فکر و نظر

بھارت جوڑو یاترا میں نہ تو انتخابی نتیجہ تلاش کریں اور نہ ہی کانگریس کا احیاء

بھارت جوڑو یاترا ایک ایسی کوشش ہے،جس کے اثرات مستقبل قریب میں مرتب  ہوں گے یا  نہیں اور اگر مرتب ہوں گے  تو کس قدر، یہ  کہنا مشکل ہے۔اسے صرف انتخابی نتائج کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا غلط ہوگا۔ اس کی وجہ سے ملک میں بات چیت  کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے جو اب تک کے  نفرت، تشدد اور انسانیت میں دراڑ پیدا کرنے والے  ماحول کے برعکس ہے۔

کانگریس لیڈر راہل گاندھی ہریانہ میں بھارت جوڑو یاترا کے دوران ۔ (فوٹو بہ شکریہ: Facebook/@rahulgandhi)

کانگریس لیڈر راہل گاندھی ہریانہ میں بھارت جوڑو یاترا کے دوران ۔ (فوٹو بہ شکریہ: Facebook/@rahulgandhi)

راجستھان میں جب بھارت جوڑو یاترا نکلی میں اس میں شریک ہوئی ۔ جب سے یہ یاترا شروع ہوئی ہے، میں نے محسوس کیاہےکہ راہل گاندھی نے ملک کی نبض کو پہچان لیا ہے۔ کچھ اور لوگوں نے بھی شاید ایسا ہی محسوس کیا ہو، سو پورے  راستے بھیڑ سیلاب کی طرح امڈ رہی تھی۔

میری سمجھ میں اب تک ہوئی یاترا  کی دوحصولیابیاں ہیں۔ سب سے اہم تو  سیاست کو ایک اخلاقی وژن فراہم کرنا ، جس کی کمی گزشتہ چار دہائیوں سے محسوس کی جا رہی تھی۔ کیونکہ مذہب ایک خاص غیر اخلاقی تناظر میں مذہب بن کر رہ گیا  ہے، حالانکہ یہ ایک طویل عمل رہا ہے جس کی جڑیں ہماری نوآبادیاتی غلامی میں پیوست ہیں۔

دوسرا، یاترا کے رہنما نے ایک ایسے ماحول میں سننے اور سیکھنے کو اہمیت دی ہے جہاں قائدین کی عادت سنانے ، سکھانے، پروپیگنڈہ، اپنی رائے، خیالات، اپنے  اظہار کی ہی ہوکر رہ گئی  ہے۔ یہ دونوں نکات ڈیپ ڈیموکریسی یعنی گہری اور سنجیدہ جمہوریت کی علامت ہے، نئے اقدام کی امید۔ میرے دوستوں پرتاپ بھانو مہتہ اور سوہاس پالشیکر کے ساتھ میرا یہی اختلاف ہے کہ اس میں کوئی انتخابی نتیجہ تلاش نہ کریں  اور نہ ہی کانگریس کے احیاکا۔

اس کوشش کا مستقبل قریب میں اثر پڑے گا یا نہیں اور اگر پڑے گا تو کتنا، یہ کہنا مشکل ہے ۔ اس لیے اسے صرف انتخابی نتائج سے جوڑ کر دیکھنا  غلط ہے۔ اس کی وجہ سے ملک میں بات چیت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ہے جو اب تک کےنفرت، تشدد اور انسانیت میں دراڑ  پیدا کرنے والی بات کے برعکس ہے اور یہ ملک کے مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے۔

اخلاقی نقطہ نظر نیو انڈیا کے لیے خصوصی  طور پر اہم ہے کیونکہ ملک کے سیاسی کلچر  کی اتنی نچلی سطح پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ سماجی طور پر پہلے کبھی خاندانوں کے درمیان دشمنی ہوتی  تھی، ذاتوں اور فرقوں کے درمیان بھی اکثر جھگڑے ہوتے تھے، لیکن اتنی گہری دراڑ کبھی نہیں تھی۔

سال 2014 سے مسلمانوں کے خلاف کھل کر بولنا متوسط طبقے میں عام بات ہو گئی  ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک نیم افسانوی تاریخ  کی تخلیق کرنا  خواہ  حقائق  کچھ بھی ہوں۔دنیا بھر کے منفی رویوں سے بھرے وہاٹس ایپ پیغامات بھیجے جانے لگے ہیں۔

گئو رکشا کے نام پر کئی تنظیمیں پیدا ہوگئی ہیں، جنہوں نے خود ہی مقدمہ کرنا، فیصلہ  سنا نا، ساتھ ہی  سزا دینے کا کام بھی اپنے ہاتھوں میں  لے لیا ہے۔ اس کی وجہ سے تشدد اور قتل ،  جسے لنچنگ کہا جاتا ہے، اب عام بات ہوگئی ہے۔ راجستھان کے الور اور راجسمند اضلاع میں لنچنگ کے واقعات ہوئے، اتر پردیش میں کئی مقامات پر اور دہلی میں ٹرین  تک میں پرتشدد واقعات ہوئے۔

ہندو کہلانے والی تنظیموں کی جانب سے مذہب کی تبدیلی کو واپسی کہہ کر جائز بنایا گیا،  جبکہ دوسری طرف اقلیتوں کے خلاف متعدد ریاستوں کی جانب سے تبدیلی مذہب مخالف قوانین منظور کیے گئے۔ نئے سول قانون کا خاکہ،پارلیامنٹ میں اس پر بحث کیے بغیر، آرڈیننس کے ذریعے ملک  کے اوپرنافذ کرنے کی بات ہوئی ۔ اس کے نتیجے میں عام مسلمانوں میں یہ خوف پھیل گیا کہ جن کے پاس پختہ  کاغذات نہیں ہیں ان کی شہریت چھین لی جائے گی۔

