فکر و نظر

کشمیر کی کسمپرسی: انورادھا بھسین کی تحقیقی کتاب

بارہ ابواب پر مشتمل  400صفحات کی اس کتاب میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ انورادھا نے اس کتاب میں ہندوستان کے سیکولر اور لبرل طبقہ کو مخاطب کرکے خبردار کیا ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اس کو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ، گلی گلی ہندوستان کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائیں گے۔

انورادھا بھسین کی تحقیقی کتاب کا سرورق

انورادھا بھسین کی تحقیقی کتاب کا سرورق

قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ میں شاید ہی کسی اور قوم کی بدبختی کا دورانیہ اتنا طویل رہا ہوگا، جنتا کشمیریوں کا ہے اور یہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ گو کہ اس قوم کی بدقسمتی اور کسمپرسی میں اپنوں کی نا عاقبت اندیشیوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ہر دور میں اضافہ ہی ہوتا رہا ہے۔

مگر 5اگست2019  کو ہندوستان کی وزیر اعظم نریندر مودی حکومت نے جو اقدامات اٹھائے، اس نے کشمیر کو تاریخ کے ایک ایسے نازک موڑ پر لاکر کھڑا کردیا ہے، جس سے نہ صرف اس کے باشندوں کو مکمل طور پر بے اختیار کرنے، بلکہ ہندو قوم پرستی کی تہذیبی یلغار سے ا ن کی مذہبی و لسانی شناخت اور انفرادیت کو بھی داؤ پر لگا کر اپنے ہی وطن میں غیر اور بے بیگانہ کرنے کا عمل شروع کیا گیاہے۔

اس تناظر میں ریاست جموں و کشمیر کے مؤقر انگریزی اخبار دی کشمیر ٹائمز کی مدیر انورادھا بھسین نے حال ہی میں اپنی شائع کتاب اے ڈسمانٹلیڈ اسٹیٹ: دی ان ٹولڈ اسٹوری آف کشمیر آفٹر آرٹیکل 370 میں پچھلے تین سالوں سے اس قوم کے ساتھ بیتے گئے لمحات کو ڈاکومینٹ کرکے، ایک ہزار کے قریب نئے قوانین کے اطلاق اور مقامی آبادی پر ان کے اثرات پر جس خوبی اور بصیرت کے ساتھ بحث کی ہے،اس نے ایک بار پھر ثابت کردیا  ہے کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے جدید صحافت کے بانی وید بھسین کی بیٹی کہلانے کی واقعی حق دار ہے، جنہوں نے اپنی زندگی میں مشکل ترین حالات میں بھی صحافتی اقدار کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

انورادھا لکھتی ہیں کہ5اگست 2019کی صبح جب کشمیریوں کی بدقسمتی کی ایک اوررات کا آغازہو رہا تھا، تو اپنے مضطرب ذہن کو سکون دینے کے لیے وہ جموں شہر کی مقتدر شخصیت کرشن دیو سیٹھی کے پاس چلی گئیں۔

ایک زمانے میں قد آور لیڈر شیخ محمد عبداللہ کے دست راست سیٹھی صاحب واحد ایسے زندہ لیڈر تھے، جو جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ممبر رہ چکے تھے۔ انہوں نے ریاست کے آئین کا مسودہ تیا ر کیا تھا، جس کو نئی دہلی میں وزیر داخلہ امت شاہ اس وقت ر دی کی ٹوکری کی نذر کر رہے تھے۔اپنی بوڑھی آنکھوں سے ٹی وی اسکرین کی طرف دیکھ کر آنسو پونچھتے ہوئے سیٹھی صاحب کہہ رہے تھے کہ ؛’بیٹی سب کچھ ختم ہو گیا۔’ 1950کی دہائی میں زمینی اصلاحات کو لاگو کروانے اور زمینداروں و جاگیرداروں سے زمینیں چھین کر کاشتکاروں میں بانٹنا ان کا ایک اہم کارنامہ تھا۔

