی مذہب  پر قابو پایا جا سکے۔

کیس کی اگلی سماعت 7 فروری کو ہوگی۔

اس سے پہلے کے واقعات

واضح ہو کہ 5 جنوری کو جمعیۃ علماء ہند نے بی جے پی مقتدرہ  اتر پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کے تبدیلی مذہب مخالف قوانین کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

جمعیۃ نے اپنی درخواست میں دعویٰ کیا کہ یہ قوانین بین مذہبی جوڑوں کو ‘ہراساں’ کرنے اور انہیں مجرمانہ مقدمات میں پھنسانے کے لیے لاگو کیے گئے ہیں۔

دریں اثنا، مدھیہ پردیش حکومت کی ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے3 جنوری کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ہر طرح کی تبدیلی کو غیر قانونی نہیں کہا جا سکتا۔

عدالت نے مدھیہ پردیش حکومت کی ایک درخواست پر سماعت کرنے پر اتفاق کیا،جس میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کومطلع کیے  بغیر شادی کرنے والے بین مذہبی جوڑوں کے خلاف مقدمہ چلانے سے روکنے والے ہائی کورٹ کے فیصلے  کو چیلنج کیا گیا تھا۔

مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے ایک عبوری فیصلے میں ریاستی حکومت کو مدھیہ پردیش مذہبی آزادی ایکٹ (ایم پی ایف آر اے) کی دفعہ 10 کے تحت ان بالغ افراد کے خلاف مقدمہ نہیں  چلانے کی ہدایت دی تھی، جو اپنی مرضی سے شادی کرتے ہیں۔

ہائی کورٹ نے اپنے 14 نومبر 2022  کے اپنے فیصلے میں کہا  تھاکہ دفعہ 10، جو مذہب تبدیل کرنے کے خواہشمند شہری کے لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو اس سلسلے میں (پہلے) اعلامیہ دینا لازمی بناتا ہے، ہماری رائے میں اس عدالت کے پہلے دیے گئے  فیصلوں کی رو سےغیر آئینی ہے۔

اس سے قبل 05 دسمبر 2022 کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ چیرٹی  کا مقصد تبدیلی مذہب نہیں ہونا چاہیے۔

ایک دن پہلے، 04 دسمبر 2022 کو گجرات حکومت نے اس معاملے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ مذہبی آزادی کے حق میں دوسروں کا مذہب تبدیل کرانے کا حق شامل نہیں ہے۔ حکومت نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ وہ ریاست کے انسداد تبدیلی قانون کےا ہتمام پر ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کو کالعدم قرار دے۔

گجرات حکومت نے اس ریاستی قانون کے اس اہتمام  پر ہائی کورٹ کے اسٹے کو ہٹانے کی درخواست کی تھی، جس کے تحت شادی کے ذریعے مذہب تبدیل کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی پیشگی اجازت لینا لازمی ہے۔

غور طلب ہے کہ 29 نومبر 2022 کو مرکزی حکومت نے بھی سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ مذہبی آزادی کے حق میں دوسروں کا مذہب تبدیل کرنے کا حق شامل نہیں ہے۔ اسی طرح کی روایتوں پر قابو پانے والے قانون معاشرے کے کمزور طبقوں کے حقوق کے تحفظ کے لیےایسےضروری ہیں۔

بتادیں کہ 14 نومبر 2022 کو اس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جبری تبدیلی مذہب قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے اور شہریوں کی مذہبی آزادی متاثر ہو سکتی ہے۔ اس نے مرکز سے کہا کہ وہ ‘انتہائی سنگین’ مسئلے سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے۔

عدالت نے خبردار کیا تھا کہ اگر دھوکہ دہی، لالچ  اور دھمکی کے ذریعے کیے  جانے والے تبدیلی مذہب کو نہ روکا گیا تو ‘انتہائی مشکل صورتحال’ پیدا ہو جائے گی۔

عدالت نے کہا تھا کہ ‘مبینہ تبدیلی مذہب  کا معاملہ، اگر صحیح اور سچا پایا جاتا ہے، تو یہ ایک بہت سنگین مسئلہ ہے، جو بالآخر قوم کی سلامتی کے ساتھ ساتھ شہریوں کے مذہب اور ضمیر کی آزادی کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ مرکزی حکومت اپنا موقف واضح کرے اور زبردستی، لالچ یا دھوکہ دہی کے ذریعے اس طرح کے جبری تبدیلی مذہب  کو روکنے کے لیے مزید کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں، اس پر  وہ/دیگر(ریاستی حکومتیں) ایک حلف نامہ داخل کرے ۔

 (خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)