فکر و نظر

بہار: ذات پر مبنی مردم شماری ایک جرأت مندانہ قدم ہے، جس کے اثرات ریاست سے باہر بھی نظر آئیں گے

وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو کا ریاست میں ذات پر مبنی  مردم شماری کرانے کا فیصلہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے پیش نظر قومی سیاست کو بڑے پیمانے پر متاثر کرنے کا مادہ  رکھتا ہے۔

بہارسرکار کے ایک پروگرام میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو۔ (تصویربہ شکریہ: Facebook/@tejashwiyadav)

بہارسرکار کے ایک پروگرام میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار اور نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو۔ (تصویربہ شکریہ: Facebook/@tejashwiyadav)

نئی دہلی: پچھلے کچھ سالوں سےذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ لگاتار زور پکڑتا  رہا ہے۔ منڈل پارٹیاں اس مہم میں پہلی صف میں  ہیں اور انہوں نے اکثر او بی سی، ایس سی – ایس ٹی کمیونٹی کے درمیان بھارتیہ جنتا پارٹی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کا مقابلہ کرنے کی کوشش ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کو مضبوطی سے اٹھا کر کی ہے۔

ان کا استدلال ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری کے ذریعے مختلف طبقات  کی سائنسی گنتی سے نہ صرف حکومتوں کو سماجی انصاف کے اپنے وعدے کو نئی شکل دینے میں مدد ملے گی، بلکہ اس سے ترقیاتی اہداف کا دائرہ بھی وسیع ہوگا۔ اس کے علاوہ، یہ بالآخرمعقول نمائندگی سے محروم طبقات  کی مرکزی دھارے کی معیشت اور سیاست میں زیادہ سے زیادہ  شرکت کی راہ  کوہموار کرے گا۔

لیکن اس مطالبے کے پیچھے کا حساب اس سے کہیں زیادہ ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ذات پر مبنی پہچان  کی سیاست (آئیڈنٹٹی پالیٹکس)  کی پریکٹس  کو از سر نووضع  کرنے کے لیے ایک طاقتور سیاسی اوزارثابت سکتا ہے۔

نوے  کی دہائی میں شمالی ہندوستان میں منڈل پارٹیاں سیاسی محاذ پر اپنی دعویداری پیش کر رہی او بی سی برادریوں کی حمایت سے ایک سیاسی طاقت بن کر نمایاں ہوئیں۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد جب بی جے پی ملک کی مرکزی طاقت بن کر ابھرتی ہوئی نظر آرہی تھی تب سماجی انصاف کی بات کرنے والی پارٹی کے طور پر ان کے عروج نے  بی جے پی کے رتھ کو روکنے کا کام کیا۔

منڈل- کمنڈل کی مقابلہ آرائی نے او بی سی کی قیادت والی علاقائی جماعتوں کی جانب سے چلائے جا رہے سماجی انصاف کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ او بی سی اور دلتوں کی صف بندی زیادہ تر سیاسی جماعتوں کے لیے ایک بنا  بنایا  فارمولہ بن گیا۔بی جے پی کے  ہندوتوا کےبرعکس سماجی انصاف کو سامنے رکھنے کی وجہ سے بہار اور اتر پردیش جیسی ریاستوں میں کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتیں سکڑتی چلی گئیں۔

تاہم، نریندر مودی کی قیادت  والی بی جے پی نے ان طبقات–بالخصوص او بی سی اور دلتوں –جن کی طرف  روایتی منڈل پارٹیوں نے کم توجہ دی تھی، میں دراندازی کرنے کے لیے اپنے ہندوتوا کو نئی شکل دی۔ بی جے پی عددی طور پر کمزور او بی سی برادریوں کے اندراس مستحکم ہو رہے تاثر کا فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہی کہ سماج وادی پارٹی اور راشٹریہ جنتا دل جیسی پارٹیاں دبنگ یادووں کی نمائندگی والی یادووں کی پارٹی ہیں، یا چھوٹے دلت گروپوں کے اندر کےاس تاثر کا استحصال کر سکیں کہ کہ بہوجن سماج پارٹی نے صرف جاٹوں کو فائدہ پہنچایا ہے۔

بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں نتیش کمار نے بھی بہار میں لالو یادو کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے اسی طرح سے غیر یادو  او بی سی گروپوں  کی صف بندی کرکےاور دلت پارٹیوں کو اپنے گٹھ بندھن میں شامل کرنے کا کام کیا تھا۔  بی جے پی نے ہندو راشٹر واد(قوم پرستی) کا زبردست تڑ کا لگاکر اس حکمت عملی کوآگے بڑھایا۔