انورادھا نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ اصلاحات جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے بغیر ممکن ہو سکتی تھیں، تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ کشمیر میں مکمل زمینی اصلاحات اسی لیے مملن ہوسکی، کیونکہ تب تک کشمیرپر ہندوستان کے اداروں بشمول سپریم کورٹ کی عملداری نہیں تھی، اس لیے ا ن اصلاحات کو چیلنج نہیں کیا جاسکا۔

سیٹھی صاحب کہہ رہے تھے کہ شخصی ڈوگرہ راج کے خلاف ان کی جنگ کی افادیت کو آناً فاناً ختم کردیا گیا ہے۔ ”… میری زندگی  کوبیکار کردیا گیا ہے۔ میں نے اپنی زندگی برباد کر دی- جیل گیا، زیر زمین تحریک چلائی۔ 1947 سے پہلے اور بعد میں جابر طاقتوں سے لڑا۔مگر افسوس صد افسوس۔ “  انورادھا کے مطابق، ایک ایسا شخص، جو زندگی بھر بے خوف رہا، کے چہرے پر ناامیدی واضح تھی۔ جنوری 2021میں ان کا انتقال ہوگیا۔

ماضی کے دریچے کھولتے ہوئے سیٹھی صاحب انورادھا کو بتا رہے تھے کہ 1949 میں شیخ عبداللہ نے جموں و کشمیر کے مستقبل پر بات چیت کرنے کے لیے نئی دہلی ایک وفد بھیجا، جس میں وہ بھی شامل تھے۔ اس وفد نے وزیرا عظم جواہر لال نہرو، اور وزیر داخلہ، سردار ولبھ بھائی پٹیل کے ساتھ کئی دور کی بات چیت کی۔ دونوں لیڈران جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو تسلیم کیے جانے کے حامی تھے۔

سیٹھی صاحب کے بقول ان کے وفد نے پانچ نکات پیش کیے، جن میں زمینی اصلاحات، قرضوں کی معافی، شخصی ڈوگرہ راج کا خاتمہ،  علیحدہ کرنسی اور علیحدہ آئین و جھنڈا شامل تھے۔ نہرو اور پٹیل نے الگ کرنسی کے مطالبہ کو تو مسترد کر دیا، مگر باقی چار پر حامی بھر لی۔ مگر اب یہ سبھی چیزیں ا ن کی ٹمٹماتی آنکھوں کے سامنے چھینی جا رہی تھیں۔ ہندوستانی لیڈروں کے باقی وعدوں کی طرح اس کو بھی ہوا میں اڑایا جا رہا تھا۔

دستایز الحاق کی شق 5 میں ہی بتایا گیا تھا کہ انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ جو بعد میں ہندوستانی آئین قرار پایا کے ذریعے الحاق کی شقوں میں ترمیم نہیں کی جائےگی۔ شق 7 میں بتایا گیا کہ اس دستاویز کی رو سے ہندوستان کے مستقبل کا آئین یا حکومت ہند، ریاست کے انتظامی امور میں مداخلت کا حقدار نہیں ہوگا۔

چار(4) اگست 2019 کی آدھی رات کو، جب کشمیر میں سڑکیں سیل کر دی گئیں، اور تمام مواصلاتی رابطہ منقطع کر دیےگئے، انورادھا کی  بہن سرینگر میں درگاہ حضرت بل سے متصل کشمیر یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں مقیم تھیں۔ شام کو اس نے فوجیوں کی غیر معمولی نقل حرکت دیکھی۔ رات گئے تک اس کے فون کے سگنل ہی غائب تھے۔

