خبریں

دہلی: فوج پر متنازعہ ٹوئٹ کے لیے ایل جی نے شہلا رشید کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری دی

اگست 2019 میں جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کی سابق رہنما شہلا رشید نے سلسلہ وار کئی ٹوئٹ کرکےہندوستانی فوج پر جموں و کشمیر میں لوگوں کو اٹھانے، چھاپے ماری کرنے اور لوگوں پرتشدد کرنے کے الزام لگائے تھے۔ اب اس کے لیے دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر نے ان کے خلاف سی آر پی سی کی دفعہ 196 کے تحت مقدمہ چلانے کی منظوری دی ہے۔

شہلا رشید، فوٹو: انسٹا گرام

شہلا رشید، فوٹو: انسٹا گرام

نئی دہلی: دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ نے ہندوستانی فوج کے بارے میں مبینہ طور پر متنازعہ ٹوئٹ کرنے کے سلسلے میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین (جے این یو ایس یو) کی سابق رہنما شہلا رشید کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دے دی ہے۔ حکام نے منگل کو یہ اطلاع دی۔

لیفٹیننٹ گورنر کے دفتر کے حکام کے مطابق، یہ اجازت شہلا کے خلاف 2019 میں درج کی گئی ایف آئی آر سے متعلق ہے۔ ایڈوکیٹ الکھ آلوک سریواستو کی شکایت پر نئی دہلی کے اسپیشل سیل پولیس اسٹیشن میں تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 153 اے کے تحت شہلا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ کوڈ آف کریمنل پروسیجر (سی آر پی سی) 1973 کی دفعہ 196 کے تحت مقدمے کی منظوری دی گئی ہے، جو اسٹیٹ کے خلاف جرائم کے لیے مقدمہ چلانے اور اور اس طرح کے جرائم کے ارتکاب کی مجرمانہ سازش سے متعلق ہے۔

لیفٹیننٹ گورنر کے دفتر نے کہا،سی آر پی سی کی دفعہ 196 (1) (اے) میں کہا گیا ہے کہ مرکزی یا ریاستی حکومت کی پیشگیمنظوری کےبغیر آئی پی سی کی دفعہ 153اےیا باب چھ کے تحت قابل سزا جرم کا کوئی بھی عدالت نوٹس نہیں لے گی۔

حکام نے کہا کہ جے این یو ایس یو کی سابق رہنما پر ا پنے ٹوئٹس کے ذریعےمختلف گروپوں کے درمیان بدامنی کو فروغ دینے اور ہم آہنگی کو خراب کرنے والی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔

لیفٹیننٹ گورنر کے دفتر نے کہا کہ قانونی چارہ جوئی کی منظوری کی تجویز دہلی پولیس نے پیش کی تھی اور دہلی حکومت کے محکمہ داخلہ نے اس کی حمایت کی تھی۔

 غور طلب ہے کہ 18 اگست 2019 کو شہلا رشید نے سلسلہ وار کئی ٹوئٹ کرکے ہندوستانی فوج پر جموں و کشمیر میں لوگوں کو اٹھانے، ان کے گھر پر چھاپےماری کرنے اور لوگوں پر ظلم کرنے کا الزام لگایا تھا، تاہم فوج نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئےانہیں خارج کر دیا گیا تھا۔

مقدمے کی منظوری کے لیے وزارت داخلہ کی جانب سے حمایت یافتہ دہلی پولیس کی تجویزمیں کہا گیا تھا کہ 18 اگست 2019 کو شہلا نے ٹوئٹ کیا تھا کہ ‘مسلح افواج گھروں میں گھس رہی ہیں، لڑکوں کو اٹھا رہی ہیں، گھروں میں توڑ پھوڑ کر رہی ہیں’، جان بوجھ کر راشن  فرش پرگرا رہی ہیں۔چاول میں تیل ملارہی ہیں۔

ایک اور ٹوئٹ میں انہوں نے کہا،  شوپیان میں چار لوگوں کو فوج کے کیمپ میں بلایا گیا اور پوچھ تاچھ کے نام پر ان پر ظلم و ستم کیا گیا۔ شہلا نے کہا کہ ان لوگوں کے پاس ایک مائیک رکھا گیا جس سے کہ پورا علاقہ ان کی چیخیں سنے اور ڈر جائے۔ اس سے پورے علاقے میں خوف کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔

محکمہ داخلہ نے پایا کہ ‘معاملے کی نوعیت، و ہ  مقام  جس کاٹوئٹ میں ذکر کیا گیا ہے اور فوج پر جھوٹا الزام لگانا، اسے ایک سنگین مسئلہ بناتا ہے’۔

تجویز میں کہا گیا کہ ،جموں و کشمیر میں مذہبی تفریق پیدا کرنے کے لیے شہلا کے ٹوئٹ کے خلاف کارروائی کی ضرورت تھی اور آئی پی سی کی دفعہ 153 اے کے تحت مقدمہ چلانے کے لیے معاملہ بنایا گیا تھا۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)