زمین کے حوالے سے ایک بالکل نیا نظام بننا شروع ہو گیا ہے۔ پہلے کبھی  لائسنس راج  قائم تھا، اب ‘کانٹریکٹر راج’ کی خوب نمائش  لگی ہے۔ دہلی میں سینٹرل وسٹا، کوٹلہ مبارک پور اور بہت سے پرانے محلوں  کو برابر کرکے نئی عمارتیں تعمیر کی جانے لگیں۔ اس کو روکنے کے بجائے وزارت ماحولیات اپنے مفادات کے ساتھ اور بھی گہری سانٹھ  گانٹھ کرنے لگا–آدی واسی  علاقوں میں کان کنی کمپنیوں کا بول بالا  بےتحاشہ بڑھ گیا۔

جب طلبہ نے آواز اٹھائی، یونیورسٹیوں پر بہت سی پابندیاں لگا دی گئیں۔ سی اے اے کے خلاف مسلم خواتین کی تحریک – جو آئین کو مثالی بنا کر چل رہی تھی – کو دبا دیا گیا۔ کسان تحریک کے خلاف بھی یہی کوشش کی گئی لیکن  زمین کے نئے نظام کو نافذ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

الور میوات کے علاقے کا حصہ ہے۔یاترا کا روٹ الور سے گزرنے کے بارے میں  اطلاع ملتے ہی  بھارت جوڑو یاترا میں شریک ہونے کے بارے میں  سوچا تھا۔یاترا کی 21 دسمبر کی صبح ہمیں ملی۔ جس جگہ ہم یاترا کا انتظار کر رہے تھے، وہاں بہت سی لڑکیاں صبح سے ہی گاڑیوں کے پہیے چلا رہی تھیں۔

راہل گاندھی سے  جب ان کی بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ ضلع میں جمناسٹس کے لیے کوئی سہولت نہیں ہے۔ راہل گاندھی نے ان سے کہا، ‘یہ  ہیں آپ کے وزیر صحت ، ان کے سامنے اپنے مطالبات رکھیں اور ساتھ ہی مجھ سے وعدہ کیجیے کہ آپ میں سے  دو لڑکیاں عالمی معیار کی جمناسٹ بنیں گی۔’

میرے شوہر اروند مایارام کے لیے سوال تھا کہ رینٹ سیکنگ (عوامی پالیسی سے منافع حاصل کرنے کا رجحان)ریاست پر کیسے قابوکیا جائے۔ اس لیے انہوں نے راجستھان میں ایم ایس ایم ای کے لیے منظور کیے گئے قانون کے بارے میں ایک مثال دی، جس کے تحت کاروباریوں کو ریاست کے کسی بھی قانون میں کسی قسم کی حکومتی منظوری کی ضرورت نہیں ہے اور چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو بہت زیادہ منظوری لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

میوات میرا ریسرچ گراؤنڈ تھا – سوچا کہ راہل گاندھی سے  میوات کا صحیح تعارف کرانا چاہیے۔ خاص طور پر اس لیے کہ میوات ایک مثال ہے۔ آزادی سے پہلے میوات متحدہ ہندوستان کی مثال تھا۔ میواتی/میو پال پنچایتوں میں علاقائی ذاتیں شامل تھیں۔ 1920 کی دہائی میں یہاں کسان سبھائیں سرگرم تھیں جو ذات پات اور مذہب پر مبنی نہیں تھیں بلکہ بین ذات/ بین مذہبی تھیں۔

سال 1930 میں کسانوں کی ایک بہت بڑی تحریک نے الور اور بھرت پور کے بادشاہوں کے تخت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہاں کسان تحریک اور بائیں بازو کی تنظیموں کے درمیان کافی تال میل تھا۔ کنور محمد اشرف، ایک مؤرخ اور کانگریسی رہنما تھے جنہوں نے مسلم کمیونٹی کو متحد کرنے کی مہم کی قیادت کی تھی، جو محمد علی جناح کی مسلم لیگ کا ایک  متبادل تھا۔

اشرف اور چودھری عبدالحئی کا کہنا تھا کہ میوات آزاد ہندوستان کے لیے مضبوط بین مذہبی تعلقات اور اداروں کی علامت ہے۔ لیکن تقسیم کی سیاست نے ایک اور تاریخ رقم کرنی تھی۔

میوات کے الور اور بھرت پور ریاستوں میں قتل عام ہوا، ہزاروں مارے گئے، گاؤں جلا دیے گئے، میو خواتین کو اغوا کیا گیا۔ اس زمانے میں گہری دراڑیں پڑی تھیں،میولوگوں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی ہوئی، لیکن آزاد ہندوستان میں دوبارہ رابطہ بھی ہوا۔ فرقہ وارانہ فسادات کی اصل وجہ کیا ہے، راہل گاندھی کا مجھ سے یہی سوال تھا۔ میوات کی عصری سیاست میں ہم مفاہمت کیسے لا سکتے ہیں؟

سوالات مکالمے کی طرف لے جاتے ہیں اور یہی گہری جمہوریت کی علامت  ہیں، نہ کی  نمائندگی والی  جمہوریت۔

(شیل مایارام مؤرخ ہیں۔)