صبح گیسٹ ہاؤس کی لینڈ لائن بھی ڈیڈ تھی۔ گیسٹ ہاوس میں وارانسی یعنی بنارس یونیورسٹی کے کچھ اسکالرز بھی مقیم تھے، وہ نبادیات کے کسی پروجیکٹ پر کام کرنے کے لیے کشمیر آئے ہوتے تھے۔کسی طرح یونیورسٹی سے بسیں حاصل کرکے وہ ایر پورٹ پہنچے۔ انورادھا کی ہمشیرہ، پہلی ایسی خاتون تھی، جو چشم دید واقعات سنانے کے لیے جموں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔

اس کا کہنا تھا کہ سرینگر ایک خوف و دہشت کی بستی میں تبدیل ہو گیا ہے۔ پورا شہر خار دارتارو ں سے بھرا ہو اہے اور ہر گلی اور موڑ پر سپاہی تعینات ہیں۔ ایر پورٹ کے راستے ان کی کئی جگہوں پر چیکنگ کی گئی۔ وہ راستے بھر معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایسا کیا کچھ ہوا ہے کہ کرفیواور اس طرح کی پر اسرار خاموشی طاری کی گئی ہے۔ مگر بتانے والا کوئی نہیں تھا۔کسی کو پتہ نہیں، کہ کیا ہوا ہے۔

انہیں ایر پورٹ تک پہنچے میں دو گھنٹے کا وقفہ لگا۔ جموں پہنچ کر اس کو معلوم ہوا کہ ہندوستانی پارلیامنٹ نے ریاست جموں و کشمیر کو دولخت کرکے لداخ اور بقیہ خطے کو دو مرکزی انتظام والے علاقوں میں تبدیل کردیا ہے اور اسی کے ساتھ خود ہندوستانی آئین میں اس خطے کے آئینی حقوق اور محدود خود مختاری کو ختم کر دیا ہے۔

انورادھا لکھتی ہیں کہ تین دن بعدجب وہ سرینگر میں تھیں تو غیر اعلانیہ کرفیو کے دوران اپنے دفتر جارہی تھیں، تو ان کو کئی سیکورٹی رکاوٹیں عبور کرنی پڑیں۔ ایک رکاوٹ پر جموں و کشمیر پولیس کے اہلکار نے ان کو بتایا کہ ان کو غیر مسلح کردیا گیا ہے۔ پولیس نے درخت کے سائے میں کرسی پر آرام فرما رہے سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے ایک آفیسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم ان سے احکامات لیتے ہیں۔

کتاب کے مطابق خصوصی حیثیت کا کھو جانا صرف ایک جذباتی مسئلہ نہیں تھا، بلکہ یہ جموں و کشمیر میں جمہوریت کی آخری نشانیاں تھیں، جن کو فوجی بوٹو ں کے تلے روند دیا گیا۔ ہندوستان نے مشروط الحاق سے مکمل انضمام کی طرف مارچ کیا۔ بتایا گیا کہ اس انضمام سے کشمیریوں کو ہندوستانی شہریوں کے برابر حقوق ملیں گے۔ وہ جمہوریت کے پھل کا پوری طرح لطف اٹھا سکیں گے۔ مگر شہریوں کو گھیر کر اور سول سوسائٹی کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کرکے کس طرح کی جمہوریت لائی جا رہی ہے؟

حقوق انسانی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ کارکن خرم پرویز کو نومبر 2021 کو انسداد دہشت گردی کے دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ کشمیر ٹائمز کی مدیر کے بقول ان کی گرفتاری سے ٹھیک ایک ماہ قبل، اس نے سری نگر میں ان کے دفتر میں دو گھنٹے گزارے۔ خرم نے ان سے کہا کہ صورتحال تشویشناک ہے۔ لوگوں پر خاموشی طاری کر دی گئی ہے۔وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہے ہیں۔  اس کے باوجود سول سوسائٹی کے دیگر اراکین کے ساتھ مل کر وہ کوئی راستہ تلاش کرنے کو کوشش کر رہی تھے، جو ان کی گرفتاری کے بعد بند ہو گیا۔

