فکر و نظر

نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ کے حالیہ تبصروں کے پس پردہ مقاصد کیا ہیں؟

نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ نے کیسوانند بھارتی کیس کے فیصلے کے قانونی جواز پر سوال اٹھایا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ پارلیامنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا خودمختار حق ہونا چاہیے، چاہے یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اصولوں کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ ہو۔

نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ۔ (تصویر: پی ٹی آئی/سنسد ٹی وی)

نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ۔ (تصویر: پی ٹی آئی/سنسد ٹی وی)

کیسوانند بھارتی کیس میں 1973 میں ایک تاریخ ساز فیصلہ آیا، جس نے ہماری جمہوریت اور آئین کے بنیادی ڈھانچے کو مستحکم کیا۔ دراصل کاسرگوڈ میں ایک مٹھ کے سربراہ کیسوانند بھارتی نے کیرالہ لینڈ رفارمز ایکٹ کو چیلنج کیا تھااور اس اصول  کو خوش  اسلوبی سے قائم  کیا تھاکہ سپریم کورٹ آئین کے بنیادی ڈھانچے کی محافظ ہے۔

اس فیصلے میں سپریم کورٹ میں بیٹھنے والے 13 ججوں کی اب تک کی سب سے بڑی بنچ شامل تھی۔ یہ کیس اس کے اس فیصلے کے باعث اہم ہے کہ اس نے یہ ثابت کیا کہ آئین میں ترمیم کی جا سکتی ہے، لیکن اس کے بنیادی ڈھانچے میں نہیں۔یہ فیصلہ بعد کے سالوں، بالخصوص ایمرجنسی کے بعد، جب تمام آئینی ضمانتوں کو ختم کرنے کی مانگ کی گئی تھی — سیاسی طور پر یقین اور عقیدے کا معاملہ رہا ،جہاں تمام جماعتیں متفق تھیں۔

اسی لیےیہ چونکا دینے والی بات ہے کہ اس پر ہندوستان کے نائب صدر نے ایسے وقت میں سوال اٹھایا ہے جب ہندوستان جی–20 کی صدارت کرتے ہوئے خود کو ‘فادر آف ڈیموکریسی’کے طور پر پیش کر رہا ہے!

نائب صدر جگدیپ دھن کھڑ نے کیسوانند بھارتی کیس کے فیصلے کے قانونی جواز پر سوال اٹھایا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ پارلیامنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا خودمختار حق ہونا چاہیے، چاہے وہ بنیادی ڈھانچے، جو بنیادی حقوق کی بھی وضاحت کرتا ہے، کی خلاف ورزی ہی کیوں نہ کرے۔

سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل، جو دھن کھڑ (جو خود سپریم کورٹ کے بار کے رکن ہیں) کو قریب سے جانتے ہیں اور ان کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں، کہتے ہیں کہ انہیں یاد نہیں ہے کہ دھن کھڑنے کبھی کیسوانند بھارتی کیس  کے فیصلے کی مخالفت کی ہو۔ دراصل، یہ بلا استثناماہرین قانون کے لیے ایمان اور عقیدے  کا موضوع رہا ہے۔

تو نائب صدر دھن کھڑ کے لیے 1973 کے فیصلے،جس کی دور اندیشی کے لیے بڑی تعریف کی گئی تھی ، اس پر سوال اٹھانے کا محرک کیاہے، ؟ دھن کھڑ کے سابق بار ساتھی حیران ہیں کہ یہ کیسے ہو گیا؟ اپوزیشن لیڈروں نے بھی حیرانی اور بے اعتنائی کے ساتھ اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

راجیہ سبھا کے رکن پارلیامنٹ اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میں دھن کھڑ کے ایک پرانے ساتھی وویک تنکھا نے لوگوں کو یاد دلانے کے لیے ٹوئٹ کیاہے کہ پارلیامنٹ میں اٹل بہاری واجپائی اور ارون جیٹلی جیسے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنماؤں نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی تئیں وفاداری کا حلف لیا ہے۔ تنکھا نے مجھے بتایا کہ وہ پارلیامنٹ میں ان نامور لیڈروں کے بیانات کا جائزہ لیں گے، جنہوں نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کو مقدس مانا تھا، جیسا کہ کیسوانند بھارتی کیس نے بھی اس کو ثابت کیا تھا۔

سابق وزیر خزانہ اور بار کے سینئر رکن پی چدمبرم نے کہا، راجیہ سبھا کے معزز چیئرمین غلط ہیں جب  وہ یہ کہتے ہیں کہ پارلیامنٹ سپریم ہے۔ آئین سپریم ہے۔ اس فیصلے (کیسوانند بھارتی)  کی بنیاد یہی تھی کہ آئین کے بنیادی اصولوں پر اکثریتی  حملے کو روکا جاسکے۔

دھن کھڑ کے بیان کا وقت بھی غلط ہے، کیوں کہ انہوں نے ایسا اس وقت کہا جب پی ایم مودی جی – 20 کی ہندوستان کی صدارت کو ملک گیر جشن کے طور پر پیش کرکے ہندوستان کو ‘فادر آف ڈیموکریسی’ بتانے میں لگے ہیں۔ یقیناً یہ حکمران جماعت کو عالمی برادری کے سامنے شرمندہ کرے گا کہ ایک اعلیٰ آئینی عہدیدار اس طرح کے خیالات رکھتا ہے۔

گزشتہ دنوں ہی اعلیٰ عدالتی تقرریوں کے لیے پارلیامنٹ کے ذریعے منظور کیے گئے قومی عدالتی تقرری کمیشن ایکٹ 2015 کے مسترد کیے جانے پر دھن کھڑ بڑے تنقیدی موڈ میں تھے۔ نائب صدر جمہوریہ نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا اس قانون کو مسترد کرنا ‘پارلیامانی خودمختاری کے گمبھیر سمجھوتے اور عوام کے مینڈیٹ کو نظر انداز کرنے کی ایک واضح مثال ہے’۔

کوئی نہیں جانتا کہ کیا نائب صدر کے حالیہ ریمارکس سپریم کورٹ کو کوئی پیغام دینے کے بڑے منصوبے کا حصہ ہیں یا نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے کے بارے میں دھن کھڑکے نظریے پر حکمران جماعت کے کسی بھی شخص نے  ابھی تک کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ ہمیں انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا پڑے گا کہ عدلیہ کا اس پر کیا ردعمل ہے۔

(اس رپورٹ کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)