اس پس منظر میں دیکھیں تو منڈل جماعتوں کی طرف سےذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ اس حقیقت کا واضح اعتراف ہے کہ وہ ایک ذات کی  پارٹی کی امیج میں محدود کیے جانے کے دور کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ نیز یہ کہ بی جے پی کا مقابلہ کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ  ذاتوں کو اپنی چھتری میں لا کر اپنی اپیل کو بڑھانا اور بی جے پی کے ہندوتوا کے خلاف – جو کہ اگرچہ وہ پسماندہ طبقات کو جگہ دیتی ہے، لیکن ان کے ساتھ ‘انصاف’ نہیں کرتی ہے –  ذات پر مبنی سماجی انصاف کے نعرے بلند کرنا ہے۔

لیکن یہ سمجھناصحیح نہیں ہوگا کہ ذات پر مبنی مردم شماری کے مطالبے کے پیچھے صرف بی جے پی کی ہندوتوا سیاست ہے۔

پچھلی دہائی میں ہندی بیلٹ میں ابھرنے والی پارٹیوں نے پہلی بار یہ مطالبہ اس سمجھ کے ساتھ کیا  اور اس کو پختہ صورت دی کہ روایتی منڈل پارٹیاں صرف دبنگ اوبی سی کمیونٹی کے مفادات کا خیال رکھتی ہیں۔ ان کا یہ بھی ماننا تھا کہ او بی سی اور دلت گروپوں میں سے صرف  خاطر خواہ سیاسی نمائندگی والی  کمیونٹی نے ریاست کے فلاحی پروگراموں کا اکثر حصہ اپنے قبضے میں کر لیا ہے اور ریزرویشن کی اکثر ملائی وہ   کھاگئے ہیں۔

سنجے نشاد کی نشاد پارٹی، اوم پرکاش راج بھر کی سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی، کرمیوں کی نمائندگی کرنے والااپنا دل یا حتیٰ  کہ محمد ایوب کی پیس پارٹی آف انڈیا (جو بنیادی طور پر اتر پردیش میں انصاریوں اور پسماندہ طبقات کی نمائندگی کرتی ہے) یابہار میں  ملاح  رہنما مکیش سہنی کی وکاس شیل انسان پارٹی وغیرہ ایک گروپ کےحقوق کا دعویٰ کرنے کے لیے سماجی انصاف کے روایتی علمبرداروں  سے ٹوٹ کر  وجود میں آئی ہیں۔

پچھلی ایک دہائی میں شمالی ہندوستان میں لوہیا کے نظریے پر مبنی سوشلزم یا امبیڈکے نظریے والی  سیاست پرمشتمل کئی دوسری واحد ذات پر مبنی پارٹیاں ابھری ہیں۔ یہ تمام پارٹیاں ریزرویشن کے ساتھ ساتھ سیاست میں اپنی کاسٹ گروپ کی آبادی (اندازے پر مبنی) کی بنیاد پرنمائندگی چاہتی ہیں، جو کہ دلت لیڈر کانشی رام کے مشہور نعرے ‘جس کی جتنی سنکھیا بھاری، اتنی اس کی حصہ داری ‘ کی سیاسی توسیع ہے۔

ان میں سے کچھ جماعتیں کرشمائی لیڈروں کی بدولت  کامیاب ہوئی ہیں، کچھ کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ او بی سی اور دلت گروپوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جانے نے ایک سیاسی رجحان کی شکل اختیار کر لی ہے۔

او بی سی سیاست کی اس تقسیم نے بھاری وسائل سے مالا مال بی جے پی کو ان میں سے بہت سے گروہوں کو اکٹھا کرنے کا موقع فراہم کیا، جو ہندوتوا  کی چھتری تلے اپنی سیاسی موجودگی درج کرانا چاہتے تھے۔ روایتی او بی سی پارٹیاں محسوس کرتی ہیں کہ ذات پر مبنی مردم شماری سے انہیں تمام اوبی سی  جماعتوں کو متحد کرنے کا موقع ملے گا اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ایک بار پھر سماجی انصاف کے ایجنڈے کو تقویت ملے گی۔

درحقیقت،ذات پر مبنی مردم شماری پر بی جے پی کے دوہرے بول نے اس معاملے کو زور وشورسے اٹھانے میں منڈل پارٹیوں کی مدد کی ہے۔ اگرچہ بی جے پی نئی حاصل شدہ او بی سی حمایت کی مدد سے اقتدار میں آئی، لیکن اس نے سماجی انصاف کے مسئلے سے خود کو دور رکھا، جو  کہ او بی سی کمیونٹی  کی سیاسی تربیت  کا  حصہ رہا ہے۔