 ویسے تو پچھلے ستر سالوں میں، جموں و کشمیر کی خودمختاری اور جمہوریت پر دیگر حکومتوں کے دور میں بھی کاری وار کیے گئے ہیں، مگر موجودہ اقدامات سے کشمیر کے مسئلہ کے دیرپا اور پر امن طور پر حل کرنے کے راستے مسدود ہو گئے ہیں۔ اس تنازعہ کے ایک فریق یعنی کشمیریوں کو مکھن میں پڑے بال کی طرح باہر نکال دیا گیا ہے۔ ان کی اب کوئی حیثیت باقی نہیں رہ گئی ہے۔

لگ بھگ 334 ریاستی قوانین میں سے، 164 قوانین کو منسوخ کر دیا گیا ہے، اور 167 قوانین کو ہندوستانی آئین کے مطابق ڈھال لیا گیا ہے۔ مزید 800نئے قوانین نافذ کیے گئے ہیں۔ ان قوانین نے مقامی آبادی کو حقوق بخشنے کے بجائے مزید بے اختیار کر دیا ہے۔ نہ صرف حق رائے دہی سے محرو می، بلکہ شہری و سیاسی آزادیوں کو سلب کرنے اور آبادیاتی تبدیلی کے لیے زمین ہموار ہو رہی ہے۔

ہندو اکثریتی جموں میں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے حامی خوشیاں منا رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بتایا جا رہا تھا کہ ،’اب کشمیریوں کو سبق سکھا دیا گیا ہے۔ اب ہم بھی ڈل جھیل کے کنارے زمین خریدیں گے۔’ نفرت اور جہالت کا ایک طوفان برپا تھا۔

ان اقدامات کے دور رس اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے کتاب میں بتایا گیا ہے کہ خود ہندو اکثریتی جموں اور لداخ کے بدھ اکثریتی لیہہ ضلع میں، جہاں ریاست کے دولخت ہونے اور ہندوستان میں ضم کرنے پر خوشیاں منائی گئی تھیں، اب یہ احساس گھر کر رہا ہے کہ وہ ایک بڑے نقصان کے طرف گامزن ہیں۔ جموں کے بزنس طبقہ کو اب ہندوستان کے کارپوریٹ کے ساتھ مسابقت کرنی پڑ رہی ہے۔

دوسری طرف بدھ آبادی، جو پہلے ہی قلیل تعداد میں ہے کو شناخت کا مسئلہ درپیش آگیا ہے۔ اس خطے میں اب چین، ہندوستان کے لیے ایک واضح خطرہ کے بطور ابھر گیا ہے، جس کا علاج فی الحال ہندوستان کے پاس نہیں ہے۔ چین کے ساتھ سرحدی تنازعات کبھی بھی بے قابو ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف کشمیر کے اندر مایوسی اور خوف کاعنصر مقامی آبادی کو کسی بھی انتہا تک لےجانے کا موجب بن سکتا ہے۔

خاموشی ایک طوفان کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ پورے خطہ کو ایک آتش فشاں کے اوپر بٹھادیا گیا ہے، جو مختلف شکلوں اور مختلف آوازوں کے ساتھ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔انورادھا خبردار کرتی ہیں کہ ہندوستانی حکومت کی موجودہ کشمیر اور خارجہ پالیسی خطے کے لیے نہایت خطرناک رجحانات کی حامل ہے۔

مواصلات پر پابندی کی وجہ سے کشمیر میں میڈیا پر بھی عملی طور پابندی لگائی گئی تھی۔انورادھا نے 10 اگست کومعروف وکیل ورندا گروور کے ساتھ پٹیشن تیار کرکے اس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ کشمیر میڈیا کی طویل خاموشی نے بھی ایک آزاد اور خودمختار میڈیا کے مستقبل کے امکانات کے بارے میں خوف اور خدشات کو جنم دیاتھا۔ ایک میڈیا پروفیشنل کے طور پر کشمیر ٹائمز کے سب سے سینئر ایڈیٹرز میں سے ایک کے طور پر،اس پر آواز اٹھانا ان کے فرائض میں شامل تھا۔

