خبریں

سدبھاونا کپ: فرقہ وارانہ جنون کے دور میں کھیل کے ذریعے نفرت ختم کرنے کی کوشش

پٹنہ کا سمر چیریٹیبل ٹرسٹ گزشتہ چار سالوں سے پنچایتی سطح پر ‘سدبھاونا کپ’ کے نام سے ایک کرکٹ ٹورنامنٹ کا اہتمام کر رہا ہے، جس میں حصہ لینے والی ٹیموں کے لیے پہلی شرط یہ  ہوتی ہے کہ اس کے کھلاڑی سماج کے ہر طبقے اور کمیونٹی  سے ہوں۔

سدبھاونا کپ اس سال نیورا میں منعقد ہوا۔ (تصاویر: سمر چیریٹیبل ٹرسٹ)

سدبھاونا کپ اس سال نیورا میں منعقد ہوا۔ (تصاویر: سمر چیریٹیبل ٹرسٹ)

راہل گاندھی کی ‘بھارت جوڑو یاترا’ پچھلے کچھ مہینوں سے موضوع بحث  ہے۔ اس کا ایک مقصد سماجی تفریق  اور نفرت کے خلاف لڑائی  کو تیز کرنا بھی ہے۔بہار کے ایک چھوٹے سے قصبے میں پچھلے 4 سالوں سے کرکٹ ٹورنامنٹ کے ذریعے اسی طرح کے مقصد کو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ٹورنامنٹ  کا نام ہے – سدبھاونا کپ۔

پٹنہ کے نوجوانوں کی تنظیم سمر چیریٹیبل ٹرسٹ کے ذریعے ضلع کے نیورا علاقے میں پنچایتی سطح پرمنعقد کیے جانے والے اس ٹورنامنٹ کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہ سماجی شراکت کی پچ پر کھیلا جاتا ہے۔ اس میں حصہ لینے والی ٹیموں کے لیے پہلی شرط یہ  ہوتی ہے کہ اس کے کھلاڑی سماج  کے ہر طبقے اور کمیونٹی سے ہوں۔

ٹینس بال سے ہونے والے اس ٹی – 10  ٹورنامنٹ یعنی 10-10 اوور کے ٹورنامنٹ میں کسی  ٹیم کے کل 15 کھلاڑیوں میں سے 2 کھلاڑی ایس سی –ایس ٹی ، 2 کھلاڑی اقلیت، 2 کھلاڑی اوبی سی اور 2 کھلاڑی جنرل سے شامل ہوں گے۔ اس اہم ترین شرط کو پورا کرنا نہ تو علاقائی ٹیموں کے لیےآسان رہا  اور نہ ہی منتظمین کے لیے۔ یہ کتنا مشکل تھا یا اب بھی ہے، یہ جاننے سے پہلے سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے ٹورنامنٹ  کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔

اس ٹورنامنٹ کا خیال سب سے پہلے سمر چیریٹیبل ٹرسٹ کے سکریٹری سرفراز احمد کے ذہن میں آیا۔ وہ بتاتے ہیں، 2019 کے عام انتخابات میں جیت کے بعد جس طرح سے بی جے پی حکومت نے اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو لاگو کرنا شروع کیا،  توہم نے محسوس کیا کہ معاشرے میں ہم آہنگی کوفروغ دینے  اوراس کے تحفظ  کے لیے نوجوانوں کے ساتھ براہ راست بات چیت کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد ہم نے سمر کے اندر اور باہر غوروخوض کیا اور پھر طے ہوا کہ یہ مکالمہ کسی تخلیقی سرگرمی کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔ اور آخر کار اس کے لیے کرکٹ ٹورنامنٹ کا انتخاب کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا، تمام مذاہب اور ذاتوں کے نوجوانوں کو ایک ٹیم میں متحد کرنے کا مقصد یہ  تھا کہ ان کے درمیان الگ الگ کمیونٹی کے لیے جو تضاد اور نفرت  ہے اس کو ختم کیا جائے ۔ ساتھ ہی اس تصور کو ختم کرنا تھا کہ  ہندوستان جتنا ہندوؤں کا ہے اتنا مسلمانوں کا نہیں ہے۔ یہ طے ہوا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مختلف طبقوں کے نوجوان  جب ایک جگہ مل بیٹھ کر بات چیت کریں گے، ایک دوسرے کے گھر آنا جانا کریں گے،  ایک دوسرے کے ساتھ کھانا کھائیں گےتب نفرت کی یہ دیوار گرے گی۔

سماجی شرکت کو یقینی بنانا سب سے بڑا چیلنج

منتظمین کے مطابق، ٹورنامنٹ کے لیے  سب سے بڑا چیلنج ہر ٹیم کے لیے اقلیتی برادری کے کھلاڑیوں کو تلاش کرنا تھا کیونکہ علاقے کی اکثریتی ہندو آبادی کا ان سے کوئی رابطہ  ہی نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہی منتظمین نے یہ بھی بتایا کہ دلت برادری کے بارے میں علاقے کے بڑے طبقے کی سمجھ یہ تھی کہ اس برادری کے لوگ کرکٹ اچھی طرح کھیلنا نہیں جانتے۔

