فکر و نظر

ہندوستان میں مسلمان یا عیسائی کے سیکولر ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ اکثریتی مطالبات کو تسلیم کرلے

 جسٹس ایس اے نذیر کی الوداعی تقریب میں سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیکولر ہیں۔ ان کے خیال میں جسٹس نذیرکے  سیکولر ہونے  کی وجہ یہ تھی کہ وہ بابری مسجد کے تنازعہ میں فیصلہ کرنے والی سپریم کورٹ کی بنچ کے واحد مسلمان رکن تھے، لیکن انھوں نےمندر بنانے کے لیے  مسجد کی زمین کو مسجد توڑنے والوں کے ہی سپرد کرنے  کے فیصلے پر دستخط کیا۔

بابری مسجد کیس کی سماعت کرنے والی سپریم کورٹ کی بنچ میں اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی (درمیان میں) (بائیں سے دائیں) جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس دھننجے وائی چندر چوڑ اور جسٹس ایس عبدالنذیر شامل تھے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

بابری مسجد کیس کی سماعت کرنے والی سپریم کورٹ کی بنچ میں اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گگوئی (درمیان میں) (بائیں سے دائیں) جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس دھننجے وائی چندر چوڑ اور جسٹس ایس عبدالنذیر شامل تھے۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

سپریم کورٹ کے جسٹس سید عبدالنذیر کی الوداعی تقریب میں چیف جسٹس آف انڈیا اور سپریم کورٹ کی بار کونسل کے صدر نے ان کی تعریف  میں جو کچھ کہا ، اس کوسنتے ہوئے اصغر علی انجینئر یادآ گئے۔

یہ آج سے 40 سال پہلے کی بات ہے۔ پٹنہ میں ہم ان کے اس مضمون پر چرچہ کرتے تھے، جس میں انہوں نے سمجھایا تھا کہ کس طرح فرقہ پرستی بڑے ہی لطیف انداز میں ہمارے ذہن میں رچی بسی ہے۔ جب ہم اپنے الفاظ، تاثرات، رد عمل پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان میں یا  تو واضح طور پر فرقہ واریت ہے یا بہت چھپے ہوئے انداز میں، جس کا ہمیں علم تک نہیں ہے۔

تب سے اب تک ہندوستان کی سڑکوں پر بہت خون بہہ چکا ہے۔ اب  اور بے شرم فرقہ واریت کا دور ہے، جسے آپ وضاحت کی خاطر اکثریت پسندی کہہ سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ بار کونسل کے سربراہ وکاس سنگھ کے بیان کو میڈیا میں اہمیت دی گئی۔ انہوں نے جسٹس نذیر کی تعریف کرنے کی وجہ بتائی  کہ وہ سیکولر ہیں۔ یہ قدرے حیرت اور خوشی کی بات ہے کہ ہندوستان میں سیکولر ہونا اب بھی ایک خوبی ہے جس کے لیے آپ کی تعریف کی  جا سکتی ہے۔ ورنہ ہم نے توفرض کر لیا تھا کہ 2019 کے بعد یہ لفظ عوامی بحث سے راندہ درگاہ کر دیا گیا ہے۔

بہر حال، 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں غیرمعمولی جیت کے بعد وزیر اعظم نے کہا ہی تھا کہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ کوئی بھی لفظ سیکولرازم کو اپنی زبان سےادا نہ کرپائے۔ جن کے وہ شاگرد تھے،اُن  ایل کے اڈوانی نے لفظ سیکولرازم کو اس وقت بدنام کیا جب انہوں نے سیکولر کے بجائے سیوڈو سیکولر کا لفظ استعمال کرنا شروع کیا۔ یہ کہنا ضروری ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے لوگوں نے بھی اسے پسند کیا۔

ان سب کے بعدبھی اگر کسی کی سیکولر کہہ کر اس کی تعریف کی جا رہی ہے (اور وہ بھی خود ساختہ بدنام زمانہ سیکولر لوگوں کی طرف سے نہیں، جن کا سرکاری نام ان دنوں اربن نکسل ہو گیا ہے) تو مان لینا چاہیے کہ اس  لفظ میں کچھ دم تو ہے!

