خبریں

ہندو دھرم  کے نام پر ہندوتوا کا نظریہ لوگوں پرتھوپا جا رہا ہے: ملیکا سارا بھائی

تیسرے اعلیٰ ترین شہری اعزاز پدم بھوشن سے سرفراز مشہور کلاسیکی رقاصہ اور کارکن ملیکا سارا بھائی نے کولکاتہ لٹریچر فیسٹیول کے اختتام پر کہا کہ کولکاتہ آکر مختلف مذاہب کے لوگوں کو ایک ساتھ رہتے ہوئے دیکھ کر بہت اچھ لگ رہا ہے۔ مجھے گجرات میں، احمد آباد میں یہ نظر نہیں آتا۔

ملیکا سارا بھائی۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

ملیکا سارا بھائی۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: مشہور کلاسیکی رقاصہ اور کارکن ملیکا سارا بھائی نے اتوار کو ملک میں ‘قدروں کی مکمل تباہی’ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ہندو دھرم  کے نام پر لوگوں پر ‘ہندوتوا’ کا نظریہ مسلط کیا جا رہا ہے۔

تیسرے اعلیٰ ترین شہری اعزاز پدم بھوشن سےسرفراز 68 سالہ سارا بھائی نے کولکاتہ میں اے پی جے کولکاتہ لٹریچر فیسٹیول کے اختتام پر اپنی کی زندگی، کیریئر اور رقص کی دنیا میں سفر پر مشتمل ایک سیشن میں کہا کہ ہندو مذہب درحقیقت سوال پوچھنے کے بارے  میں ہے۔

انہوں نے کہا، آج میں اپنے ارد گرد جو کچھ  دیکھ رہی ہوں وہ مجھے پوری طرح پریشان کر رہی ہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہندوستان میں ہمارے آدرشوں کی مکمل تباہی ہوگی اور اشتہارات اور برانڈ سازی کی چکاچوند میں اتنے سارے لوگ اندھے ہو جائیں گے۔

سارا بھائی نے کہا، ‘کولکاتہ آنا اور مختلف مذاہب کے لوگوں کو ایک ساتھ رہتے ہوئے دیکھنا خوشگوارہے۔ مجھے یہ گجرات میں، احمد آباد میں نظر نہیں آتا۔

سارا بھائی نے دعویٰ کیا کہ ان کے بہت سے دوست جیل میں ہیں اور سوال پوچھنے پر مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ وہ کچھ کارکنوں کی حالیہ گرفتاری کا حوالہ دے رہی تھیں۔

سارا بھائی نے کہا، ہندو دھرم سوال پوچھنے کے بارے میں ہے، جیسا کہ ہمارے صحیفوں میں بتایا گیا ہے، لیکن بدقسمتی سے ہندو مت کے نام پر ہمیں ہندوتوا کا گیان دیا جاتا ہے اور اسے لوگوں پر تھوپا جاتا ہے۔

رقاصہ نے 1980 کی دہائی میں پیٹر بروک کے ڈرامے ‘دی مہابھارت’ میں دروپدی کا کردار ادا کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بنگال ان چند ریاستوں میں سے ایک ہے جہاں معاشرے میں اب بھی تکثیریت  موجود ہے۔

انہوں نے کہا، ‘کولکاتہ نے ہمیشہ مجھے دنیا کے کسی بھی حصے سے زیادہ پیار دیا ہے۔’

ان کے تبصروں پرردعمل ظاہر کرتے ہوئے بی جے پی رہنما روپا گانگولی نے کہا کہ ہندو مذہب کوئی مذہب نہیں ہے، بلکہ زندگی جینے کا ایک طریقہ ہے جو فطرت سے وابستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘ہندوتو’ ایک ہندی لفظ ہے اور ‘ہندو ازم’ (ہندو دھرم) ایک انگریزی لفظ ہے جسے عالمی سطح پر جانا جاتا ہے۔ راجیہ سبھا کی سابق رکن گانگولی نے کہا کہ دونوں کے مفہوم میں صرف یہی فرق ہے۔

گانگولی نے کہا،الگ تھلگ کرنے سے متعلق تبصروں کے بارے میں، کیا میں ان (سارا بھائی) سے گجرات کی آبادی کا چارٹ اور ہندوستان کے تمام حصوں (کے چارٹ) کودیکھنے کے لیے کہوں۔ چونکہ انہوں نے خاص طور پر گجرات کا ذکر کیا ہے، میں ان سے پوچھوں گی کہ وہاں ہیرے تراشنے کے کام میں لگے کتنے لوگ رہتے ہیں؟

انہوں نے کہا، ‘ان میں سے بہت سے لوگ مغربی بنگال کے ڈومجور سے ہیں اور وہ سورت میں سکون سے رہ رہے ہیں۔ انہوں نے جو کہا وہ بے معنی ہے۔

سوال پوچھنے کے لیے اپنے کئی  دوستوں کے جیل میں ہونے کے بارے میں سارا بھائی کے تبصرے پر گانگولی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے خود مغربی بنگال حکومت کے خلاف سوال اٹھانے پر میڈیا ٹرائل کا سامنا کیا ہے۔

بی جے پی لیڈر نے کہا، ‘میڈم، بات کرنے سے پہلے یہ جان لیں کہ بنگال میں خواتین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور مظالم کے کتنے کیس درج نہیں ہوئے ہیں۔ میں اتنی بڑی شخصیت سے یہ امید توکروں گی ہی۔