جہاں بی جے پی نے سیاسی تقریروں میں ذات پر مبنی مردم شماری کے خیال کی حمایت کی، وہیں درحقیقت اس نے سپریم کورٹ میں اس کے نفاذ کی سرکاری طور پر مخالفت کی۔ ستمبر 2021 میں مرکزی حکومت نے دلیل دی کہ ذات پر مبنی مردم شماری انتظامی طور پر ممکن نہیں ہے اور عدلیہ حکومت کو اس پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت نہیں دے سکی، کیونکہ ذات پر مبنی مردم شماری کرانا  پوری طرح سے ایگزیکٹو کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

اس کے بعد، آدتیہ ناتھ کی قیادت والی  اتر پردیش کی بی جے پی حکومت نے اپنی پہلی مدت کار میں ذات پر مبنی مردم شماری کے سوال پر، جس کے تحت کاسٹ گروپوں کی مفصل مردم شماری  کی جانی تھی، اپنے او بی سی اتحادیوں کے دباؤ کے سامنے جھک گئی۔ اس نے سماجی انصاف کی کمیٹی کی  ایک رپورٹ پیش کی جس میں او بی سی کی فہرست میں زیادہ  کاسٹ گروپوں کو شامل کرنے کی سفارش کی گئی تھی، لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔

اوم پرکاش راج بھر جیسے اتحادیوں نے حکمراں بی جے پی سے تعلقات منقطع کر لیے اور رپورٹ کے عدم نفاذ کو بی جے پی کی طرف سے اعلیٰ ذات کے ووٹ بینک کو خوش رکھنے کے لیے پسماندہ گروہوں کے ساتھ دھوکہ دہی قرار دیا۔

اقتصادی طور پر کمزور طبقات (ای ڈبلیو ایس ) کے لیے 10 فیصد ریزرویشن،جس میں صرف اعلیٰ ذاتوں کو کوٹہ دیا جاتا ہے، کو لاگو کرنے کے مرکزی حکومت کے فیصلے نے شہد کی مکھیوں کے چھتے میں ہاتھ دے دیا  اور اس نے منڈل پارٹیوں کو ایک بار پھر سے  ذات پر مبنی مردم شماری کے اپنے مطالبے کو از سر نو اٹھانے کا موقع دے دیا۔

ای ڈبلیو ایس  ریزرویشن کو صحیح ٹھہرانے  والے سپریم کورٹ کے فیصلے نے پہلے کے کئی دیگر فیصلوں میں سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی 50 فیصد کی ریزرویشن کی حد کو توڑ دیا۔ اس سے منڈل پارٹیوں کو ذات پر مبنی مردم شماری کے نفاذ کے اپنے مطالبے کو زندہ کرنے میں مدد ملی۔

دی وائر سے بات کرتے ہوئے آر جے ڈی کے راجیہ سبھاایم پی  منوج کمار جھا نے کہا، تاریخی طور پر دیکھا جائے تو آخری بار ذات  پر مبنی مردم شماری 1931 میں ہوئی تھی، جس میں جدید پاکستان اور بنگلہ دیش بھی شامل تھے۔ منڈل کمیشن نے 3743 کاسٹ گروپوں  کی گنتی کی اور اندازہ لگایا کہ ہندوستان کی 52 فیصد آبادی او بی سی گروپوں سے آتی ہے۔ ریزرویشن پر سپریم کورٹ کی حد کا مطلب یہ تھا کہ او بی سی کی 52 فیصد آبادی کو صرف 27 فیصد کوٹہ مل سکتا تھا۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے خودای ڈبلیو ایس  ریزرویشن کو برقرار رکھتے ہوئے اس حد کو توڑ دیا ہے، تو ایسے میں  ذات  پر منبی مردم شماری کا  ہمارا مطالبہ جائز ہے۔

انہوں نے کہا، حقیقت یہ ہے کہ آج بھی آپ کے پاس آبادی میں کاسٹ  کی تعداد کے حوالے سے کوئی سائنسی ڈیٹا نہیں ہے۔ ذات کے بارے میں سنائی دینے  والے تمام اعداد و شمار اندازے ہی  ہیں۔ اچھی حکمرانی اور جامع ترقی کے لیےذات پر مبنی مردم شماری ضروری ہے۔ اس سے آپ کو سماجی انصاف کی اسکیم کی نگرانی کرنے اور ریزرویشن کا دائرہ بڑھانے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریزرویشن کی بنیاد میں  ہمیشہ ہندوستانی عوام کی متناسب نمائندگی کا جذبہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ای ڈبلیو ایس ریزرویشن تمل ناڈو اور آندھرا پردیش اور دوسری ریاستوں میں بھی میں اعلیٰ ذاتوں کے لیے 10 فیصد ریزرویشن کو یقینی بنائے گا، جہاں ان کی آبادی 10 فیصد سے کافی  کم ہے۔انہوں نے کہا، ای ڈبلیو ایس  کوٹہ انہیں (اعلی ذات کے گروہوں کو) غیر متناسب فائدہ پہنچائے  گا۔