البتہ! وکاس سنگھ جی نے جسٹس نذیر میں سیکولرازم کو اس لیے دریافت کیا کہ  وہ 2019 کے سپریم کورٹ کےایودھیا تنازعہ کا فیصلےدینے والی  بنچ کے واحد مسلمان رکن تھے، لیکن انہوں نے مسجد کی زمین رام مندر کی تعمیر کے لیےمسجد توڑنے  والوں کے ہی سپرد کرنے کے فیصلے پر دستخط کیے۔

اس میں ایک بات  پوشیدہ ہے کہ فطری طور پر جج نذیر کو مسجد کی زمین مندر کی تعمیر کے لیے دینے کے فیصلے کے خلاف جانا چاہیے تھا، کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے جیسا کہ خود وکاس سنگھ نےکہا، باقی ججوں کے لیے مسجد کی زمین مندر کی تعمیر کے لیے دینے کا فیصلہ فطری تھا، لیکن بالکل الٹی وجہ سے؟

جسٹس نذیر نے اپنے نام کے باوجود اس فیصلے پر دستخط کرکے اپنے سیکولرہونے  کا ثبوت دیا! باقی ججوں کو آپ کیا کہیں گے؟ کیا انہیں اپنی سیکولرازم ثابت نہیں کرنی تھی کیونکہ ہندو ہونے کی وجہ سےوہ  فطری طوریا قدرتی طور  پر سیکولر ہیں؟

کیوں جسٹس نذیر کی تعریف میں کوہ نور ہے ایودھیا فیصلے میں ان کا کردار ؟ اس بات کو ذراکھلے اور پھوہڑ انداز میں کہہ کر وکاس سنگھ نے ثابت کیا کہ اشرافیہ بھی سڑک چھاپ ہو چکا ہے اور اس کو لے کر ان میں کوئی جھجک   نہیں ہے۔ اس کے باوجود پرانی شرافت کہیں نہ کہیں بچ گئی ہے اور اس کی جھلک جسٹس چندر چوڑ کے بیان میں نظر آئی۔

اگر وکاس سنگھ چیف جسٹس کی طرح مہذب ہوتے تو وہ وہی کہتے جو جسٹس چندر چوڑ نے کہا۔ ان کے لیے بھی ایودھیا فیصلے میں جج نذیر کا کردار یادگار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایودھیا معاملے والی  بنچ میں ساتھ بیٹھنے پر انہیں احساس ہوا کہ جسٹس نذیر ‘اسٹیٹس مین’ ہیں۔

‘اسٹیٹس مین’ غیرجانبدار اور ہمہ جہت شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ وہ اتفاق رائے قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ عام سمجھ ‘اسٹیٹس مین’ کی ہے حالاں کہ ناقص ہے۔ ‘اسٹیٹس مین’ وہ ضرور ہے جو جانبداری کرتا ہوا نہیں دکھتا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ انصاف کے ساتھ بھی  کھڑانہیں ہوتا۔ وہ اکثریت کو خوش کرنے کی کوشش نہیں کرتا جیسا کہ عام سیاستدان یا دانشور کرتے ہیں۔

ایودھیا کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں ہندوستان اور ہندوستان سے باہر کے ماہرین کی واضح رائے ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے متفقہ طور پر ناانصافی کی۔ جج نذیر اس ناانصافی میں شامل تھے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ فیصلہ بطور جج ان کی زندگی میں ہمیشہ ایک دھبے کی طرح رہے گا۔ شاید وہ اپنے خاندان اور دوستوں کے درمیان کبھی اس کویاد نہ کرنا چاہیں۔

جسٹس نذیر نے باقی ججوں کے ساتھ مل کریہ کہا کہ یہ ثابت ہو چکاہے کہ بابری مسجد 500 سال سے زیادہ عرصے سے موجود تھی، وہ ایک زندہ مسجد تھی یعنی دسمبر 1949 تک وہاں نماز ادا کی جاتی تھی، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اس کی تعمیر کسی مندر کو گرا کر کی گئی تھی، 22-23 دسمبر 1949 کی درمیانی شب بابری مسجد میں چوری چوری ہندو دیوی –دیوتاؤں کی مورتیاں رکھ دی  گئیں، جو ایک جرم تھا، 6 دسمبر 1992 کو اسے  گرا دیا گیا اور یہ ایک جرم تھا۔