انہوں نے استدعا کی تھی کہ پریس اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونی کیشن سروسز اور فوٹو جرنلسٹ اور رپورٹرز کی نقل و حرکت پر عائد سخت پابندیوں میں فوری نرمی کی جائے۔ٹھیک پانچ ماہ بعد، 10 جنوری 2020 کو، عدالت نے کہا کہ حکومت طویل عرصے تک انٹرنیٹ یا لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں نہیں لگا سکتی۔ اس کے علاوہ، اس نے کہا کہ ان حقوق کو عارضی طور پر چھیننے کے لیے درست وجوہات کو پبلک ڈومین میں لانا ہو گا۔ یہ سب کچھ بتانے کے باوجود، عدالت نے فوری طور پر پابندیوں کو واپس لینے کا حکم نہیں دیا۔

اس نے جموں و کشمیر حکومت سے کہا کہ وہ سات دنوں کے اندر پابندیوں کو کم کرنے کے لیے ایک ‘جائزہ کمیٹی’ قائم کرے۔حکومت نے میڈیا کے لیے عارضی طور پر فیسیلیٹیشن سینٹر (ایم ایف سی)  ہا ئی سیکورٹی زون میں ایک ہوٹل کے تہہ خانے میں قائم کیا، جس کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔ بس یہی ایک جگہ تھی، جہاں باہر فون کیا جاسکتا تھا۔

دو سو سے زیادہ صحافی تین کمپیوٹرز اور فون استعمال کرتے تھے۔ 3 فروری 2021 کوجموں و کشمیر پولیس نے انٹرنیٹ پر رضاکاروں کے طور پر ایک نجی فورس تشکیل دی، جو انٹرنیٹ پر نظر رکھ کر پولیس کو رپورٹ کریں گے۔ یہ ایک طرح سویلین ملیشیا کا قیام تھا، جس طرح نوے کی دہائی میں اخوان کے نام سے عسکریت پسندوں سے نپٹنے کے لیے احتساب اور جوابدہی سے مبرا ایک غیر سرکاری فورس ترتیب دی گئی تھی۔

بس ان کے ہاتھ میں بندوق کے بجائے کمپیوٹر اور فون دیا گیا۔  ایک صحافی کی حیثیت سے انورادھا بتا رہی ہیں کہ ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیا کا رول اس دورا ن نہایت ہی بدبختانہ رہا۔ جمہوریت کے ایک ستون کا کردار نبھانے کے بجائے اس میڈیا نے ہندوتوا کے خانے میں رنگ بھر کر کشمیریوں کی زندگیا ں مزید اجیرن بنادی۔

 مواصلاتی پابندیوں سے کس قدر عوام کو ہراساں ا ور پریشان کردیا گیا، کتاب میں راجوری ضلع کی تحصیل بدھل کے ایک دور دراز علاقے کے ایک سرپنچ کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس کے علاقے کے ہر گاؤں کے باہر سیکورٹی اہلکار تعینات تھے، جو لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا رہے تھے اور موبائل و دیگر فون بند تھے۔ بجلی اور پانی کی سپلائی میں خلل پڑنے کی شکایت کرنے کے لیے ان کے پاس سول انتظامیہ تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ پولیس اہلکاروں نے تحصیلدار تک پیغام پہنچانے کے لیے ان کو پنے وائرلیس سیٹ کا استعمال کرنے تو دیا، مگر کوئی مدد نہیں آئی۔

آخر کار قدیم زمانے کی سواری یعنی گھوڑے پر سوار ہوکر یہ سرپنچ دسمبر 2019کو راجوری پہنچا اور اپنی شکایت سول انتظامیہ تک پہنچائی۔ اسی ضلع کے تھانمنڈی کے ایک اور سرپنچ نے بتایا کہ لاک ڈاؤن شروع ہونے کے ایک ہفتے بعد فوج اور پولیس نے بافلیاز گاؤں میں چھاپے مارے، گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور لوگوں کو مارا پیٹا۔ فون، انٹرنیٹ، ٹی وی وغیرہ بند ہونے کی صورت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔

انو رادھا کے مطابق کشمیر میں تو ویسے ہر دور میں ہی کٹھ پتلی حکومتیں رہی ہیں، جو نئی دہلی کے اشاروں پر کام کر تی تھیں۔ ہندوستان نے توکشمیر کے سب سے بڑے لیڈرشیخ عبداللہ تک کو نہیں چھوڑا۔ قید و بند کی زندگی گزارنے کے باوجود انہوں نے آخری ماہ و سال نئی دہلی کی چھتر چھایا میں گزارکر اقتدار سنبھالا۔ مگر اس کے باوجود ان مقامی سیاستدانوں کو چند آزادیا ں مہیا تھیں اور ایک سرخ لکیر تھی، جس کو نئی دہلی کے حکمرانوں کوکو عبور کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ 5 اگست کو یہ لکیر روند دی گئی اور اس وقت ان سیاستدانوں کی حالت سب سے قابل رحم ہے۔

یہ واضح ہو گیا ہے کہ مرکز میں حکمراں بی جے پی مسلم اکثریتی خطہ کو کنٹرول کرنے اور اس پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔اس کے لیے مسلم لیڈروں کو منقسم رکھنا ہے، کشمیری سیاست دانوں کو گڑے گڑیا کے طور پر کام کرنا ہے۔ کسی کو مراعات دیکر، کسی کو تعدیب کا نشانہ بناکر، تو کسی کو بے عزت کرکے بی جے پی کے لیے اقتدار کا راستہ صاف کرنا ہے۔

سال 2018میں جب دو مقامی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بی جے پی کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے ہاتھ ملایا اور حکومت سازی کے لیے دعویٰ پیش کیا،تو گورنر ستیہ پال ملک نے بتایا، چونکہ کوئی دعویٰ نہیں آیا، اس لیے وہ گورنر راج نافذ کررہے ہیں، بعد میں انہوں نے اسمبلی ہی تحلیل کردی۔

جب ان کو بتایا گیا کہ محبوبہ مفتی نے اراکین اسمبلی کی اکثریت کے دستخطوں پر مشتمل خط ان کو بھیجا تھا، تو ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے دفتر کی فیکس مشین خراب تھی، اس لیے حکومت سازی کے دعویٰ کا خط ا ن کو مل نہیں سکا۔

دفعہ 370  کے خاتمہ کے دو ماہ بعد ہی کم از کم 7.27 مربع کلومیٹر کا جنگل کا رقبہ فوج کے حوالے کر دیا گیا اور 1800 سے زیادہ درختوں کی کٹائی کی منظوری دی گئی۔ 26 جولائی 2020 کو جموں و کشمیر کی انتظامی کونسل نے مزید دو ترمیم کرنے کی منظوری دی تھی۔ جموں و کشمیر کے کسی بھی علاقے کو ‘اسٹریٹجک ایریاز’ کے طور پر ڈیکلیر کیا جاسکتا ہے، جہاں مسلح افواج بلا روک ٹوک تعمیرات اور دیگر متعلقہ سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔

مئی 2020 کو، سری نگر سے تقریباً 26 کلومیٹر دور پٹن میں ہندوستانی فوج کی ایک یونٹ نے  129 کنال اراضی پر قبضہ جمالیا۔ پہلے پانچ مہینوں کے اندر ہی بڑے پیمانے پر زمین کی تلاش کی مشق میں، جموں و کشمیر حکومت نے صنعتی انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے کشمیر کے علاقے میں 203020 ایکڑ سرکاری اراضی میں سے 15000 ایکڑ کی نشاندہی کی۔