سال2020 کے پہلے ٹورنامنٹ میں اس چیلنج پر بڑی مشکل سے قابو پایا گیا۔ ریزرو کھلاڑیوں کی کل تعداد 8 سے کم کر کے 4 کر دی گئی۔ حصہ لینے والی ٹیموں نے منتظمین کے اصرار پر اور ایک طرح سے زبردستی اپنی اپنی ٹیموں میں تمام کمیونٹی کے کھلاڑیوں کو شامل کیا۔ اس شرط کو پورا کرنے کے لیے منتظمین نے کچھ ٹیموں کو کھلاڑی  چن چن کر دیےتو ایک دو ٹیموں نے اپنے کھلاڑیوں کے بارے میں غلط جانکاری  دے کر حصہ لیا۔

لیکن تقریباً چار سال کی محنت کے بعد علاقے کے لوگ اس خیال، اس کی ضرورت کو سمجھ رہے ہیں، حالانکہ اس کو اور  جامع بنانے کی ضرورت ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سمر ٹرسٹ علاقے میں لائبریری قائم کرنے اور درخت لگانے کا کام بھی کرتا ہے۔ اس سال کےٹورنامنٹ میں کل  13 ٹیموں نے دلچسپی ظاہر کی اور 5 ایسی ٹیموں کو ہٹانا  پڑا جو ضروری شرط پوری نہیں کر رہی تھیں۔

اس سال یہ ٹورنامنٹ 7 سے 13 جنوری کے درمیان  منعقد کیا گیا۔ اس بار انشل کرکٹ اکیڈمی کی ٹیم فاتح رہی اور ملکی پور کی ٹیم رنر اپ رہی۔

4th-SADBHAWNA-Cup-2023-1-1536x864

ملکی پور گاؤں کے رام پرویش رائے اس ٹورنامنٹ کے ذریعے اس قصبے میں آنے والی تبدیلیوں  کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں،’شروع میں گاؤں  اور سماج میں اس ٹورنامنٹ کو لے کر کافی بحث تھی۔ پہلے لوگوں کو لگا کہ ہم ذات پات کو بھڑکا رہے ہیں، سماج کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم پر فنڈز کے غلط استعمال کا الزام بھی لگایا گیا۔ لیکن جب ہم نے گھوم گھوم کرسمجھایا توبات بنی۔

انہوں نے مزید کہا، ‘لوگ اب ہمارے مقصد کو سمجھ رہے ہیں اور پنچایتی سطح سے آگے بڑھ کر اس پیغام کو پھیلانے کے لیے بلاک سطح کے پروگرام منعقد کرانا چاہتے ہیں۔ نوجوان اب بات چیت کر رہے ہیں، تخلیقی چیزوں کی طرف ان کا رجحان بڑھ رہا ہے۔

راجدھانی  پٹنہ میں ابھی تک نہیں ملی  کامیابی

تین سالوں  کے  کامیاب ٹورنامنٹ کے بعد منتظمین نے محسوس کیا کہ محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینے والے اس ٹورنامنٹ کا انعقاد دراجدھانی  پٹنہ میں بھی ہونا چاہیے۔ ان کی سوچ یہ تھی کہ کسی بڑے شہر میں بڑے پیمانے پر تقریب منعقد کرکے اس مقصد کو میڈیا کے ذریعے عام لوگوں اور بڑی آبادی میں پھیلایا جائے گا۔

اس سلسلے  میں گزشتہ سال اگست سے کوششیں بھی شروع ہوئی تھیں،لیکن اب تک کوئی کامیابی نہیں ملی۔ سمر کے ایگزیکٹیو ہیڈ ذوہیب اجمل نے کہا، پٹنہ میں ٹورنامنٹ  کے لیے نیورا کے مقابلے  زیادہ مالی وسائل کی ضرورت ہے۔ ان پیسوں کا انتظام تو  عوامی تعاون سے کیا جا سکتا تھا، لیکن پٹنہ میں تمام سماجی طبقوں کی نمائندگی والی ٹیم کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، ‘نیورا میں ہم نے گاؤں–گاؤں سے رابطہ کرکے اور لوگوں سے بات چیت کرکے ٹیم بنائی۔ جبکہ پٹنہ میں ہم نے یہاں کی کرکٹ اکیڈمیوں سے رابطہ کیا۔ انہیں عام طور پریہ خیال پسند نہیں آیا اور انہوں نے ہماری سب سے اہم شرط کو امتیازی سلوک کو  بڑھانے والا قرار دیا۔ کچھ اکیڈمیوں نے بات چیت کے بعد  ہمارے خیال کو سمجھا بھی تو ان کے پاس تمام کمیونٹی  کے کھلاڑی نہیں تھے۔

ذوہیب اور ان کی ٹیم مایوس ضرور ہوئی ہے، لیکن ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے ہیں۔ وہ اس سال کے نیورا ایونٹ کے بعد پھر سے پٹنہ میں ٹورنامنٹ کے لیے کوشش شروع کریں گے۔ اور اگر ضرورت پڑی تو اوپن ٹرائل کے ذریعے کھلاڑیوں کا انتخاب کریں گے اور جذبہ خیرسگالی کے فروغ  کے لیے ٹیم بنائیں گے۔

منیش شانڈلیہ آزاد صحافی ہیں۔