یہ سب کہنے کے بعد ججوں نے جو فیصلہ دیا وہ گویا یہ کہہ رہا تھا کہ حقائق تو مسجد کے حق میں ہیں لیکن چونکہ اس زمین پر ہندوؤں کا دل آ گیا ہے اس لیے بابری مسجد کی زمین رام مندر کی تعمیر کے لیے  دے دینی چاہیے۔

یہ واضح طور پر ایک اکثریتی فیصلہ تھا۔ یہ  ہندوؤں کے جذبات کو مطمئن  کرنے کے لیے اور ایک پرانے  تنازعہ پر پانی ڈالنے کے ‘عظیم’ مقصد کے ساتھ کیا گیا۔ ایسا کر کے سپریم کورٹ نے عدالتی بزدلی کا مظاہرہ کیا جسے ایک ‘سٹیٹس مین’ کی خوبی تو نہیں کہی جا سکتی۔ اس بزدلی کا مزید انکشاف اس بات سے ہوا کہ فیصلہ لکھنے والے کا نام تک نہیں تھا۔

جسٹس نذیر اس میں شامل تھے۔ بنچ میں ان کی موجودگی اور فیصلے پر ان کی حامی ان کو اکثریت پسندی کے الزام سے آزاد کرنے کے لیے بہت ضروری تھی۔ وکاس سنگھ اور چیف جسٹس چندر چوڑ کے ذریعےاس معاملے میں ان کے رول  کی خصوصی گفتگو یہ واضح کرتی ہے کہ اس میں کہیں نہ کہیں کوئی احساس جرم  ہے جس سے نجات کی کوشش  اس طرح کی جاتی ہے۔

یہ بھی کہ بابری مسجد ایک بھوت کی طرح سپریم کورٹ پر منڈلاتی رہے گی۔ اور جج نذیر یا چندرچوڑ شیکسپیئر کے کرداروں کی طرح بار بار ہاتھ دھوتے رہیں گے۔

ہندوستان میں مسلمان یا عیسائی کے سیکولر ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ اکثریتی مطالبات کو تسلیم کرلے۔ اس کے اسٹیٹس مین ہونے کی شرط  بھی یہی ہے۔ لیکن اس کے آگے جسٹس چندر چوڑ نے اس کا بھی خاص  طور پرذکر کیا کہ جسٹس نذیر کی تنوع  پسندی کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے سنسکرت سیکھی۔

یہ پڑھ کر مجھے عرصہ پہلے اصغر علی انجینئر کے فرقہ واریت کا تصور یاد آگیا، کچھ دن پہلے میں نے یہ جاننے کے لیے کہ میرے ریسرچ اسٹوڈنٹ کی رپورٹ آگئی ہے یا نہیں، متعلقہ اتھارٹی کو فون کیا۔ طالبہ کا نام سن کر انہوں نے پھر دو بارہ اس کا نام پوچھا اور مجھ سے پوچھا کہ آپ  شعبہ ہندی سے ہی بول رہے ہیں نا!

کیوں مسلمان کا ہندی یا سنسکرت پڑھنا کوئی استثنیٰ ہے یاواقعہ؟ یہ اتنی غیرفطری بات کیوں ہے کہ اس کا خصوصی طور پر ذکر ضروری ہو؟ جسٹس نذیر کی تعریف سنتے ہوئے میرے ذہن میں یہ سوال آیا۔ لیکن مجھے نہیں معلوم کہ وکاس سنگھ اور جسٹس چندرچوڑ کبھی سوچ پائیں گے کہ جس وجہ سے انہوں نے جسٹس نذیر کو سیکولریا اسٹیٹس مین کہا ہے وہ دراصل ان کی شخصیت کو روشن نہیں کرتا بلکہ داغدار کرتا ہے۔

یہ بھی کہ ، انہوں نے جو کہا اس سے جج نذیر کے بارے میں جو معلوم ہوا اس سے زیادہ  ان دونوں کے بارے میں۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)