حکام کے مطابق، اس زمین کا زیادہ تر حصہ ماحولیاتی طور پر حساس ہے کیونکہ یہ یا تو دریاؤں، ندیوں اور دیگر آبی ذخائر کا حصہ ہے یا اس کے قریب ہے۔ جموں میں ترقی کے لیے 42000 ایکڑ سرکاری اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر حکومت کی فاریسٹ ایڈوائزری کمیٹی نے 727 ہیکٹر (1780 ایکڑ) سے زیادہ جنگلاتی اراضی کو تبدیل کرنے کی منظوری دی ہے۔

اس نے نامزد جنگلاتی علاقوں اور سوشل فارسٹ کے علاقوں میں کم از کم 1847 درختوں کی کٹائی کی بھی منظوری دی ہے۔ماحولیاتی اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس طرح کے منصوبوں کے لیے جلد بازی کی منظوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے 198 منصوبوں کو 18 ستمبر سے 21 اکتوبر 2019 تک تینتیس دنوں کے دوران چار اجلاسوں میں منظور کیا گیا۔

بارہ ابواب پر مشتمل  400صفحات کی یہ کتاب،  جو بین الاقوامی اشاعتی ادارے ہارپر کولنس نے شائع کی ہے، صحافیوں اور کشمیر پر تحقیقی اور مطالعاتی کام کرنے والوں کے لیے ایک نہایت ہی عمدہ گائیڈ ہے۔ نہایت ہی سشتہ صحافتی زبان میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ہندوستان کے سیکولر اور لبرل طبقہ کو مخاطب کرکے ان کو خبردار کیا گیا ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اس کو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ، گلی گلی ہندوستان کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائیں گے۔

کشمیر کے اسمبلی اور پارلیامانی حلقوں کی حد بندی، جس کے ذریعے اکثریتی آبادی کو بے وقعت کرنے کا سامان کیا گیا، اب آسام میں دہرایا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ جموں و کشمیر کے بعد تناسب کے اعتبار سے سب سے بڑی مسلم آبادی یعنی 34فیصد آسام میں ہی ہے۔ اسی طرح کشمیر میں مقامی آبادی کی زمینوں سے بے دخل کرنے کا تجربہ اب بحیرہ عرب میں لکشدیب جزائر میں دہرایا جا رہا ہے، جہاں کے مسلم قبائلیوں کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے۔

کشمیر پر مودی حکومت کے اقدامات کے ایک د ن بعد یعنی 6اگست 2019 کو معروف کالم نویس پرتاپ بانو مہتہ نے انڈین ایکسپریس میں لکھا تھا کہ بی جے پی کو لگتا ہے کہ اس کے قدم سے کشمیر کا ‘بھارتیہ کرن’ ہوگا، مگر یہ وقت ہی بتائے گا کہ کہیں یہ قدم ہندوستان کے’کشمیر کرن’کرنے کا سبب تو نہیں بنے گا۔

ہندوستان کے باضمیر افراد کے لیے یہ ایک بڑا سوال ہے کہ مودی حکومت نے تو کشمیر میں قبرستان کی خاموشی طاری تو کر دی ہے، وہ کب اپنی خاموشی توڑ دیں گے یا اپنی باری کا انتظار کریں گے۔ اگر اب بھی نہ جاگے تو یادرکھیں، وہ جرمن پادری مارٹن نیومولر کی اس نظم کی عملی تفسیر بن جائیں گے؛

پہلے وہ آئے کمیونسٹوں کے لیے

اور  میں کچھ نہیں  بولا

کیونکہ میں کمیونسٹ نہیں تھا

پھر وہ آئےٹریڈ یونین والوں کے لیے

اور میں کچھ نہیں بولا

کیونکہ میں ٹرین یونینسٹ نہیں تھا

پھر وہ آئے یہودیوں کے لیے

اور میں کچھ نہیں بولا

کیونکہ میں یہودی نہیں تھا

پھر وہ میرے لیے آئے

 اور تب تک کوئی نہیں  بچا تھا

جو میرے لیے بولتا