انہوں نے مزید کہا، یہی وجہ ہے کہ ہم سائنسی طریقے سے ذات پر مبنی مردم شماری کے واضح اعداد و شمار چاہتے ہیں۔ ذات پر مبنی مردم شماری ہی ہماری جمہوریت کی جڑیں صحیح معنوں میں گہری کر سکتی ہے۔

سال 2011 میں دس سالہ مردم شماری کے بعد ذات پر مبنی مردم شماری (سماجی و اقتصادی حوالے سےذات کی مردم شماری) کرائی گئی تھی، لیکن اس کا ڈیٹا کبھی جاری نہیں کیا گیا۔ جب نتیش کمار نےذات پر مبنی مردم شماری کا آغاز کیا تب انہوں نے واضح کیا کہ ان کی حکومت کا ارادہ صاف ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری طبقات کے درمیان غربت کی سطح کی صحیح تصویر پیش کرے گی اور ‘یہ ان کے اور ان کے رہائشی علاقوں کے لیےمنصوبہ بندی  کرنے میں مدد کرے گی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بہار میں بی جے پی نے مرکزی حکومت کے غیر واضح  رویے کے باوجودذات پر مبنی مردم شماری کرانے کے لیے نتیش کمار کی حمایت کی ہے۔

پٹنہ میں مقیم سینئر صحافی چندن کا ماننا ہے کہ ذات پر مبنی مردم شماری منڈل جماعتوں  کے لیےبھی ایک جوا ہے اوردبنگ اوبی سی  برادریوں پر یہ داؤ درحقیقت الٹا بھی پڑ سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں،یوں تو آر جے ڈی اور جنتا دل (یونائیٹڈ) جیسی پارٹیاں سماجی انصاف کا ایک زیادہ جامع بیانیہ تیار کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہیں۔ لیکن اگر اسے حقیقت میں لاگو کیا جاتا ہےتو ایک بڑے کاسٹ  گروپ (آر جے ڈی یادوں کے ذریعے، جے ڈی (یو) کرمیوں کے ذریعے) کی قیادت والی ان پارٹیوں کو اقتدار میں اپنا حصہ چھوڑنا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بہار میں او بی سی گروپوں میں سے صرف چار کاسٹ گروپ – یادو، کرمی، ویشوا اور کشواہا کو معقول  نمائندگی حاصل ہے اور بی جے پی نے ان کی بالادستی کا احساس کرتے ہوئےنمائندگی کے معاملے میں پچھڑے نونیا اور کلوار برادری کے اراکین – رینو دیوی اور تارکشور پرساد کو 2020 کے اسمبلی انتخابات کے بعد نائب وزیر اعلیٰ بنایا تھا۔

چندن نے کہا، ذات پر مبنی مردم شماری ایک پیچیدہ اعداد و شمار پیش کر سکتی ہے اور اگر اسے صحیح طریقے سے لاگو کیا جاتا ہے تو، منڈل پارٹیاں مختلف او بی سی اور دلت برادریوں کے اندر سے نئی حمایت حاصل کر سکتی ہیں، لیکن ساتھ ہی ان کے اپنے کلیدی سپورٹ بیس کو کھونے کا خطرہ بھی ہوگا۔

ذات پر مبنی  مردم شماری پر بحث خواہ کتنی بھی پیچیدہ کیوں نہ ہو، لیکن اس کے لیے دباؤ بنا کر منڈل پارٹیاں یقینی طور پراپنے اوپر لگے ذات پر مبنی پارٹی ہونے کا داغ مٹانے اور حاشیے پر کھڑے طبقات کے لیے تشویش کا ماحول بنانے کی کوشش ضرور کی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا بھارتیہ جنتا پارٹی، جو پچھلے کچھ سالوں میں او بی سی اور دلت گروپوں کے اندر نئی سیاسی کروٹ  کا سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہی ہے، اس چیلنج کو قبول کرے گی اورذات پر مبنی ایک  ملک گیرمردم شماری کرائے گی۔

(اس  رپورٹ انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)